بلوچ لاپتہ افراد: حکام کا احتجاجی کیمپ سے پہلی مرتبہ اجازت کا مطالبہ

بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کوئٹہ پریس کلب کے باہر بدستور کیمپ لگا کر احتجاج کر رہی ہے۔

ماما قدیر کے مطابق انہوں نے نوٹس ملنے کے دوسرے دن کمشنر آفس میں جا کر درخواست جمع کرائی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ احتجاج کرنا ان کا قانونی حق ہے اور وہ پرامن احتجاج کر رہے ہیں لہذا کیمپ لگانے کے لیے انہیں این او سی دی جائے(اے ایف پی)۔

بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم احتجاجی کیمپ کو حکومت سے احکاتجاج کی باضابطہ اجازت حاصل کرنے کے لیے نوٹس ملے دو ہفتے گزر چکے ہیں لیکن ان کا کوئٹہ پریس کلب کے باہر کیمپ جاری ہے۔

پاکستان میں حقوق انسانی کی غیرسرکاری تنظیم ہومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے حکومت کی جانب سے کیمپ قائم کرنے کے لیے این او سی لینے کی شرط پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے غیرمنصفانہ عمل قراردیا ہے۔

انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ حکومت کی طرف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کو احتجاجی کیمپ کے لیے این او سی لینے کا نوٹس دینے کی بجائے جبری طور پر لاپتہ افراد کو بازیاب کرے۔

بیان کے مطابق شہریوں کو آئین کے تحت پرامن طریقے سے احتجاج کرنے سے روکنا اور اس پر قدغن لگانا غیرقانونی عمل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کوئٹہ پریس کلب کے باہر بدستور کیمپ لگا کر احتجاج کر رہی ہے۔

کیمپ میں بیٹھے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ 17جولائی کو انہیں سول لائن تھانے کی طرف سے ایک نوٹس ملا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کا کیمپ غیرقانونی ہے کیونکہ شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے جس کے لیے اجازت نامہ حاصل کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ کوئٹہ انتظامیہ کی جانب سے یہ نوٹس پہلی مرتبہ دیا گیا ہے۔

ماما قدیر کے مطابق نوٹس میں لکھا ہے کہ  ’آپ کے احتجاجی کیمپ میں دن بھر لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ آپ کو بذریعہ نوٹس مطلع کیا جاتا ہے آپ نے کوئی ریلی نہں نکالنی نہ کوئی جلسہ جلوس کرنا ہے تاہم آپ اپنے لگائے گئے کیمپ کی نسبت این او سی حاصل کریں ورنہ آپ کا کیمپ غیرقانونی تصور ہوگا۔‘

ماما قدیر کے مطابق انہوں نے نوٹس ملنے کے دوسرے دن کمشنر آفس میں جا کر درخواست جمع کرائی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ احتجاج کرنا ان کا قانونی حق ہے اور وہ پرامن احتجاج کر رہے ہیں لہذا کیمپ لگانے کے لیے انہیں این او سی دی جائے۔ ’کمشنرکوئٹہ ڈویژن نے درخواست دیکھنے کے بعد ہمیں انتظار کرنے کا کہا اور بعد میں درخواست ہمیں واپس کر دی۔‘

دوسری جانب قانون کے ماہرین کے مطابق امن وامان برقرار رکھنے کے لیے جب  حکومت دفعہ 144 نافذ کرتی ہے تو انتظامیہ کو اختیار مل جاتا ہے کہ کسی بھی وقت قانونی کارروائی کرسکتی ہے۔

ماہر قانون نادر چھلگری ایڈووکیٹ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس قانون کے تحت متعلقہ انتظامیہ کسی کو بھی نوٹس دینے کے بعد کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔ جس احتجاج کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہو اور اس نے این او سی حاصل نہیں کی تو اس کے خلاف کارروائی کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست