انڈونیشیا: شادی کے بغیر جنسی تعلقات پر قید کی سزا کا قانون منظور

اس جرم کی سزا ملکی اور غیر ملکی افراد کے لیے بلا تفریق ایک سال تک قید ہو گی۔

انڈونیشیا کے علاقے بندے آچے میں 28 جنوری، 2021 کو شریعہ پولیس ہم جنس پرستی کے الزام کا سامنا کرنے والے ایک شخص پر کھلے عام کوڑے مار رہی ہے (اے ایف پی)

دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا کی پارلیمنٹ نے ایک نئے فوجداری ضابطے کی توثیق کی ہے جس کے تحت شادی کے بغیر جنسی تعلقات کو جرم قرار دیا گیا ہے۔

اس جرم کی سزا ملکی اور غیر ملکی افراد کے لیے بلا تفریق ایک سال تک قید ہو گی۔

ترمیم شدہ قانون کے تحت شادی کے بغیر جنسی تعلقات کی سزا ایک سال تک قید اور ساتھ رہنے کی سزا چھ ماہ تک کرنے سے متعلق متعدد دفعات پر نظر ثانی کی گئی ہے۔

تاہم قانون کے تحت کارروائی ملزم کے شریک حیات، والدین یا بچوں کی طرف سے درج مقدمے کے بعد ہی ممکن ہو گی۔

اس متنازع قانون میں صدر یا ریاست کی توہین کرنے اور ایسے خیالات کے اظہار پر پابندی بھی شامل ہے جو ریاستی نظریے کے خلاف ہیں۔  قانون کے تحت صرف صدر مملکت ہی توہین کیے جانے کی شکایت کر سکیں گے، جس پر تین سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

نیا ضابطہ صدر کے دستخط کے بعد نافذ ہو جائے گا لیکن اس پر فوری عمل درآمد نہیں کیا جائے گا کیونکہ پرانے ضابطے سے نئے ضابطے میں منتقلی میں زیادہ سے زیادہ تین سال لگیں گے۔

قانون اور انسانی حقوق کے نائب وزیر ایڈورڈ ہیرائی نے کہا ’اس (نئے کریمنل کوڈ) میں بہت سے قواعد و ضوابط ہیں جن پر کام کرنا ضروری ہے، جو ایک سال میں ناممکن ہے، لیکن یاد رکھیں کہ زیادہ سے زیادہ (عمل درآمد کی مدت) تین سال ہے۔‘

اس فوجداری ضابطے میں مانع حمل اور مذہبی توہین کے فروغ کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔

نئے ضابطے میں اسقاط حمل کو ایک جرم کے طور پر برقرار رکھا گیا ہے جس میں جنسی زیادتی سے بچ جانے اور جان لیوا طبی حالات کا سامنا کرنے والی خواتین کے لیے استثنا ہے، بشرطیکہ جنین کی عمر 12 ہفتوں سے کم ہو۔

یہ 2004 میں منظور کردہ میڈیکل پریکٹس پر ایک الگ قانون کے ساتھ ہے۔

صدر کی توہین کو جرم قرار دینے کا دفاع کرتے ہوئے ایڈورڈ ہیرائی نے کہا کہ حکومت نے ’ توہین اور تنقید کے درمیان فرق کرنے والی سخت ترین ممکنہ وضاحت فراہم ہے۔‘

ضابطے کی منظوری کو جنوب مشرقی ایشیائی ملک کے قانون سازوں نے سراہا، جو نیدرلینڈز سے آزادی کے بعد سے قانون پر نظر ثانی کرنے پر بحث کر رہے ہیں۔

ضابطہ اخلاق پر نظر ثانی کرنے والے پارلیمانی کمیشن کے سربراہ بامبانگ وریانتو نے ارکان پارلیمنٹ کو بتایا کہ ’پرانا  ضابطہ ڈچ ورثے سے تعلق رکھتا ہے ...اب یہ غیر متعلقہ ہے۔‘

انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے بعض دفعات کو حد سے زیادہ وسیع یا مبہم قرار دیتے ہوئے احتجاج کیا اور متنبہ کیا کہ انہیں نئے فوجداری ضابطہ اخلاق میں شامل کرنے سے اظہار رائے کی آزادی اور پرائیویسی کے حق کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

نئے ضابطے کے ناقدین کو خدشہ ہے کہ حالیہ برسوں میں بڑھتی ہوئی مذہبی قدامت پسندی کے پیش نظر، اخلاقیات کے متعلق نئے قوانین اور روایتی قانون پر ایک  الگ ضابطہ – مقامی سطح پر رجعت پسند اور شرعی قوانین کو تقویت دیں گے۔

اگرچہ اس  ضابطے سے انڈونیشیا میں، جہاں ہم جنس پرستوں کی شادی غیر قانونی ہے، ایل جی بی ٹی + کمیونٹی پر منفی اثر پڑنے کا امکان ہے۔ قانون سازوں نے بحث کے دوران سخت گیر اسلامی گروہوں کی طرف سے ایک مجوزہ شق کو منسوخ کرنے پر اتفاق کیا جس سے ہم جنس پرستوں کے جنسی تعلقات غیر قانونی قرار پائیں گے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سزائے موت کو ختم کرنے کے مطالبے کے باوجود یہ ضابطہ فوجداری نظام انصاف کے اندر سزائے موت کا تحفظ کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈونیشیا کے ڈائریکٹر عثمان حامد نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔

’جابرانہ قوانین کو ختم کیا جانا چاہیے تھا لیکن اس بل سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیرون ملک سکالرز کے دلائل درست ہیں اور ہماری جمہوریت ناقابل تردید طور پر زوال پذیر ہے۔‘

اس ضابطے میں کہا گیا کہ جج فوری طور پر سزائے موت نہیں دے سکتے اور اس کی بجائے اس کا اطلاق پروبیشنری مدت کے لیے ہوگا۔

 اگر 10 سال کی مدت کے اندر مجرم اچھا برتاؤ کرتا ہے تو سزائے موت کو عمر قید یا 20 سال قید میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔

2019 میں اس بل کا ایک سابقہ ورژن منظور ہونے والا تھا جس کے بعد ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں صدر جوکو ویدودو نے قانون سازوں کو اس قانون سازی پر ووٹنگ میں تاخیر کی سفارش کی تھی۔

(ایڈیٹنگ: بلال مظہر | ترجمہ: العاص)

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا