گلگت بلتستان میں خواتین کا ’خاموش انقلاب‘

اگرچہ پاکستان کی رسمی افرادی قوت میں خواتین کی تعداد نہایت کم ہے، لیکن گلگت بلتستان کے چند دیہات میں خواتین کی قیادت میں قائم کاروبار روایت کو چیلنج کر رہے ہیں۔

قراقرم کے پہاڑوں میں واقع ایک برادہ بھری ورکشاپ میں لکڑیاں تراشتی خواتین نے اپنے لیے ایک غیر روایتی پیشے کا انتخاب کیا ہے۔

اگرچہ پاکستان کی رسمی افرادی قوت میں خواتین کی تعداد نہایت کم ہے، لیکن گلگت بلتستان کے چند دیہات میں خواتین کی قیادت میں قائم کاروبار روایت کو چیلنج کر رہے ہیں۔

 بِی بی آمنہ نے 2008 میں 30 برس کی عمر میں اپنی کارپینٹری ورکشاپ قائم کی، وہ کہتی ہیں: ’ہمارے پاس 22 ملازمین ہیں اور ہم تقریباً 100 خواتین کو تربیت دے چکے ہیں۔‘

وادی ہنزہ، جس کی آبادی تقریباً 50 ہزار ہے، خوبانی، چیری، اخروٹ اور شہتوت کے باغات سے بھرے پہاڑوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں کے رہائشی شیعہ اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

اسماعیلیوں کی قیادت آغا خان کرتے ہیں، جو ایک وراثتی عہدہ ہے اور اس خاندان کے پاکستانی پس منظر کے افراد اب یورپ میں مقیم ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آغا خان کے خاندان نے 1946 میں ہنزہ میں لڑکیوں کے ایک سکول کی بنیاد رکھی، جس نے تعلیم میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا اور وادی میں مرد و خواتین دونوں کے لیے شرح خواندگی کو 97 فیصد تک پہنچا دیا۔ یہ شرح ملک کے اوسط یعنی مردوں میں تقریباً 68 فیصد اور خواتین میں 52.8 فیصد شرح خواندگی سے کہیں زیادہ ہے۔

نتیجتاً معاشرتی رویوں میں تبدیلی آئی ہے اور آمنہ جیسی خواتین اب زیادہ فعال اور وسیع کردار ادا کر رہی ہیں۔

آمنہ نے اپنی پچھلی نسل کے بارے میں کہا: ’لوگ سمجھتے تھے کہ خواتین صرف برتن دھونے اور کپڑے دھونے کے لیے ہوتی ہیں۔‘

آغا خان فاؤنڈیشن سے تربیت حاصل کرنے کے بعد، جس کا مقصد قدیم التت قلعے کی مرمت میں مدد دینا تھا، آمنہ نے بعد میں انہی مہارتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنا کاروبار شروع کیا۔

اس وقت ان کی ٹیم ایک لگژری ہوٹل کے لیے فرنیچر تیار کر رہی ہے۔

رہنما خواتین

ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 2024 تک پاکستان میں صرف 23 فیصد خواتین رسمی طور پر افرادی قوت کا حصہ تھیں۔

دیہی علاقوں میں خواتین شاذ و نادر ہی کسی باقاعدہ ملازمت میں نظر آتی ہیں، البتہ وہ اکثر کھیتوں میں خاندان کی آمدن بڑھانے میں ہاتھ بٹاتی ہیں۔

گذشتہ سال شائع ہونے والے ایک گیلپ سروے کے مطابق ایک تہائی خواتین نے بتایا کہ ان کے والد یا شوہر انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے، جب کہ 43.5 فیصد خواتین نے گھریلو کاموں پر توجہ دینے کے لیے ملازمت چھوڑ دی۔

ایک کیفے کی مالک لال شہزادی نے ہنزہ میں خواتین کے زیرِ قیادت ریسٹورنٹ کے کاروبار کی بنیاد رکھی۔

انہوں نے اپنے شوہر کی معمولی فوجی پینشن میں مدد کے لیے ایک بل کھاتی ہوئی اونچی گلی کے سرے پر اپنا کیفے کھولا۔

16 سال بعد وادی کے نظارے پیش کرنے والا ان کا سادہ سا کیفے رات کے وقت ایک مقبول سیاحتی مقام بن چکا ہے۔

وہ مہمانوں کو یاک کے گوشت، خوبانی کے تیل اور پہاڑی پنیر سمیت روایتی کھانے پیش کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں: ’شروع میں میں اکیلی کام کرتی تھی۔ اب یہاں 11 لوگ کام کرتے ہیں، جن میں سے اکثر خواتین ہیں۔ میرے بچے بھی اسی جگہ کام کر رہے ہیں۔‘

لال شہزادی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سفینہ نے بھی تقریباً ایک دہائی قبل اپنی نوکری چھوڑ کر اپنا ریسٹورنٹ کھولا۔

انہوں نے کہا: ’کوئی میری مدد کرنے کو تیار نہیں تھا۔‘ بالآخر انہوں نے اپنے اہل خانہ کو دو گائیں اور کچھ بکریاں فروخت کرنے پر راضی کیا تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔

آج وہ ماہانہ تقریباً 170 امریکی ڈالر کماتی ہیں، جو ان کی پچھلی آمدنی سے پندرہ گنا زیادہ ہے۔

کھیتوں سے فٹ بال گراؤنڈ تک

قراقرم ایریا ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے سربراہ اور مقامی مورخ سُلطان مدان کے مطابق ہنزہ میں خواتین کی سماجی و معاشی ترقی کی وجوہات میں تین اہم عوامل شامل ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’سب سے بڑی وجہ بہت بلند شرح خواندگی ہے۔‘ انہوں نے اس کا سہرا آغا خان فاؤنڈیشن کو دیا، جو خواتین کے لیے تربیتی پروگرامز کی مالی معاونت کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’یہاں زراعت معیشت کی بنیاد تھی، لیکن ہنزہ میں زمین کی ملکیت کم تھی، اسی لیے خواتین کو دیگر شعبوں میں بھی کام کرنا پڑا۔‘

معاشی سرگرمیوں میں خواتین کی شمولیت اب زندگی کے دیگر شعبوں تک بھی پھیل گئی ہے، جیسے کہ کھیل کے میدان۔

17 سالہ نادیہ شمس کہتی ہیں: ’وادی کے ہر گاؤں کی خواتین کی اپنی فٹ بال ٹیم ہے: (مثلاً) گوجال، گلمت، پسو، خیبر، شمشال۔‘

مصنوعی گھاس کے میدان میں، وہ اپنی ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ ٹریننگ کرتی ہیں، جو ٹریک سوٹ یا شارٹس پہنتی ہیں، جو پاکستان کے دیگر علاقوں میں لباس کے اصولوں کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

یہاں سب کی زبان پر ایک ہی نام ہے: ملکہِ نور، جو قومی خواتین ٹیم کی سابق نائب کپتان ہیں اور جنہوں نے 2010 کی ساؤتھ ایشین ویمنز فٹ بال چیمپیئن شپ میں مالدیپ کے خلاف فیصلہ کن گول کیا تھا۔

فہیمہ قیوم صرف چھ سال کی تھیں، جب انہوں نے یہ تاریخی لمحہ دیکھا۔

آج، کئی بین الاقوامی میچز کھیلنے کے بعد، وہ نئی نسل تیار کر رہی ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’ایک لڑکی کے طور پر، میں دوسروں کو کھیلنے کی اہمیت بتاتی ہوں کیونکہ کھیل صحت کے لیے بہت مفید ہے۔ اگر وہ اچھا کھیلیں تو وہ سکالر شپ بھی حاصل کر سکتی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین