’فتح و شکست قبول کرنی ہوگی تاکہ الیکٹڈ حکومت آئے‘

جنرل قمر جاوید باجوہ نے بطور آرمی چیف اپنے آخری خطاب میں کہا ہے کہ اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں عدم برداشت اور میں نہ مانوں کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔

پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بطور آرمی چیف اپنے آخری خطاب میں کہا ہے کہ اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں عدم برداشت اور میں نہ مانوں کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔

راولپنڈی میں واقع جی ایچ کیو میں یوم دفاع و شہدا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ یہ ان کا بطور آرمی چیف آخری خطاب ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں بعض پارٹیوں نے آر ٹی ایس کے بیٹھنے کو بہانہ بنا کر جیتی ہوئی پارٹی کو سلیکٹڈ کا لقب دیا اور 2022 میں اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کو امپورٹڈ کا لقب دیا۔ ہمیں اس رویے کو رد کرنا ہوگا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہار جیت سیاست کا حصہ ہے۔ ہر پارٹی کو اپنی فتح اور شکست کو قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا تاکہ اگلے الیکشن میں ایک امپورٹڈ یا سلیکٹڈ کے بجائے ایلیکٹڈ حکومت آئے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جمہوریت حوصلہ برداشت اور رائے عامہ کے احترام کا نام ہے۔ اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں عدم برداشت اور میں نہ مانوں کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔‘

اس موقع پر آرمی چیف نے فوج پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں کافی سالوں سے اس بات پر غور کر رہا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی ہندوستانی فوج کرتی ہے، مگر ان کے عوام کم و بیش ہی ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔‘

’اس کے برعکس ہماری فوج جو دن رات قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے، گاہے بگاہے تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ 70 سال سے فوج کی مختلف صورتوں میں سیاست میں مداخلت ہے، جو کہ غیر آئینی ہے۔‘

’اس لیے پچھلے سال فروری میں فوج نے بڑی سوچ و بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس پر سختی سے کاربند ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔‘

’تاہم اس آئینی عمل کا خیرمقدم کرنے کے بجائے کئی حلقوں نے فوج کو شدید تقنید کا نشانہ بنا کر بہت غیر مناسب اور غیر شائستہ زبان کا استعمال کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’فوج پر تنقید عوام اور سیاسی پارٹیوں کا حق ہے، لیکن الفاظ کا چناؤ اور استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے۔‘

’ایک جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کی گئی اور اب اس جھوٹے بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔‘

جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ’میں آپ کو واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ فوج کی قیادت کچھ بھی کر سکتی ہے مگر کبھی ملک کے مفاد کے خلاف نہیں جا سکتی۔‘

’کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ملک میں ایک بیرونی سازش ہو اور مسلح افواج ہاتھ پر ہاتھ دھری بیٹھی رہیں گی۔ یہ ناممکن ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ فوج اور عوام میں دراڑ ڈال دیں گے وہ بھی ہمیشہ ناکام ہوں گے۔‘

آرمی چیف نے کہا کہ ’فوجی قیادت کے پاس بھی اس نامناسب یلغار کا جواب دینے کے لیے بہت سے مواقع اور وسائل موجود تھے لیکن فوج نے ملک کے وسیع تر مفاد میں حوصلے کا مظاہرہ کیا کوئی بھی منفی بیان دینے سے اجتناب کیا۔‘

’مگر سب کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اس صبر کی بھی ایک حد ہے۔ میں اپنے اور فوج کے خلاف اس نامناسب اور جارحانہ رویے کو درگزر کر کے آگے بڑھنا چاہتا ہوں، کیونکہ پاکستان سب سے افضل ہے۔ افراد اور پارٹیاں تو آتی جاتی رہتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان آج سنگین معاشی مشکلات کا شکار ہے اور کوئی بھی ایک پارٹی پاکستان کو اس معاشی بحران سے نکال نہیں سکتی۔ جس کے لیے سیاسی استحکام لازم ہے۔‘

’میں یہاں کچھ حقائق درست کرنا چاہتا ہوں‘

پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بطور آرمی چیف اپنے آخری خطاب میں کہا ہے کہ سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں ایک سیاسی ناکامی تھی۔

انہوں نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ’میں آج ایک ایسے موضوع پر بھی بات کرنا چاہتا ہوں جس پر عموماً لوگ بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اور یہ بات 1971 میں ہماری فوج کی سابقہ مشرقی پاکستان میں کارکردگی سے متعلق ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہاں کچھ حقائق درست کرنا چاہتا ہوں۔‘

آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ’سب سے پہلے سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں ایک سیاسی ناکامی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سابقہ مشرقی پاکستان میں لڑنے والے فوجیوں کی تعداد 92 ہزار نہیں صرف 34 ہزار تھی، باقی لوگ مختلف سرکاری شعبوں میں تھے اور ان 34 ہزار لوگوں کا مقابلہ ڈھائی انڈین آرمی، دو لاکھ تربیت یافتہ مکتی بینی سے تھا لیکن ان تمام کے باوجود فوج بہت بہادری سے لڑی۔‘

’پاکستانی فوج نے جو بے مثال قربانیاں پیش کیں ان کا اعتراف خود انڈین آرمی چیف فیلڈ مارشل مانک شاہ نے بھی کیا ہے۔ لیکن ان بہادر شہیدوں اور غازیوں کی قربانیوں کا اعتراف آج تک قوم نے نہیں کیا جو کہ بہت بڑی زیادتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان