چولستان میں ’گوپے گندی‘ کے گرد گھومتی زندگی

جنوبی پنجاب کے صحرائی علاقوں میں رہنے والے لوگ اینٹوں کے پکے گھروں کی بجائے مٹی اور درختوں کی چھال سے بنے ’گوپوں‘ میں رہتے ہیں۔

چولستان کے صحرا کی پیشانی پر واقع قلعہ دراوڑ جنوبی پنجاب کی پہچان ہے۔ اس پہچان سے وابستہ لوگ آج بھی مٹی اور درختوں کی چھال سے بنے ’گوپوں‘ میں رہتے ہیں۔

گوپے مٹی سے بنے گھر ہوتے ہیں جس کی تعمیر محض مٹی کے لیپ اور درختوں کی ٹال سے ہوتی ہے۔

سخت سردی اور گرمی کے موسم میں اس کے اوپر شاپر یا شیٹ چپکائی جاتی ہے تا کہ اس میں رہنے والے سخت موسم سے زیادہ متاثرنہ ہوں۔

چولستان کے علاقے میں گرمیوں میں درجہ حرارت پچاس ڈگری سے تجاوز کر جاتا ہے، جس سے یہاں کے باسی ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ہجرت کرنے کی ایک بڑی وجہ گوپوں سے منسلک ’ٹوبے‘ میں پانی کی کمی ہے۔

ٹوبہ صحرائی علاقوں میں پانی جمع کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا تالاب ہوتا ہے۔

اس میں جمع ہونے والا پانی واحد ذریعے یعنی بارش سے اکٹھا ہوتا ہے۔ چولستان کے صحرا میں پانچ سے چھ

گوپوں کے گوٹھ کے قریب ایک ٹوبہ ہوتا ہے۔ جس کا پانی گوپوں کے رہائشیوں کے روز مرہ کے کاموں اور

پینے کے لیے کام آتا ہے۔ ان ٹوبوں کا پانی یہاں کہ رہائشیوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی پلایا جاتا ہے۔

گوپوں میں رہنے والوں کے مسائل اور دشواری اپنی جگہ لیکن دیکھنے میں یہ گوپے نہایت خوبصورت اور منفرد نظر اتے ہیں۔

اس کی تعمیر بہت ہی باریکی اور صفائی سے کی جاتی ہے۔ اس کے اندرونی اور بیرونی سوراخوں کو پُر کرنے کی غرض سے

مٹی کا لیپ ہاتھوں کی مہارت کا ثبوت ہے۔ گوپوں میں رہنے والوں کی زندگی پر رپورٹ بناتے وقت میں نے کئی کرداروں سے

بات کی۔ ان میں سے ایک کردار باکھاں مائی بھی ہیں۔

معمر باکھاں مائی چارپائی پر بیٹھی، ہاتھ میں تکیے کے غلاف پر ستارے پرونے میں مصروف ہیں۔

میں نے باکھاں مائی سے ان کی عمر کے بارے میں پوچھا لیکن انہیں کچھ یاد نہیں تھا۔ باکھاں مائی کے چہرے کی

جھریاں، ماتھے پر مستقل شکنین، بالوں کی چاندی، دانتوں کی پیلاہٹ سے بکھرتی مسکراہٹ ان کی عمر کا اندازہ خوب دیتی ہے۔

عمر کے بارے مزید کھریدنے کی کوشش میں ان سے کسی جنگ کا پوچھا کہ شاید وہ یاد ہو لیکن جنگوں کا بھی کوئی خاص اندازہ نہیں تھا۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی عمر تقریباً 80 برس تو ضرور ہو گی۔

بدن پر روایتی رلّی کا کرتا  شلوار، ہاتھ میں دو انگوٹھیاں، کانوں میں چاندی کی نفیس بالیاں اور سر پر سوتی کا دوپٹہ باکھاں مائی کی

شخصیت کو ایک روایتی، پر اعتماد اور باہمت خاتون ہونے کی پہچان بخشتا ہے۔

باکھاں مائی کہتی ہیں’ہم روہی میں رہنے والے ہیں۔ یہ گوپے ہم نے خود مٹی سے بنائے ہیں۔

’مٹی کے گوپے بنا کر اوپر لکڑی کی کاٹھیاں کاٹ کر اوپر باندھ کر بیٹھے ہیں۔ گزارا کر رہے ہیں۔ بس تالا لگانے کا مسئلہ ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ بارش ہوتی ہے تو انہی میں بیٹھ جاتے ہیں۔ مال مویشی اور بچے گھر پر ہوتے ہیں ان کے لیے وقت پر پکانا کھانا

پینا کر لیتے ہیں۔ بس یہی گھر اولاد کے لیے بنائے بیٹھے ہیں روزی روٹی کے لیے۔‘

باکھاں مائی ہاتھ سے رلّی بناتی ہیں، جس سے مزید کپڑے، دستر خوان، چادریں اور تکیے کے غلاف بناتی ہیں۔

ان پر ستارے جڑنے ہوں یا ڈیزائن بنانا ہوں سب کام باکھاں مائی ہاتھ ہی سے کرتی ہیں۔

وہ دور دراز سے آئے آرڈر پر کام کر کے کسی کے ہاتھ بھیج دیتی ہیں اور ایک ہزار سے پندرہ سو روپے تک قیمت وصول کرتی ہیں۔

میں نے باکھاں مائی کو سوئی میں دھاگہ ڈالتے دیکھا اور حیرانی سے پوچھا آپ کیا بنا رہی ہیں؟

اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں سرہانہ بنا رہی ہوں بابے سرہانہ۔  یہ ہماری روہی کا کاروبار ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’سوئی کا ٹانکا ہمارا۔ یہ ہم سرہانے کڑھائی والے بناتے ہیں۔ اس کے اوپر دھاگے لگاتے ہیں۔ ستارے لگاتے ہیں۔ کڑھائی کرتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ 15 دنوں میں ایک سرہانہ بناتی ہیں۔ ’یہ ہماری روزی بنی ہوئی ہے۔ مزدوری لیتے ہیں۔ گِندیاں سیتے ہیں۔ گتھلیاں سیتے ہیں۔ سرہانے بناتے ہیں۔

’ہم غریب لوگ ہیں۔ اس لیے یہ کام کرتے ہیں۔  گِندی دو ماہ میں بنتی ہے نیچے بچھانے والی۔ یہ کام کرنے والی ہم میں اب تھوڑی خواتین ہی ہیں۔ کام کچھ سندھی اور کنڈی کا ہے ۔‘

یہیں کے رہائشی اقبال مٹھو پیشے کے لحاظ سے ایک گلوکار ہیں اور روہی کے علاقائی موسیقار بھی۔

سرائیکی زبان کی شاعری پر انہیں کافی عبور حاصل ہے۔  شاکر شجاع ابادی ہوں یا بلے شاہ کی شاعری، روہی کی سرزمین سے متعلق کوئی بھی شاعری نہیں جس کو اقبال مٹھو نے اپنی خوبصورت آواز کے سُروں میں نا سمویا ہو۔

اقبال مٹھو بتاتے ہیں ’بنیادی طور پر ہم قلعہ دراوڑ کے رہنے والے ہیں۔ گوپے ہمارے لیے بڑی وی آئی پی کوٹھی ہے۔

’یہاں ہم نیچے رلیاں بچھا کر سو جاتے ہیں۔ فیملی نیچے سوتی ہے۔ بچے بھی نیچے سو جاتے ہیں۔ سامنے ہمارا کچن ہے۔ کھانے کا سامان ہم قلعہ دراوڑ سے لے آتے ہیں۔‘

اس بات کی مناسبت سے اقبال مٹھو نے مجھے روہی کے رہنے والوں پر چند شعر بھی پڑھ کر سنائے۔

’ہم بھولے لوگ ہیں روہی کے

آپ ہیں فنکار شہر کے

ہم عادی جھگیوں ٹیلوں کے

آپ ہیں ساہوکار شہر کے

ہم خوش ہیں روہی کی پھوگ میں

تمہارے محل مینار شہر کے

شہزاد ہم نے نہیں لگانے

تمہارے پھول مہکار شہر کے۔‘

اقبال مٹھو کے حلیے سے ان کی شخصیت کا اندازہ لگائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک نہایت ہی شفیق، سادہ، عاجز اور ثقافت سے بھرپور آدمی ہیں۔

رپورٹ بنانے کی غرض سے گئے صحافیوں کو مہمان اور رحمت تصور کرنا، ان کی خدمت میں چائے پیش کرنا اور کھانا کھائے بغیر نہ جانے دینا ان کے دلوں کی کشادگی کو ظاہر کرتی ہے۔

چہرے پر تاوٴ والی گاڑھی مونچھیں، سر پر سندھی ٹوپی، گلے میں اجرک، گلابی رنگ کی شلوار قمیض کے اوپر چمڑے کی جیکٹ اور پاوٴں میں ریت سے لتھڑے جوتے، گویا ان کا مکمل حلیہ روہی کے لحاظ سے جدید اور روایت سے بھرپور تھا۔

میں نے روہی کے گوپوں پر رپورٹ بنانے کی غرض سے یہاں رہنے والوں کے مسائل اور پریشانی کو بہت قریب سے دیکھا۔ بیشک وہ مسائل بنیادی اور تکلیف دہ ہیں۔

اس میں پینے کے صاف پانی کی دستیابی، بجلی گیس اور پکی چھت، جیسی بنیادی ضرورتوں کی عدم فراہمی نے یہاں رہے والوں پر گرد ڈالی ہوئی ہے۔

اس کے برعکس روہی کے باسیوں کے دل بے حد فراخ پائے۔ حیثیت اور جیب سے تجاوز کر کے مہمان نوازی کرنا روہی والوں کی پہچان ہے۔

فن موسیقی، لباس، اور رونق کے کوئی بہانے صحرائے چولستان کے باسی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا