سائنس دانوں نے آنکھ کے ٹشو کا تھری ڈی پرنٹ بنا لیا

سائنس دانوں نے تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے آنکھ کا وہ ٹشو تیار کیا ہے جس سے لوگوں کو نابینا ہونے سے بچانے میں مدد ملے گی۔

(اے ایف پی فائل فوٹو)

سائنس دانوں نے تحقیق میں ایک نئی پیش رفت کرتے ہوئے تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے آنکھ کا وہ ٹشو تیار کیا ہے جس سے لوگوں کو نابینا ہونے سے بچانے میں مدد ملے گی۔

نئی تحقیق میں مریض کے سٹیم سیلز اور ’تھری ڈی بائیو پرنٹنگ‘ تکنیک کا استعمال کیا گیا تاکہ آنکھ کی ایک نئی بافت تیار کی جائے جو تحقیق میں استعمال ہو سکے۔

اس طرح سائنس دان خلیوں کا ایک سیٹ پرنٹ کرنے کے قابل ہو گئے جو مل کر بلڈ ریٹینا بیریئر تشکیل دیتا ہے۔

یہ بذات خود آنکھ کا وہ ٹشو ہے جو روشنی کے ادراک کرنے والے سینسرز کی مدد کرتا ہے۔

تحقیق میں ہونے والی اس پیش رفت کی بدولت سائنس دان خیال کے اعتبار سے ایک ٹشو بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے جیسا کہ وہ چاہتے ہیں۔

اس طرح انہیں امراض پر تحقیق میں مدد ملے گی۔

اس طرح سائنس دان نئی آنکھیں تیار کر سکتے ہیں جن کی مدد سے وہ آنکھوں کو نقصان پہنچانے والی ان بیماریوں پر تحقیق کر پائیں گے جو مثال کے طور لوگوں کو بینائی سے محروم کر دیتی ہیں۔

قبل ازیں ان بیماریوں جیسا کہ اے ایم ڈی یا عمر سے جڑی پٹھوں کی کمزوری، پر ہونے والی تحقیق اس لیے مشکل تھی کیوں کہ انسانی مواد حاصل کرنا مشکل تھا۔

عمر سے جڑی پٹھوں کی کمزوری میں آنکھ کے اندر ایسا مواد اکٹھا ہو جاتا ہے جو آنکھ کے کچھ حصوں کام کرنے سے روک دیتا ہے۔ نتیجے کے طور پر بینائی جاتی رہتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محققین تھری پرنٹر کی مدد سے تیار کیے گئے آنکھ کا ٹشو استعمال کرنے کے قابل ہو گئے تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ یہ عمل کس طرح شروع ہوتا ہے۔

سائنس دان ان تبدیلیوں کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہو گئے ہیں جن کے بارے میں اس سے قبل تھیوری تو موجود تھی لیکن عملی طور پر کچھ ثابت نہیں تھا۔

آنکھ کا ٹشو تیار کرنے کے لیے سائنس دانوں کو ایک ایسا سہارا تلاش کرنا پڑا جس کے اردگرد اسے لٹکایا اور تسلسل کے ساتھ پرنٹ کیا جا سکے۔

حالیہ سالوں میں بائیو میڈیکل ایپلی کیشنز میں تھری ڈی پرنٹنگ کے بارے میں جوش و خروش میں اضافہ ہوا ہے جس میں آنکھوں پر تحقیق بھی شامل ہے۔

سائنس دانوں کو امید ہے کہ وہ مختلف قسم کے خلیوں اور بائیو میٹریلز میں اناٹومیکل ٹشو (وہ بافتیں جو ایک یونٹ کے طور پر کام کرتی ہیں) بنانے کے قابل ہو جائیں گے۔

(ایڈیٹنگ: بلال مظہر | ترجمہ: علی رضا)

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق