بھیڑ کی اون سے بنی بلوچی قالینوں کی جدید مشینوں سے تیاری

شازیہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ اپنے علاقے کی ان ہنرمند خواتین کے لیے ایک پلیٹ فارم قائم کریں جہاں وہ اپنی مہارت سے قدیم زمانے کی چیزوں کو دوبارہ بناسکیں۔

صوبہ بلوچستان کی ثقافت کے رنگ ہمیں یہاں کےلوگوں کے رہن سہن، لباس اور قدیم رسومات سے ملتے ہیں۔ جن میں بہت سی چیزیں ناپید ہوتی جارہی ہیں کیوں کہ ان کے استعمال اور بنانے والے کم رہ گئے ہیں۔

قلات کی رہائشی شازیہ بھی اپنی ثقافت اور ناپید ہونے والی اشیا کو بچانے کی کوشش کررہی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کی پہچان مر رہی ہے جس کو بچانا ان کے فرائض میں شامل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’زمانہ قدیم سے ہمارے دیہی علاقوں میں قالین ہاتھ سے بنائے جاتے تھے۔ جس کے لیے بھیڑ کے بالوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ فن اب ناپید ہوتا جارہا ہے۔ بلوچستان کے بلوچ قبائل کی بوڑھی خواتین یہ فن جانتی تھیں جن کے جانے کے بعد اس کے کاریگر کم رہ گئے ہیں۔‘

شازیہ اکبر چونکہ ایک تاریخی علاقے اور بلوچ ثقافت سے منسلک قوموں کے علاقے قلات سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ ان چیزوں سے واقفیت بھی رکھتی ہیں۔ جو اب بھی بعض لوگوں کے گھروں میں پائی جاتی ہیں۔

انہوں نے بلوچ قوم کی اس ثقافتی میراث کو نہ صرف زندہ کرنے بلکہ اس کو جدید نسل تک پہنچانے کا بھی بیڑا اٹھایا ہے۔

شازیہ نے بتایا کہ ’شروع میں یہ کام مجھے مشکل تو لگا لیکن میں نے عزم کرلیا کہ اسے ہر حال میں کرنا ہے۔ جس کے لیے پہلے میں نے ان خواتین کو تلاش کیا جو اب بھی یہ کام جانتی ہیں۔‘

’ایسی خواتین کو تلاش کرنے کے بعد میں انہیں اس بات پر قائل کیا کہ وہ میرے لیے ایسی چیزیں دوبارہ بنائی گی۔ لیکن اس میں نے جدت لانے کا فیصلہ کیا۔‘

شازیہ کے بقول: ’جب میں نے اس کام میں جدت لانے کا فیصلہ کیا تو یہ اور بھی مشکل ہوگیا کیوں کہ یہ خواتین قدیم طریقہ سے قالین بنانے کی عادی ہیں۔ اس پر بھی مجھے کافی عرصہ لگا کہ وہ اس طریقہ کار پر عمل درامد کریں۔‘

شازیہ نے ایسی خواتین کو تلاش کرنے کے بعد قلات میں تین سال قبل ایک سینٹر کی بنیاد رکھی جس کو انہوں نے گیاوان ہینڈی کرافٹس کا نام دیا۔

اس سینٹر میں انہوں نے قلات کے مختلف علاقوں سے خواتین کو اکٹھا کرکے زمانہ قدیم کے قالین بنانے کے ہنر کو جدت کے ساتھ شروع کیا۔

شازیہ نے بتایا کہ ’پہلے ہم بھیڑ کے بالوں کو جمع کرتے ہیں پھر ان کو دھو کر صاف کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہم مقامی سطح پر استعمال ہونے والے پتھروں کے رنگ اور ایک مقامی دوا ہے وہ اس میں شامل کرتے ہیں۔‘

’جب ان کو ہم مختلف رنگوں کے ذریعے الگ الگ جمع کرلیتے ہیں تو پھر میں خواتین کو ایک ڈیزائن اور رنگ بتادیتی ہوں جو ہماری ثقافت میں شامل اونٹ اور کجھور کے درخت کا ہوتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہ کام انتہائی مہارت اور ذہنی تخلیق کے ذریعے انجام پاتا ہے اور جب یہ مکمل ہوتا ہے تو ایک منفرد اور خوبصورت ڈیزائن ہمارے لیے بن جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شازیہ کے مطابق: ’اونٹ اور درخت کا ڈیزائن اور اس کے ارد گرد پٹی لگانے کے بعد یہ خواتین اس پر پانی کا چھڑکاؤ کرتی ہیں۔ اور اسے کو کئی مرتبہ ہلایا جاتا ہے تاکہ پانی مکمل طور پر اس میں جذب ہوجائے۔‘

جب یہ مرحلہ مکمل ہوتا ہے تو پھر اسے ایک جگہ رکھ دیا جاتا ہے اور دوسرے دن اسے کھول دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد قالین کی ایک نئی شکل سامنے آجاتی ہے۔

شازیہ کے سینٹرمیں پرانے زمانے کے قالین بنانے کا بھی کام کیا جاتا ہے۔ جس میں نئے طریقہ کار کے تحت گھروں میں خوبصورتی کے لیے لگائی جانے والی تزین و آرائش کی اشیا بھی شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہم پرس وغیرہ بھی بناتے ہیں۔ جن پر کشیدہ کاری کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کھڑکیوں اور دیواروں پر لگائی جانے والی قالین بھی بناتے ہیں جن میں ہماری ثقافت کے مطابق کشیدہ کاری ہوتی ہے۔‘

شازیہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ اپنے علاقے کی ان ہنرمند خواتین کے لیے ایک پلیٹ فارم قائم کریں جہاں وہ اپنی مہارت سے قدیم زمانے کی چیزوں کو دوبارہ بناسکیں۔

شازیہ نے اسی مقصد کے لیے ایک پلیٹ فارم قائم کیا بلکہ انہوں نے ان خواتین کے لیے روزگار کا بھی بندوبست کیا۔

شازیہ نے اپنا کام سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچانا شروع کیا ہے اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کے ذریعے وہ اپنی چیزوں کو سامنے لارہی ہیں۔ تاہم ان کی ان اشیا کے خریدار اس وقت مقامی افراد اور فیملی کے لوگ ہی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین