ایران یمنی باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے پر رضامند: امریکی اخبار

امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے خبر دی ہے کہ ایران نے سعودی عرب کے ساتھ حالیہ معاہدے کے تحت یمن کے حوثی باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے پر روکنے پر اتفاق کیا ہے۔

دس مارچ 2023 کو بیجنگ میں سعودی عرب کے قومی سلامتی کے مشیر مساعد بن محمد العيبان (بائیں)، ڈائریکٹر آف دی آفس آف دا سینٹرل فارن افیئرز کمیشن آف دا چائنیز کمیونسٹ پارٹی وانگ یی (درمیان) اور سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل آف ایران کے سیکریٹری علی شمخانی (دائیں) موجود ہیں (روئٹرز/ چائنا ڈیلی)

امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے سعودی اور امریکی حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ایران نے سعودی عرب کے ساتھ حالیہ معاہدے کے تحت یمن کے حوثی باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے پر روکنے پر اتفاق کیا ہے۔

گذشتہ جمعے کو سعودی عرب اور ایران نے چین کی ثالثی میں اتفاق کیا تھا کہ دو ماہ کے اندر تعلقات کی بحالی اور اپنے سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے کام کیا جائے گا۔

اخبار نے لکھا ہے کہ اگر ایران نے حوثیوں کو ہتھیار دینا بند کر دیے تو ان پر دباؤ پڑے گا کہ وہ تنازع ختم کر دیں۔

اس سے قبل اقوامِ متحدہ میں ایرانی وفد کے ایک رکن نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا تھا کہ آیا ایران حوثیوں کو ہتھیار فراہم کرنا بند کرے گا۔

وال سٹریٹ جرنل نے مزید لکھا ہے کہ اسے ایران اور سعودی عرب دونوں ملکوں کے حکام نے بتایا ہے کہ ایران حوثیوں پر دباؤ ڈالے گا کہ وہ سعودی عرب پر حملے بند کر دیں۔

اقوامِ متحدہ نے پہلے ہی کسی بھی ملک کی جانب سے یمن کو ہتھیار فراہم کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔

وال سٹریٹ جرنل نے ایک سعودی عہدے دار کے حوالے سے بتایا کہ سعودی عرب کو توقع ہے کہ ایران حوثی باغیوں کو اسلحے کی فراہمی اقوامِ متحدہ کی جانب سے عائد پر پابندی کی پاسداری کرے گا۔ 

معاہدے کی نئی تفصیلات

اس سے قبل عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کی قیادت میں ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات سے آگاہ سعودی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ 2021 میں عراق میں شروع ہونے والے مذاکرات کے گذشتہ ادوار کا تسلسل ہی تھا۔

ذرائع نے انکشاف کیا کہ صدر شی جن پنگ نے گذشتہ سال دسمبر میں دورہ ریاض کے دوران سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنازعات کو حل کرنے میں مدد کے لیے چین کے بطور پل کا کردار ادا کرنے میں دلچسپی ظاہر کی، جسے سعودی رہنما محمد بن سلمان نے پسند کیا تھا۔

سعودی ذرائع نے کہا کہ گذشتہ جمعے کی پیش رفت کے لیے بیجنگ میں پانچ دن تک مذاکرات ہوئے اور’دن رات‘ جاری رہنے والے ان مذاکرات کے تین بنیادی ستون تھے۔

مذاکرات کا پہلا ستون علاقائی ممالک کی خودمختاری کا احترام، جبکہ دوسرا آئندہ دو ماہ کے اندر سفارتی تعلقات کی بحالی، جس سے دونوں ممالک کو تفصیلات کا جائزہ لینے اور حتمی شکل دینے کا وقت ملے اور سفارت کاروں کو دوبارہ بھیجنے کی لاجسٹکس پر بھی کام کیا جائے۔

ذرائع کے مطابق تیسرا ستون ایران اور سعودی عرب کے درمیان پہلے سے طے شدہ دو طرفہ معاہدوں کا احیا تھا، جن میں 2001 کا سکیورٹی معاہدہ بھی شامل تھا، جس پر اس وقت سعودی وزیر داخلہ شہزادہ نائف بن عبدالعزیز اور اس وقت کے ان کے ہم منصب حسن روحانی نے دستخط کیے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سعودی ذرائع نے واضح کیا کہ سفارتی تعلقات کی بحالی کا مطلب ابھی تک تمام تنازعات کا خاتمہ نہیں ہے۔

چین کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں بیجنگ کا ایک منفرد مقام ہے اور یہ معاہدہ چین کے اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی مفادات میں آتا ہے۔ 

ذرائع نے مزید کہا کہ بہت سے مبصرین چین پر ایران کے بڑے انحصار کو کم سمجھتے ہیں، جس کے بارے میں ان کے بقول تہران دنیا میں صرف دو دوستوں میں سے ایک ہے (جبکہ دوسرا روس ہے)۔

دیگر تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ ریاض اور تہران دونوں نے فوجی، انٹیلی جنس اور سائبر سمیت عدم جارحیت کے دو طرفہ عزم پر اتفاق کیا ہے، نہ ہی وہ دوسروں کی مدد کریں گے اور نہ ہی اس طرح کے حملوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دیں گے۔

اس کے علاوہ ایک سہ فریقی اعلیٰ سطح کی کمیٹی (جس میں چین بھی شامل ہو گا) وقتاً فوقتاً اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ملاقات کرے گی۔ 

ذرائع نے یہ بھی کہا کہ بیجنگ میں ہونے والی بات چیت میں تیل یا جوہری مسائل سے متعلق موضوعات پر کوئی بات چیت شامل نہیں تھی۔
 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی