صحرا میں ’لیلے‘ چرانے والا وائرل ٹک ٹاکر کیسے بنا؟

جنوبی پنجاب کے علاقے بہاولپور سے چند کلو میٹر دور ہیڈ راجکہ کے رہائشی اللہ دتہ عرف کریم والا کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر اس وقت پانچ لاکھ سے زائد فالوورز ہیں۔

جنوبی پنجاب کےعلاقے بہاولپور سے چند کلو میٹر دور ہیڈ راجگاں کے رہائشی اللہ دتہ عرف کریم والا ایک ٹک ٹاکر ہیں، جنہوں نے اپنی روز مرہ زندگی کو کیمرے کے ذریعے دکھا کر شہرت حاصل کی۔

ٹک ٹاک پر اللہ دتہ عرف کریم والا کا اکاؤنٹ ان کے بھائی نور دین نے بنایا اور انہیں اپنے شوق اور روایتی انداز میں بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے ویڈیوز سوشل میڈیا پر لگانے کی ترغیب دی۔

کریم والا کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر اس وقت پانچ لاکھ 75 ہزار فالوورز ہیں۔

اپنے اس ڈیجیٹل سفر کے بارے میں کریم والا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’میرے ٹک ٹاک کا نام کریم والا زیرو نائن ہے۔ میں مشہور اس طرح ہوا کہ ہمارے سرائیکی لوگ شادی سے پہلے کریم لگاتے ہیں۔ ایک دن میں کریم لگا کر سویا ہوا تھا تو میرے بڑے بھائی نور دین نے میری ویڈیو بنا لی۔

’صبح جب میں اٹھا تو میری ویڈیو وائرل ہو گئی تھی۔ جب وہ ٹرینڈ چل پڑا تو ٹک ٹاک بنانے کی خاطر میں اپنی بیوی کا جوتا صاف کرنے لگا۔ میں کبھی کچھ کرتا تو کبھی کچھ کیونکہ ٹرینڈ جو چل پڑا تھا، پھر جب شادی ختم ہو گئی تو سوچا اب کون سی ویڈیوز بنائیں۔ پھر میرے بھائی نے میرا ٹک ٹاک اکاؤنٹ بنایا اور میری آئی ڈی کا نام رکھا کریم والا زیرو نائن۔‘

اللہ دتہ تعلیم حاصل نہیں کر پائے تھے، جس کی وجہ سے انہیں سوشل میڈیا کے استعمال میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود ان کے بھائی نور دین نے ان کی ہر طرح سے رہنمائی کی، جس میں اللہ دتہ کے منفرد انداز میں کھیلنے کودنے، بھیڑ بکری چرانے اور ان کے اپنے پہننے اوڑھنے کے انداز کو برقرار رکھتے ہوئے ہی روز مرہ زندگی کے پہلوؤں کو ویڈیوز کے ذریعے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹک ٹاک، فیس بک اور یوٹیوب پر دنیا کے سامنے لانا شامل ہے۔

اللہ دتہ کی شخصیت نہایت ہی سادہ مگر زندہ دلی سے بھرپور ہے۔ ان کی نیلی قمیص جس پر جگہ جگہ مختلف رنگوں کی بڑی بڑی جیبوں کی پیوند لگی تھی۔ کالے رنگ کی شلوار جس کے پائنچوں کی سلائی پنڈلیوں تک ادھڑی ہوئی تھی، جسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے صحرا میں پیدل چلنے سے کھینچی گئیں ہوں۔

بال جڑے جڑے، موٹے اور گھنگریالے تھے جن میں ان کا ماتھا ڈھکا رہتا ہے۔ ویڈیو بناتے ہوئے ذرا شوخی چڑھی تو سر پر کوئی بھی مفلر یا پٹکا باندھ لیتے ہیں۔ داڑھی کے معاملے میں اللہ دتہ بہت نزاکت سے کام لیتے ہیں اور داڑھی کے بال اور خط ہرگز بگڑنے نہیں دیتے۔

قمیص کے بٹن زیادہ تر کھلے ہی رہتے ہیں، جس کے اندر سے سفید بنیان دکھائی دیتی ہے۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہوتی ہے، جس سے وہ بھیڑ بکریوں کو ہانکنے اور سمیٹنے کا کام لیتے ہیں۔

کریم والے کی زندگی پر رپورٹ بنانے کی غرض سے ہم اپنی ٹیم کے ہمراہ ان کے گاؤں گئے تو معلوم ہوا کے ان کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر شائع ہونے والی ویڈیوز ان کی زندگی کے اصل رنگوں کی ہی عکاسی کرتی ہیں۔

صحرائی علاقوں کی خوبصورتی اور یہاں کے باسیوں کی مشکلات دونوں ہی ان کی ویڈیوز کے ذریعے ناظرین کو گھر بیٹھے دیکھنے کو ملتی ہیں۔

کریم والے کی ایک ویڈیو جس میں وہ انڈیا کے مشہور گانے ’پیچھے باراتی آگے بینڈ باجا‘ پر اپنی بکریوں کے ہمراہ ڈانس کر رہے ہیں، پاکستان سمیت انڈیا میں بھی بہت وائرل ہوئی، جسے انڈیا کے میڈیا نے بھی خوب کوریج دی۔

کریم والے جیسے بیشتر فنکار اور اداکار پیسے کمانے کی غرض سے اپنے علاقوں سے محض اچھائی کا عنصر منظر عام پر لاتے ہیں اور مشکلات کا پہلو پس پردہ رہنے دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کریم والا اور ان کے بھائی نور دین نے بتایا کہ ان کے علاقے میں نہ تو بجلی پہنچی ہے اور نہ ہی گیس کا کوئی انتظام ہے۔ ہاں حکومت نے ان کے علاقے میں کھمبے اور تاریں ضرور پہنچا دی ہیں لیکن میٹر اور کنکشن کا اب بھی کوئی نظام مرتب نہیں کیا گیا جس سے ان سمیت قریب کے سینکڑوں گھروں میں سولر اور لالٹین استعمال ہوتی ہے اور پکانے کے لیے لکڑیاں جلائی جاتی ہیں۔

اللہ دتہ سوشل میڈیا پر اپنے فالوورز سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’میرے 88 ہزار فالوورز ہیں۔ مجھے پاکستان سے بھی کافی سپورٹ ملی ہے لیکن زیادہ سپورٹ باہر سے ملی ہے، مگر میرے دوست اور علاقے کے لوگ بھی مجھے سپورٹ نہیں کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی بات کرتا ہے تو ایسی کرتا ہے جس سے دل دکھ جاتا ہے، لیکن میں ویڈیوز بناتا رہا جو ملین تک پہنچ گئیں، جس کی مجھے نہایت خوشی ہے۔‘

جنوبی پنجاب بالخصوص چولستان میں سفر کرتے وقت راستوں کا پتہ لگانا باہر سے آنے والوں کے لیے ایک نہایت ہی کٹھن مرحلہ ہے۔

راستہ جاننے کے لیے جگہ جگہ رک کر راہگیروں سے مختلف علاقوں کا پوچھنا پڑتا ہے۔ اسی تجربے میں ایک مقامی اصطلاح بار بار سننے کو ملی، جسے سرائیکی علاقوں میں راستہ ناپنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ اصطلاح ’لیلے باک‘ کہلاتی ہے۔ سرائیکی زبان میں بکری کی آواز جتنی دور جاتی ہے اتنے ہی زیادہ سفر کو بیان کرنے کے لیے لیلے باک کی اس اصطلاح کو استعمال کیا جاتا ہے۔

اس اصطلاح کو تفصیل سے سمجھنے کے لیے میں نے اللہ دتہ سے بات کی، جنہوں نے لیلے باک کی تشریح کچھ یوں کی: ’میری ایک ڈیوٹی ہے کہ میں لگاتار بھیڑیں چراتا ہوں۔ آج بھی میں صبح تین بجے بھیڑوں کے بال منڈوانے نکل پڑا تھا، جو تقریباً لیلے باک جتنی دور ہے۔ او ہو۔ آپ نہیں سمجھے ہوں گے۔ لیلے باک ہم کہتے ہیں سفر کو۔ اسے ہم سرائیکی زبان میں لیلے باک کہتے ہیں۔ لیلا یعنی بکری کی آواز جتنی دور جاتی ہے اتنا سفر ہے۔

’اسی طرح اگر دو لیلے باک ہو تو اس کا مطلب ہے بہت سفر کرنا پڑتا ہے اور اگر بکری زیادہ لمبا بولے تو اس کا مطلب کہ سفر بہت زیادہ ہے۔‘

اللہ دتہ کی روز مرہ زندگی کی مصروفیات میں ایک اپنی والدہ کا گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا جبکہ دوسرا بھیڑ بکرویوں کے ریوڑ کو چرانے کے لیے ادھر ادھر لے کر جانا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے ٹک ٹاک پر ویڈیوز بناتے ہیں اور نئے نئے انداز اپنانے کے لیے اپنے بھائی نور دین سے خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں۔

پورا دن کام کاج کے بعد شام میں گھر لوٹنے والے اللہ دتہ بھیڑ بکریوں کو ان کی جگہ چھوڑنے کے بعد اپنی والدہ اور اپنے چچا کے ہمراہ کھانا کھاتے ہیں اور پورے دن کی روداد تمام گھر والوں کو سناتے ہیں۔

اللہ دتہ کے والد اس دنیا سے جا چکے ہیں جن کی انہیں بہت یاد آتی ہے۔ اللہ دتہ اپنی ویڈیو وائرل ہونے کے دن کا قصہ سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’مجھے تو پتہ نہیں تھا لیکن ایک دن صبح صبح مجھے نور بھائی کی کال آگئی۔ میں نے ہیلو کیا تو نور بھائی رونے لگے۔ میں ہیلو ہیلو کرتا ہوا کمرے سے باہر آگیا تو امی نے پوچھا خیر ہے؟‘

’پھر نور بھائی نے بتایا کہ تمہاری ویڈیو انڈیا کے چینل پر چل رہی ہے، جو تم نے بنائی تھی آگے باراتی پیچھے بینڈ باجا۔ پھر مجھے خود اتنی خوشی ہوئی اور فخر محسوس کیا کہ میں اس دیہاتی علاقے کا رہنے والا جس کی ویڈیو دو تین ملکوں میں چل رہی ہے۔ اب جب میری ویڈیو وائرل ہوئی تب مجھے پتہ لگ گیا کہ میرے ابو نے صحیح کہا تھا کہ جو بندہ سچا ہے وہ کامیاب ہے۔ جو اپنے ماں باپ کی خدمت کر گیا وہ کامیاب ہے، اس جہاں میں بھی اور اگلے جہاں میں بھی۔‘

یہ واقعہ سناتے وقت اللہ دتہ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔

اس منظر نامے کو اپنی آنکھوں اور کیمرے میں عکس بند کرنے کی خاطر میں نے چولستان کے کئی اضلاع اور قصبوں میں سفر کیا جس سے معلوم ہوا کے جنوبی پنجاب، اس کی ثقافت اور یہاں کے بسنے والوں میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے ثقافتی رنگ، زبان، تہذیب و تمدن اور یہاں کے رہنے والوں کا انداز بیان کسی بھی سیاح کو اپنی طرف کھینچنے اور یہاں کے روپ میں ڈھال لینے کے لیے کافی ہے۔

دیہاتی علاقوں کے مسائل اور غربت اپنی جگہ لیکن ان کے دل دنیا بھر کی امارت اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں۔

میں دن 12 بجے رپورٹ بنانے کی غرض سے اللہ دتہ کے گھر پہنچا تو ان سمیت سارے گھر والوں نے مجھے اور میری پوری ٹیم کی چائے سے توازع کی، جس کے بعد میں اللہ دتہ کے ساتھ ریکارڈنگ کرنے میں مصروف ہو گیا۔ شام میں جب گھر پہنچے تو ان کی والدہ نے ہمارے لیے کھانے میں کڑاہی اور میٹھے میں کھیر بنا رکھی تھی۔

میں وقت کی قلت کے باعث تسلی سے کھانے کا مزہ تو نہ لے سکا مگر اماں کی محنت کو ضائع نہیں ہونے دیا اور کڑاہی اور کھیر چکھنے کے بعد وہاں سے رخصت ہو گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی