پاکستانی فوج کا سربراہ کون کون رہا، کس طرح بنا؟

پاکستانی فوج کے 17 سربراہوں کی تاریخ، جن میں سے کسی نے مارشل لا لگایا تو کسی نے توسیع لینے ہی سے انکار کر دیا۔

پاکستان میں اب تک کل 17 آرمی چیف گزرے ہیں (اے ایف پی)

29 نومبر کو پاکستانی فوج کے نئے سربراہ کی حیثیت سے جنرل عاصم منیر اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں۔ ان سے پہلے کون کون اس اہم عہدے پر رہا اور ان کے دور میں پاکستان کن حالات سے گزرتا رہا، اس کا جائزہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔

 جنرل فرین والٹر میسروی

(اگست 1947 تا 10 فروری 1948)

پاکستان آرمی کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق جنرل سرفرینک والٹر میسروی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے چیف بنے۔ پاکستان کے قیام سے پہلے وہ برٹش آرمی کی ناردرن کمانڈ کی سربراہی کر رہے تھے، شاید یہی وجہ تھی کہ انہیں پاکستانی فوج کا پہلا سربراہ بنایا گیا۔ وہ 1893 میں پیدا ہوئے اور 1913 میں انڈین آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔ انہوں نے پہلی اور دوسری دونوں عالمی جنگوں میں حصہ لیا۔

کشمیر کی پہلی جنگ میں انڈیا کی جانب سے ان پر الزام لگایا گیا کہ قبائلیوں کو ان کی منظوری کے بعد کشمیر میں بھیجا گیا تھا حالانکہ جب قبائلیوں نے حملہ کیا تو میسروی اس وقت لندن میں تھے۔ جب وہ واپس آتے ہوئے دہلی ایئر پورٹ پر اترے تو بھارتی حکام نے انہیں روک لیا، جس پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یقین دہانی کروائی کہ کشمیر کی کارروائی ان کے علم میں نہیں تھی۔ 12 نومبر1947 کو انہوں نے ایک خط جاری کیا جس میں انہوں نے اس الزام کی تردید کی کہ کشمیر آپریشن میں پاکستانی فوج کا کوئی حاضر سروس آفیسر ملوث ہے۔ پاکستان نے یہ خط ثبوت کے طور پر سلامتی کونسل میں پیش کیا۔

جنرل ڈگلس ڈیوڈ گریسی

(11فروری 1948 تا 16جنوری 1951)

جنرل گریسی نے پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں شرکت کی تھی۔ پاکستانی فوج کا سربراہ بننے سے پہلے وہ جی ایچ کیو میں چیف آف سٹاف کے عہدے پر تھے۔ انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کا کشمیر میں فوجیں بھیجنے کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا بلکہ یہ معاملہ وہ جنرل کلاڈ اوچن لیک کے نوٹس میں لے آئے جو اس وقت پاکستان اور انڈیا دونوں فوجوں کے مشترکہ سپریم کمانڈر تھے اور جنہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع میں برطانوی فوجی غیر جانبدار رہیں گے۔ تاہم ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اپنی کتاب ’پاکستان ایک عسکری ریاست‘ میں لکھا ہے کہ قائداعظم نے جنرل گریسی کو کشمیر پر حملہ کرنے پر قائل کر لیا تھا اور اپریل 1948 کے نصف میں پاکستانی دستے کشمیر میں داخل ہو گئے۔

فیلڈ مارشل محمد ایوب خان

(17 جنوری1951 تا 26 اکتوبر 1958)

ایوب خان 14 مئی1907 کو ایبٹ آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میرداد خان بھی برطانوی فوج میں رسالدار میجر تھے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے کہ 1926 میں برطانوی فوج میں کمیشن مل گیا۔ جب پاکستان قائم ہوا تو ایوب خان اس وقت بریگیڈیئر تھے۔ ان سے زیادہ سینیئر میجر جنرل افتخار تھے جنہیں جنرل گریسی کے بعد پاکستانی فوج کا پہلا کمانڈر ان چیف نامزد کر دیا گیا تھا لیکن 13 دسمبر1949 کو وہ لاہور سے کراچی جاتے ہوئے ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے۔

میجر جنرل اکبر خان، جنرل افتخار سے بھی سینیئر تھے لیکن سکندر مرزا نے جو اس وقت سیکریٹری ڈیفنس تھے، لیاقت علی خان کو قائل کیا کہ وہ ایوب خان کو چیف بنائیں۔ اس پر ایوب خان پاکستانی فوج کے پہلے پاکستانی سربراہ بنے۔ ڈاکٹر اشتیاق لکھتے ہیں کہ ایوب نے امریکیوں کو قائل کر لیا کہ وہ پاکستان کی فوجی مدد کریں۔

پاکستان 1954 میں سینٹو میں شامل ہو گیا۔ ملک میں ابتر سیاسی صورت حال میں صدر سکندر مرزا نے سات اکتوبر1958 کو ملک فوج کے حوالے کرتے ہوئے جنرل ایوب کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ 1960 میں ایک متنازع ریفرنڈم کے نتیجے میں وہ اگلے پانچ سال کے لیے ملک کے صدر بن گئے۔ ان کا دور پاکستان میں معاشی اور دفاعی ترقی کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ ان کے دور میں انڈیا کے ساتھ 1965 کی جنگ ہوئی، تاہم جنگ کے خاتمے کے بعد ہی ان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو ان کے مخالف بن گئے۔ ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہو گئی جس کے بعد انہوں نے 25 مارچ 1969 کو استعفیٰ دے دیا۔

جنرل محمد موسیٰ خان

(27 اکتوبر 1958 تا 17 ستمبر1966)

جنرل موسیٰ 20 اکتوبر 1908 کو کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے سربراہ یزدان خان کے گھر پیدا ہوئے۔ 1926 میں برٹش انڈین آرمی میں شمولیت کے بعد 1935 میں کمیشن حاصل کیا۔ بعد میں برما اور افریقہ کے محاذ پر دوسری جنگ عظیم میں لڑے۔ پاکستان بنتے وقت بریگیڈیئر کے رینک پر تھے۔ انہوں نے کشمیر کی پہلی جنگ میں بھی حصہ لیا۔ ایوب خان نے جب ملک میں مارشل لگایا تو اس کے بعد وہ فیلڈ مارشل بن گئے اور فوج کی سربراہی انہوں نے جنرل موسیٰ کے سپرد کر دی۔

پاکستان نے 1965کی جنگ بھی ان کی سربراہی میں لڑی۔ انہیں کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے دو بار ایکسٹینشن دی گئی۔ جنگ کے بعد وہ ریٹائر ہو گئے اور انہیں گورنر مغربی پاکستان تعینات کر دیا گیا۔ 1985 میں انہیں گورنر بلوچستان لگایا گیا اور 1991 میں اپنی وفات تک وہ گورنر کے عہدے پر تھے۔

جنرل آغا محمد یحییٰ خان

(18 ستمبر تا 20 دسمبر1971)

جنرل یحییٰ خان کے دور میں 1971 کی جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا، اس لیے انہیں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یحییٰ خان پٹھانوں کے کرلانی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد چکوال میں بطور پولیس افسر تعینات تھے جہاں وہ چار فروری 1917 کو پیدا ہوئے۔ 

پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد انہوں نے 1939میں برٹش انڈین آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران شمالی افریقہ کے محاذ پر گرفتار کر لیے گئے اور اٹلی میں جنگی قیدی بنائے گئے۔ 34 سال کی عمر میں وہ فوج کے سب سے کم عمر بریگیڈیئر بن گئے۔ جنرل موسیٰ کے دور میں وہ چیف آف جنرل سٹاف رہے۔ صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ایوب خان کی مدد کی۔ جس پر صدر ایوب نے انہیں ان سے دو سینیئر جرنیلوں لیفٹیننٹ جنرل الطاف قادر اور لیفٹیننٹ جنرل بختیار رانا پر ترجیح دیتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف بنا دیا۔

بعد میں صدر ایوب نے جب استعفیٰ دیا تو انہوں نے اقتدار جنرل یحییٰ کے سپرد کر دیا جنہوں نے 25 مارچ 1969 کو مارشل لا لگا دیا۔ ادھر مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہو رہے تھے۔ اسی ماحول میں 1970 کے انتخابات کروائے گئے جن کے نتیجے میں سیاسی استحکام کی بجائے ابتری آئی اور مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہو گیا۔ اس دوران انڈیا نے مداخلت کرتے ہوئے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔

اس طرح 16 دسمبر 1971 کو فوج نے ہتھیار پھینک دیے اور مشرقی پاکستان نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد سے آج تک یہ بحث جاری ہے کہ یہ فوجی شکست تھی یا سیاسی؟ جنرل یحییٰ نے سقوطِ ڈھاکہ کے چوتھے روز ہی استعفیٰ دے کر اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا۔

جنرل گل حسن

(20 دسمبر1971 تا 21 جنوری 1972)

جنرل گل حسن کا تعلق بھی پشتون گھرانے سے تھا اور وہ کوئٹہ میں 1921 میں پیدا ہوئے۔ 1941 میں انہوں نے ملٹری اکیڈمی ڈیرا دون میں کمیشن حاصل کیا اور دوسری عالمی جنگ میں برما کے محاذ پر شرکت کی۔ 1965 کی جنگ میں وہ ڈی جی ملٹری آپریشنز رہے، جس پر آپ کو ستارہ پاکستان کا اعزاز دیا گیا۔ 1966 میں انہیں چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔

کہا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہونے والے فوجی آپریشن کے پیچھے بھی انہی کی حکمت عملی تھی۔ ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ وہ اچھے کمانڈر تھے لیکن انہیں جغرافیائی حالات کا درست اندازہ نہیں تھا۔

سقوطِ ڈھاکہ کے فوراً بعد ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں بلایا اور آرمی کی کمان سنبھالنے کی دعوت دی جس کو انہوں نے مسترد کر دیا لیکن پھر وہ تیار ہو گئے، لیکن حمود الرحمٰن کمیشن کے معاملے پر ان کے بھٹو سے اختلافات ہوئے۔ کمیشن کی سفارشات پر انہیں عہدے سے معزول کر کے جنرل ٹکا خان کو چیف آف آرمی سٹاف لگا دیا گیا۔

بھٹو نے انہیں آسٹریا میں پاکستان کا سفیر لگا کر بھیج دیا۔ اس کے بعد وہ یونان میں بھی سفیر رہے اور پھر 1977 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف بطور احتجاج اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ 1999 میں ان کا انتقال ہو گیا اور انہیں ان کے آبائی علاقے پبی نوشہرہ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

جنرل ٹکا خان

(تین مارچ 1972 تا یکم مارچ 1976)

جنرل ٹکا خان 10 فروری 1915 کو تحصیل کہوٹہ، راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور 1935 میں برٹش انڈین آرمی میں بطور جاسوس بھرتی ہو گئے۔ وہاں سے 1940 میں کمیشن حاصل کیا اور دوسری عالمی جنگ میں لیبیا، برما اور جاپان کے محاذوں اپنی خدمات سرانجام دیں۔ 1965 کی جنگ میں ٹکا خان آٹھویں انفنٹری ڈویژن کے جی او سی تھے، جس نے رن آف کچھ کا مشہور معرکہ لڑا جسے دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی قرار دیا جاتا ہے۔ یحییٰ خان نے جب مارشل لا لگایا تو جنرل ٹکا خان پنجاب میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے۔

مارچ میں جنرل ٹکا خان کو ڈھاکہ میں فوج کی کمان دے کر بھیجا گیا۔ انہیں ’آپریشن سرچ لائٹ‘ کا معمار کہا جاتا ہے، جس کے دوران بنگالی عوام کی نسل کشی کی گئی۔

بھٹو کو جب اقتدار ملا اور انہوں نے گل حسن کو پہلا آرمی چیف لگایا اور پھر انہیں سبکدوش کر دیا تو ان کی نگاہ انتخاب ٹکا خان پر ٹھہری۔ ٹکا خان بھی بھٹو کے ساتھ وفادار رہے۔ 1974 میں انہوں نے بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف کامیاب آپریشن کیا۔ ان کا شمار پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے اولین معماروں میں ہوتا ہے۔

جب وہ ریٹائر ہوئے تو بھٹو نے اگلا آرمی چیف ضیا الحق کو لگانے کے لیے ان سے رائے مانگی تو انہوں نے بھٹو کو منع کیا کیونکہ ان کے خیال میں ضیا اس عہدے کے اہل نہیں تھے اور نئے چیف کے امیدواروں میں سب سے جونیئر بھی۔ ٹکا خان نے ریٹائرمنٹ کے بعد پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ انہیں بھٹو کا مشیر برائے قومی سلامتی تعینات کر دیا گیا۔ اس کے بعد جب ضیا نے مارشل لگایا تو بھٹو کے ساتھ انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔

بھٹو کی پھانسی کے بعد ٹکا خان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل بنائے گئے۔ ضیا دور میں انہیں کئی بار جیل میں بند کیا گیا۔ 1988 میں جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں تو انہیں گورنر پنجاب لگایا گیا۔ 28 مارچ 2002 کو وہ 87 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

جنرل محمد ضیاء الحق

(یکم مارچ 1976 تا 17 اگست 1988)

جنرل ضیاء الحق 12 اگست 1924 کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ 1945 میں وہ برٹش انڈین آرمی کے اس آخری بیج کا حصہ تھے جو ڈیرہ دون سے فارغ التحصیل ہوا تھا۔ 64-1962 تک ضیاء الحق ان فوجی افسران میں شامل تھے جنہیں امریکہ میں فوجی تربیت کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ اردن میں تعیناتی کے دوران انہوں نے فلسطینیوں کے خلاف ایک آپریشن کیا جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے، جس پر یحییٰ خان نے ان کے کورٹ مارشل کی سفارش کی۔

میجر جنرل اے کیو مٹھا کے مطابق یہ جنرل گل حسن تھے جنہوں نے انہیں بچایا۔ جب بھٹو نے انہیں آرمی چیف لگایا تو ان سے جو سینیئر جرنیل موجود تھے ان میں لیفٹیننٹ جنرل محمد شریف، اکبر خان، آفتاب احمد، عظمت بخش اعوان، ابراہیم اکبر، عبد المجید ملک اور غلام جیلانی خان شامل تھے۔

 1977 کے عام انتخابات کے بعد بھی جب سیاسی حالات نہ سنبھلے اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے دھاندلی کے الزامات لگا کر نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو ملک میں ہنگامے شروع ہو گئے جس پر ضیاء الحق نے 21 اپریل 1977 کو ملک میں مارشل لا لگا دیا۔ بھٹو اور ان کی کابینہ کے اراکین کو گرفتار کر لیا گیا اور ضیا نے 90 دن کے اندر انتخابات کروانے کا وعدہ کیا، تاہم بعد میں انہوں نے پہلے احتساب اور پھر انتخابات کا نعرہ لگا دیا۔ اس دوران کئی نامی گرامی سیاست دانوں کو نااہل قرار دے دیا گیا اور بھٹو کو ایک متنازع مقدمے میں پھانسی دے دی گئی۔

1979 میں تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی۔ 1981 میں مجلس شوریٰ قائم کر کے وہ سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ 1984 میں ملک میں کروائے گئے ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں صدر بن گئے اور فروری 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروا کے محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا دیا گیا، لیکن پھر 29 مئی 1988 کو قومی اسمبلی کو برخاست کر کے جونیجو کی حکومت ختم کر دی ۔

افغان جنگ کی وجہ سے امریکی انتظامیہ سے ان کے قریبی تعلقات رہے لیکن دوسری طرف انہیں ملک میں رواداری اور روشن خیالی کی جگہ انتہا پسندانہ اقدار کے فروغ کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ 17 اگست 1988 کو وہ فوجی جہاز کے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔

جنرل مرزا اسلم بیگ

(17 اگست 1988 تا 16 اگست 1991)

جنرل مرزا اسلم بیگ دو اگست 1931 کو اتر پردیش میں پیدا ہوئے اور 1950 میں پی ایم اے کاکول میں کمیشن حاصل کیا۔ 1958 میں سپیشل فورسز گروپ کی تربیت حاصل کرنے کے لیے امریکہ چلے گئے۔ انہوں نے 1965 اور1971 کی جنگوں میں حصہ لیا۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے وار سٹڈیز میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور وہیں پڑھانا شروع کر دیا۔

 1984 میں اسلم بیگ نے سیاچن کی جنگ کی نگرانی کی، جب وہ جی ایچ کیو میں چیف آف جنرل سٹاف تھے۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے انہیں وائس چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر ترقی دی کیونکہ وہی سب سے سینیئر جرنیل تھے حالانکہ ضیاء الحق جنرل زاہد علی اکبر کو ترقی دینا چاہتے تھے۔ ضیاء الحق کے حادثے کے بعد انہوں نے فوج کی کمان سنبھال لی۔ ان پر الزام لگا اور اس پر سپریم کورٹ میں کیس بھی چلا کہ انہوں نے 14 کروڑ روپے کے فنڈز 1990 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مخالف سیاست دانوں میں تقسیم کیے۔ ان پر ایران کے نیوکلیئر پروگرام کی مدد کا بھی الزام لگایا جاتا ہے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ایک تھنک ٹینک ’فرینڈز‘ اور ایک سیاسی جماعت ’عوامی قیادت پارٹی‘ کی بنیاد بھی رکھی۔

جنرل آصف نواز جنجوعہ

(16 اگست 1991 تا آٹھ جنوری 1993)

جنرل آصف نواز چکری راجگان جہلم میں 31 جنوری 1937 کو پیدا ہوئے۔ 1954 میں انہوں نے فوج میں کمیشن حاصل کیا اور پھر رائل ملٹری اکیڈمی برطانیہ میں تربیت کے لیے منتخب کر لیے گئے۔ پاکستان اور بھارت کی دونوں جنگوں میں حصہ لیا۔ 1985 میں پی ایم اے کے کمانڈنٹ بنائے گئے۔ جنرل آصف نواز جب کور کمانڈر کراچی تھے تو ان کے دور میں ایم کیو ایم اور سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کیا گیا۔

جب نواز شریف 1991 میں وزیراعظم تھے تو جنرل بیگ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جن چار جرنیلوں کی سمری چیف لگانے کے لیے ان کے پا س بھیجی گئی ان میں جنرل آصف نواز سب سے سینیئر جرنیل تھے جبکہ لیفٹیننٹ جنرل شمیم عالم دوسرے اور جنرل حمید گل چوتھے نمبر پر تھے۔ جنرل آصف نواز آٹھ جنوری 1993 کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔

جنرل وحید کاکڑ

(12 جنوری 1993  تا 12 جنوری 1996)

جنرل وحید کاکڑ 23 مارچ 1937 کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ وہ سردار عبد الرب نشتر کے بھتیجے تھے۔ 1956 میں انہوں نے پاکستانی فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ 65 کی جنگ کے بعد کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کینیڈا چلے گئے، پھر این ڈی یو سے ماسٹر کیا۔ 1993 میں وزارت دفاع نے ریٹائر ہونے والوں کی جو فہرست جاری کی اس میں جنرل کاکڑ کا نام بھی تھا لیکن پھر نواز شریف اور صدر اسحاق خان نے چھ سینیئر جرنیلوں پر فوقیت دیتے ہوئے انہیں چیف آف آرمی سٹاف بنا دیا۔ اس وقت لیفٹیننٹ جنرل فرخ نواز، جاوید ناصر، محمد اشرف، حامد نواز، عارف بنگش اور رحیم دل بھٹی ان سے سینیئر جرنیل تھے۔ بعد میں صدر اسحاق اور نواز شریف کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی جو 1993 میں عام انتخابات پر منتج ہوئی، جس کے نتیجے میں بےنظیر بھٹو دوبارہ وزیراعظم بن گئیں۔

کہا جاتا ہے کہ بےنظیر بھٹو نے انہیں ایکسٹینشن کی پیشکش کی تھی، جسے انہوں نے رد کر دیا تھا۔

جنرل جہانگیر کرامت

(12 جنوری 1996 تا سات اکتوبر 1998)

جنرل جہانگیر کرامت 20 فروری 1941 کو کراچی میں پیدا ہوئے اور 1958 میں انہوں نے فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ کرامت نے امریکہ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج سے گریجویشن اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے ماسٹر کیا۔ انہوں نے 65 اور 71 کی جنگوں میں بھی حصہ لیا۔ ایران عراق جنگ کے دوران پاکستانی دستے جو سعودیہ میں تعینات رہے، یہ بریگیڈیئر کی حیثیت سے ان کے کمانڈر رہے۔

1991 میں وہ ڈی جی رینجرز سندھ بنائے گئے۔ 1992 میں تھری سٹار جنرل کی حیثیت سے ملتان کور کی قیادت کی۔ 1994 میں جنرل وحید کاکڑ نے انہیں جی ایچ کیو میں چیف آف جنرل سٹاف لگا دیا۔ انہوں نے میجر جنرل ظہیر الاسلام کی جانب سے فوج میں بغاوت کی کوشش ناکام بنائی اور اس میں ملوث افسران کو سزائیں دلوائیں۔

جنرل وحید کاکڑ کی ریٹائرمنٹ پر اس وقت کی وزیراعظم بےنظیر بھٹو نے انہیں چیف آف آرمی سٹاف لگایا۔ وہ اس وقت سب سے سینیئر جرنیل تھے۔ ان کے دور میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے۔ نواز شریف جب دوسری بار وزیراعظم بنے تو انہیں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا اضافی عہدہ بھی دے دیا گیا۔

 اکتوبر 1998 میں انہوں نے نیول وار کالج سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل سکیورٹی کونسل کی تجویز پیش کی جس پر نواز شریف نے ان سے استعفی ٰ مانگ لیا۔ وہ مستعفی ہو کر امریکہ چلے گئے اور امریکی تحقیقی اداروں کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ مشرف دور میں وہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر بھی بنائے گئے۔

جنرل پرویز مشرف

(سات اکتوبر 1998 تا 29 نومبر 2007)

جنرل پرویز مشرف 11 اگست 1943 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ 1961 میں فوج میں کمیشن حاصل کیا اور 1965 کی جنگ میں کھیم کرن کے محاذ پر ان کی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں امتیازی سند سے نوازا گیا۔ جنگ کے بعد چھ سال تک وہ سپیشل سروسز گروپ میں رہے۔ انہوں نے سیاسیات اور وار سٹڈیز میں این ڈی یو اور کمانڈ اینڈ سٹاف کالج سے ڈگریاں حاصل کیں، اس کے بعد سیاچن کے محاذ پر سپیشل سروسز گروپ کو کمانڈ بھی کیا۔

پھر 1990 میں رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز میں کورس پر چلے گئے، جہاں اشوک مہتہ جو بعد میں بھارتی فوج میں میجر جنرل بنے وہ بھی ان کے کلاس فیلو تھے۔ 1993 سے دو سال تک مشرف ڈی جی ملٹری آپریشنز بھی رہے اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر بوسنیا کی جنگ میں کردار ادا کیا۔ نواز شریف نے جب اکتوبر1998 میں انہیں چیف آف آرمی سٹاف بنایا تو وہ کور کمانڈر منگلا تھے۔

جنرل کرامت کے استعفے کے بعد اگرچہ جنرل علی قلی خان سب سے سینیئر تھے اس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل خالد نواز تھے لیکن نواز شریف نے مشرف کو پہلے دو پر فوقیت دی، جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مشرف کی سفارش چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف نے کی تھی۔

کارگل جنگ اور فوج میں کچھ تعیناتیاں مشرف اور نواز شریف میں دوریوں کا باعث بنیں۔ 12 اکتوبر 1999 کو مشرف سری لنکا کے دورے سے واپس آ رہے تھے تو انہیں معلوم ہوا کہ نواز شریف نے انہیں برطرف کر کے جنرل ضیا الدین بٹ کو نیا آرمی چیف لگا دیا ہے، لیکن فوج نے نواز شریف کا حکم ماننے کے بجائے نواز شریف اور جنرل ضیا الدین بٹ کو گرفتار کر لیا۔

مشرف نے عنان حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لی اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک حکومت تشکیل دے دی جس میں شوکت عزیز کو وزیر خزانہ لگایا گیا اور نواز شریف پر طیارہ ہائی جیکنگ کا کیس بنا دیا گیا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نواز شریف کیس کا مستقبل بھی ذوالفقار علی بھٹو کیس کی طرح نظر آ رہا تھا کہ اس دوران دسمبر 2000 میں ایک معاہدے کے تحت نواز شریف اور ان کا خاندان سعودی عرب بدر کر دیا گیا۔

 12 مئی 2000 کو سپریم کورٹ نے مشرف کو حکم دیا کہ وہ 12 اکتوبر 2002 تک عام انتخابات کروا دیں۔ صدر رفیق تارڑ کے مستعفی ہونے کے بعد مشرف نے 20 جون 2001 کو خود کو صدر نامزد کرتے ہوئے لیگل فریم ورک آرڈر جاری کر دیا جس میں آئین میں کئی ترامیم کر دی گئی تھیں۔

30 جون کو کروائے گئے ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں وہ پانچ سال کے لیے صدر منتخب ہو گئے۔ اکتوبر 2002 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ق نے ایم ایم اے اور ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی۔ میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے مگر مشرف ان سے مطمئن نہیں تھے جس کی وجہ سے پہلے چوہدری شجاعت حسین کو مختصر مدت اور پھر شوکت عزیز کو ایم این اے منتخب کروانے کے بعد وزیراعظم بنا دیا گیا۔

مشرف کے دور میں 11 ستمبر کا واقعہ ہوا جس کی وجہ سے افغان جنگ میں پاکستان دہشت گردی کے خلاف امریکہ کا اتحادی بن کر سامنے آیا۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں شروع ہوئیں، تحریک طالبان بنی اور ملک بھر میں دہشت گردی پھیل گئی۔

دوسری جانب مشرف ایک روشن خیال رہنما بن کر ابھرے۔ ممتاز ایٹمی سائنسدان عبد القدیر جو مشرف کے سائنس کے مشیر بھی تھے، ان پر ایٹمی پروگرام دوسرے ممالک کو دینے کا الزام لگا، جس پر انہیں عہدے سے ہٹا کر نظر بند کر دیا گیا۔ مشرف کو قتل کرنے کے لیے کئی سازشیں ہوئیں مگر وہ ہر بار بچ نکلے۔ 2007 میں انہوں نے بےنظیر بھٹو کے ساتھ مفاہمت کر لی جس کا فائدہ نواز شریف کو بھی یہ ہوا کہ وہ بھی ملک میں واپس آ گئے۔ 2007 کا سال ان کے لیے بہت بھاری ثابت ہوا۔

چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ساتھ تنازعے کی وجہ سے وکلا نے ان کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کر دی۔ مشرف روز بروز کمزور ہوتے گئے۔ 28 نومبر2007 کو جنرل کیانی جو اس وقت وائس چیف آف دی آرمی سٹاف تھے، انہوں نے کمان ان کے سپرد کردی اور وہ خود صدر کے عہدے پر موجود رہے۔

تین نومبر کو مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ الیکشن مہم کے دوران بےنظیر بھٹو قتل ہو گئیں۔ 18 فروری 2008 کے عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی۔ دونوں بڑی جماعتوں نے مشرف کے خلاف چارج شیٹ دی کہ وہ یا مستعفی ہو جائیں یا ان کے خلاف مواخذے کی تحریک لائی جائے گی، جس پر مشرف نے 18اگست 2008 کو استعفیٰ دے دیا۔

17 دسمبر2019 کو انہیں آئین توڑنے پر سزائے موت سنائی گئی، تاہم لاہور ہائی کورٹ نے مشرف کے خلاف یہ فیصلہ معطل کر دیا۔ مشرف اس وقت ملک سے باہر ہیں جہاں وہ سخت علیل ہیں۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی

(29 نومبر2007 تا 28 نومبر2013)

جنرل اشفاق پرویز کیانی منگوٹ تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی میں 20 اپریل 1952 کو پیدا ہوئے۔ 1971 میں پی ایم اے سے فارغ التحصیل ہوئے۔ امریکی فوجی اداروں سے ڈگریاں لینے کے بعد این ڈی یو سے ماسٹر کیا۔ بےنظیر بھٹو کے ساتھ بطور ملٹری سیکریٹری کام کیا۔ 2000 میں ڈی جی ایم او رہے اور 2003 میں لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد ٹین کور کو کمانڈ کیا۔ ایک سال بعد ڈی جی آئی ایس آئی بن گئے۔

 اکتوبر2007 میں وائس چیف آف آرمی سٹاف بنائے گئے۔ مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد وہ چیف بن گئے۔ 13 فروری 2008 کو ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے تمام سول محکموں سے آرمی افسروں کو واپس بلا لیا اور فوج کی سیاست سے کنارہ کشی کا عندیہ دیا۔

ان کے دور میں فاٹا میں طالبان کے خلاف آپریشنز کا آغاز ہوا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ڈرون حملوں کے حوالے سے وہ امریکہ کے اہم اتحادی بن کر ابھرے، تاہم بعض معاملات پر ان کے واشنگٹن کے ساتھ اختلافات بھی رہے۔ ان کے دور میں امریکہ نے اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن کیا۔

جنرل راحیل شریف

(29 نومبر2013 تا 29 نومبر 2016)

جنرل راحیل شریف کا تعلق کنجاہ گجرات سے ہے، لیکن وہ 16 جون 1956 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف کو 1971 کی جنگ میں نشان حیدر دیا گیا تھا جبکہ میجر عزیز بھٹی نشانِ حیدر کا تعلق بھی ان کے ننھیال میں سے تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1976 میں وہ پی ایم اے سے فارغ التحصیل ہوئے۔ وہ کور ہیڈ کوارٹر گجرانوالہ اور کوئٹہ میں چیف آف سٹاف رہے۔ 2004 میں رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز سے گریجویشن کی۔ واپسی پر لاہور کور اور پی ایم اے کاکول میں خدمات سرانجام دیں۔ پھر کور کمانڈر گوجرانوالہ بھی رہے۔

پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں سعودی عرب میں کمانڈر ان چیف آف اسلامک ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کوالیشن بنا دیا گیا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ

(29 نومبر 2016 تا 29 نومبر2022)

جنرل قمر جاوید باجوہ کا تعلق گکھڑ منڈی سے ہے۔ وہ 11 نومبر1960 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ سرسید کالج اور گورڈن کالج راولپنڈی سے پڑھنے کے بعد 1978 میں ملٹری اکیڈمی کے لیے منتخب ہو گئے۔ 2003 میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں افریقہ میں خدمات سرانجام دیں جہاں ان کے ساتھ میجر جنرل بکرم سنگھ بھی تھے جو بعد میں بھارتی فوج کے سربراہ بنے۔ 2009 میں میجر جنرل بننے کے بعد شمالی علاقہ جات میں فورس کمانڈر رہے۔

ٹین کور میں تعینات رہنے کی وجہ سے لائن آف کنٹرول کی عسکری حرکیات سے انہیں بخوبی آگاہی تھی۔ چیف بننے سے پہلے جنرل باجوہ راحیل شریف کے پرنسپل سٹاف آفیسر بھی رہے۔ 29 نومبر 2016 کو نواز شریف نے سینیئر موسٹ جنرل زبیر حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف اور جنرل باجوہ، جو سینیارٹی میں چوتھے نمبر پر تھے، کو چیف نامزد کر دیا۔

انہوں نے دہشت گردی کے خلاف فروری 2017 میں آپریشن رد الفساد شروع کیا۔ اس دوران ان کے اور نواز شریف کے درمیان دوریاں پیدا ہو گئیں اور ان کے بارے میں قیاس کیا جانے لگا کہ وہ اپوزیشن کی جماعت تحریک انصاف کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

 25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں پی ٹی آئی نے سادہ اکثریت حاصل کر کے اتحادی حکومت بنا لی۔ نواز شریف اور ان کے رفقا کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ کے دباؤ کے وجہ سے عدالتوں سے انہیں نا اہل کیا گیا اور سزائیں دی گئیں ہیں لیکن ا س کے باوجود جب سپریم کورٹ کی جانب سے جنرل باجوہ کی توسیع کو غیر آئینی قرار دیا گیا تو پارلیمنٹ میں ان کی توسیع کے حوالے سے قانون سازی میں مسلم لیگ نے بھی حمایت کی۔

تاہم بعد میں عمران خان کے ساتھ بھی جنرل باجوہ کے اختلافات پیدا ہو گئے اور پھر عمران خان عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت سے الگ کر دیے گئے جسے عمران خان رجیم چینج کی ایک بیرونی سازش قرار دیتے ہیں۔

جنرل سید عاصم منیر

(29 نومبر 2022 تا حا ل)

جنرل عاصم منیر کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ پہلے چیف آف آرمی سٹاف ہیں جن کا تعلق پی ایم اے لانگ کورس سے نہیں بلکہ آفیسرز ٹریننگ سکول سے پاس ہونے والوں سے ہے۔ جنرل عاصم منیر آئی ایس آئی اور ایم آئی دونوں انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ رہ چکے ہیں۔

جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ وہ حافظ ِ قرآن ہیں اور سینیارٹی کے حوالے سے سب سے سینیئر تھے، جس پر وزیراعظم شہباز شریف نے انہیں چیف آف دی آرمی سٹاف مقرر کر دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ