لارڈز کے تاریخی کرکٹ گراؤنڈ میں بدھ سے آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا فائنل آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان شروع ہونے جا رہا ہے۔
دونوں ٹیمیں اپنے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ انگلینڈ پہنچ چکی ہیں، اور اس اہم اور تاریخی میچ کے لیے خود کو تیار کر رہی ہیں۔
جنوبی افریقہ کے لیے یہ پہلا موقع ہے جب وہ فائنل میں پہنچے ہیں تاہم آسٹریلیا دوسری بار فائنل کھیل رہا ہے اور اس وقت تک وہی چیمپیئن ہے۔
آسٹریلیا نے دو سال قبل انڈیا کو شکست دے کر ٹائٹل جیتا تھا جبکہ انڈیا دو بار فائنل میں پہنچ کر بھی ناکام رہا ہے۔ پہلی بار نیوزی لینڈ نے ایک یقینی ڈرا میچ کو جیت میں تبدیل کردیا تھا، اور دوسری بار آسٹریلیا نے واضح شکست سے دوچار کیا۔
ٹیسٹ چییمپیئن شپ کیا ہے؟
آئی سی سی نے 30 سال قبل ہی اس بات کو محسوس کر لیا تھا کہ ٹیسٹ کرکٹ ایک ایسے دوراہے پر آچکی ہے جس میں شائقین کی دلچسپی بہت کم رہ گئی ہے اور 2017 میں جب چیمپیئنز ٹرافی ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تو ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے لیے راہ ہموار ہوگئی۔
تب آئی سی سی نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے ممالک کے درمیان دو سال کے عرصے میں تمام میچز کو اس کا حصہ بنا دیا، اور پوائنٹس سسٹم کے تحت پہلی دو ٹیموں کو فائنل کا حقدار قرار دیا۔
موجودہ ٹیسٹ چیمپیئن شپ 2023-2025 میں افغانستان، آئرلینڈ اور زمبابوے کے علاوہ تمام ٹیسٹ پلیئنگ ممالک کو میچز کھیلنے کا موقع ملا۔
انگلینڈ کی ٹیم کو سب سے زیادہ 22 میچز ملے جبکہ جنوبی افریقہ کو سب سے کم 12 میچز کھیلنے کو ملے۔
جنوبی افریقہ نے شاندار کارکردگی دکھائی اور 8 میچ جیت کر سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کیے جبکہ آسٹریلیا نے اسی عرصہ میں 19 میچز کھیلے جن میں سے 13 میچ جیتے، اور پوائنٹس ٹیبل پر دوسری پوزیشن پر رہے۔
دونوں ممالک نے پاکستان کو ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کر کے اپنی پوزیشن بہتر کی۔ اس کے برعکس پاکستان جس نے 14 میچز کھیلے اور صرف 5 میچ جیت سکی۔
اگرچہ پاکستان کے پاس موقع تھا اگر وہ بنگلہ دیش سے دو ٹیسٹ جیت جاتی تو دوسری پوزیشن پر آ سکتی تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
دوسری طرف انڈیا جس نے پہلے دونوں فائنل کھیلے تھے۔ وہ نیوزی لینڈ سے ہوم سیریز ہار کر تیسرے فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگئی۔ نیوزی لینڈ جس نے پہلا فائنل جیتا تھا اپنی بہترین شروعات کے باوجود سری لنکا اور بنگلہ دیش سے سیریز ہارگئی۔
اس کی وجہ ان کے اہم کھلاڑیوں کی عدم شرکت تھی۔
جنوبی افریقہ بے مثال
اگرچہ ساؤتھ افریقہ کی ٹیم اس معیار کی ابھی نہیں ہے جیسے گریم سمتھ کی کپتانی میں اس صدی کے اوائل میں تھی لیکن پانچ سال پہلے جس طرح ٹیم منتشر اور شکست خوردہ تھی جس پر اے بی ڈی ویلیئیر نے مایوس ہوکر اپنی ریٹائرمنٹ واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔
اب اس میں بہت بہتری اور کارکردگی میں تسلسل آگیا ہے۔ ٹیم نے تینوں شعبوں میں مہارت بھی حاصل کر لی ہے اور جیت کا فارمولا بھی۔ انفرادی کارکردگی کے بجائے اب اجتماعی نتیجے پر توجہ ہے۔ ٹامبا باووما کی قیادت میں ٹیم متحد بھی ہے اور منظم بھی۔
بیٹنگ میں باووما کے ساتھ ایڈن مارکرم، ٹرسٹن سٹبس اور ٹونی ڈی زورزی اہم ستون ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مارکرم اچھی فارم میں ہیں، جبکہ اہم شمولیت نوجوان کوربن بوش کی ہے جنھوں نے تیزی سے خود کو اہم آل راؤنڈر ثابت کیا ہے۔
مارکو یانسن اور ریان رکیلٹن بوقت ضرورت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بولنگ ساؤتھ افریقہ کی مضبوط اور مکمل ہے جہاں کگیسو ربادا، نگیڈی اور پیٹرسن لارڈز کی پچ پر فاسٹ بولنگ کریں گے جبکہ کیشپ مہاراج سپنر ہوں گے۔
مجموعی طور پر ساؤتھ افریقہ کی ٹیم متوازن نظر آتی ہے۔
آسٹریلیا روایتی خطرناک
آسٹریلیا اپنے بہترین کرکٹ سٹرکچر اور بہتر سے بہتر ٹیلنٹ کی تلاش کے باعث ابتدائے کرکٹ سے ایک زبردست ٹیم رہی ہے۔ وہ دفاعی چیمپیئن بھی ہے اور آئندہ چیمپیئن کے لیے فیوریٹ ہے اور زیادہ تر مبصرین اسے چیمپیئن دیکھ بھی رہے ہیں۔
پیٹ کمنز کی بے نظیر قیادت نے آسٹریلیا کو ایک بار پھر ایک ناقابل شکست ٹیم بنا دیا ہے۔ بیٹنگ میں اگر تجربہ کار عثمان خواجہ، ٹریویس ہیڈ اور سٹیو سمتھ جیسے بلے باز ہیں تو نوجوان سیم کونسٹن بھی ہیں جو انڈیا کے خلاف پہلے ہی ٹیسٹ میں جارحانہ بیٹنگ سے نئے ڈیوڈ وارنر سمجھے جا رہے ہیں۔
مڈل آرڈر بھی بہت قوی ہے۔ کیمرون گرین اور مارنس لبوشین اصل قوت ہیں۔
بولنگ میں خود کپتان کمنز اور پھر مچل سٹارک ہیں۔ ان کے ساتھ سکاٹ بولینڈ اور جوش ہیزل ووڈ میں مقابلہ ہے کہ کون کھیلے گا۔
دونوں بہت ہی خطرناک بولرز ہیں۔ سپن بولنگ کا سارا زور نیتھن لائن پر ہوگا۔ آسٹریلیا بظاہر ایک بہت ہی مضبوط اور جیت کی حقدار ٹیم نظر آتی ہے۔
لارڈز کی پچ
کرکٹ کا ہیڈکوارٹر لارڈز جس کو سب سے زیادہ انٹرنیشنل فائنلز کا اعزاز حاصل ہے اپنے انداز اور روایات کے باعث دنیائے کرکٹ میں ایک انتہائی منفرد خصوصیات کا حامل ہے۔
یہاں ہر چیز یادگاری اور قابل تقلید ہوتی ہے۔ اس کے صدر دروازے سے گراؤنڈ کی پچ تک ہر چیز قابل دید ہے اور آنے والے گھنٹوں اس میں محو رہتے ہیں۔
فائنل کی پچ کے لیے اب تک یہی کہا جا رہا ہے کہ ایک متوازن اور ہموار پچ ہوگی۔ پہلے دو دن پچ پر تیزی بھی ہوگی اور باؤنس بھی ہوگا لیکن باؤنس ہموار ہوگا۔
لارڈز کی پچ واحد پچ ہے جسے سینٹی میٹرز میں تیار کیا جاتا ہے اور چھوٹے سے چھوٹے سپاٹ کو بھی ہموار کیا جاتا ہے۔ پچ پر اگرچہ کچھ فرق پڑے گا لیکن آخری دن تک بیٹنگ اور بولنگ دونوں کے لیے برابر مواقع ہوں گے۔
توقع ہے کہ ٹاس جیتنے والی ٹیم بیٹنگ کو ترجیح دے گی۔ اگرچہ موسم سرد رہے گا اور بارش کی بھی پیشن گوئی ہے لیکن اگر پچ پر کچھ پیس زیادہ ہوا تو شاید میچ وقت سے پہلے ختم ہو جائے۔