ایران معاہدہ تنازعات کے حل کی مشترکہ خواہش ظاہر کرتا ہے: سعودی عرب

چین کے زیر اہتمام معاہدہ طے پانے کے بعد ایک انٹرویو میں سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ اس معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے ایرانی ہم منصب سے جلد ملاقات کے منتظر ہیں۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بن عبداللہ (اے ایف پی)

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بن عبداللہ نے کہا کہ ان کے ملک کا ایران کے ساتھ معاہدہ فریقین کی مشترکہ خواہش کو ظاہر کرتا ہے کہ ’تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔‘

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے درمیان تمام زیر التوا تنازعات کو حل کرنے کے لیے کوئی معاہدہ طے پا گیا ہے۔‘

ریاض اور تہران نے جمعے کو بیجنگ میں 2016 میں منقطع تعلقات کو بحال کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ انہوں نے دو ماہ کے اندر اندر اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر بھی اتفاق کیا تھا۔

چین کے زیر اہتمام معاہدہ طے پانے کے بعد اشراق الاوسط کو دیے گئے اپنے پہلے انٹرویو میں شہزادہ فیصل نے کہا کہ وہ اس معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے ایرانی ہم منصب سے جلد ملاقات کے منتظر ہیں۔

ادھر ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق اس معاہدے سے یمن میں جنگ بندی کے امکانات مستحکم ہوئے ہیں۔

کیئف اور ماسکو کے اپنے تازہ ترین دورے اور یوکرین روس جنگ کو روکنے کے لیے سعودی ثالثی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، انہوں نے زور دے کر کہا کہ ان کا ملک ’دونوں ممالک کے ساتھ مل کر کوششیں کرنے اور بحرانوں اور لڑائیوں کو ختم کرنے والے سیاسی حل تک پہنچنے کے لیے تیار ہے۔‘

سعودی ومیر خارجہ نے کہا کہ سفارتی تعلقات کی بحالی پر رضامندی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ’ہم اپنے درمیان تمام تنازعات کے حل تک پہنچ چکے ہیں۔ بلکہ بات چیت اور بات چیت اور پرامن اور سفارتی ذرائع سے حل کرنا ہماری مشترکہ خواہش کی علامت ہے۔‘

’ہم مملکت میں، ایران کے ساتھ ایک نئے باب کا آغاز کرنے اور تعاون کو تقویت دینے کی امید رکھتے ہیں جو نہ صرف ہمارے دونوں ممالک بلکہ پورے خطے میں سلامتی اور استحکام کو مستحکم کرے گا اور ترقی اور خوشحالی کو آگے بڑھا سکے گا۔‘

معاہدے کو فعال کرنے اور سفیروں کے تبادلے پر بات کرنے کے لیے آپ ایرانی وزیر خارجہ سے کب ملاقات کریں گے کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے ایرانی وزیر خارجہ سے جلد ملاقات کا منتظر ہوں۔ ہم اگلے دو ماہ میں سفارتی تعلقات بحال کرنے کی تیاری کریں گے۔‘

ایک اور سوال کے جواب میں کہ واشنگٹن نے ایران کے عزم پر شک ظاہر کیا ہے۔ کیا اس معاہدے میں دوسروں کے معاملات میں مداخلت سے متعلق کوئی شرائط ہیں اور کیا آپ کو یقین ہے کہ ایران اس کا احترام کرے گا؟

جواب میں سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ایران کے ساتھ تعلقات کے نئے باب کے آغاز کا ایک اہم ترین مطالبہ ہمارے درمیان طے پانے والے معاہدے کی پاسداری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے دونوں ممالک اور خطہ مشترکہ تعاون اور ہم آہنگی کو فعال کرنے اور بالادستی کے بجائے ترقی پر توجہ دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

’اس طرح کا نقطہ نظر ہمارے لوگوں اور آنے والی نسلوں کی امنگوں اور امیدوں کو ایک بہتر مستقبل کے لیے حاصل کرے گا جو محفوظ، مستحکم اور خوشحال ہو۔ ہمیں امید ہے کہ ایرانی ہماری امیدوں اور اہداف میں شریک ہوں گے اور ہم ان کے حصول کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔

ایران کچھ عرصے سے کئی بحرانوں سے دوچار ہے، جیسے کہ اس کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کا خاتمہ اور اندرونی مسائل جس کی وجہ سے ایک کے بعد ایک بحران پیدا ہو رہا ہے اور ساتھ ہی اس کی مشکلات کا شکار معیشت بھی۔ کچھ آوازیں، خاص طور پر مغربی، کا خیال ہے کہ یہ نیا معاہدہ ایرانی حکومت کے لیے لائف لائن ثابت ہو سکتا ہے۔ آپ کیا سوچتے ہیں؟

’میں ان سوالوں کا جواب نہیں دوں گا جو اس سوال میں اٹھائے گئے ہیں کیونکہ وہ زیادہ تر ایران کے اندرونی معاملات سے متعلق ہیں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایران ایک پڑوسی ملک ہے، جس کے استحکام اور ترقی سے خطے کے مفاد اور ترقی کو فائدہ پہنچے گا۔ ہم سعودی عرب میں صرف اس کی خیر چاہتے ہیں۔‘

’جہاں تک ایران کی اپنی جوہری صلاحیتوں میں مسلسل ترقی کا تعلق ہے، یہ بلا شبہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہم نے بارہا خلیجی خطے اور مشرق وسطیٰ کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک رہنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم ایران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے جوہری وعدوں پر عمل کرے اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ اپنے تعاون کو تیز کرے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اتحادیوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر کام جاری رکھیں گے۔

چین کو علاقائی بحرانوں کو حل کرنے کے لیے اقدامات میں اپنا سفارتی وزن ڈالنے کی عادت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ چین خاص طور پر ثالث کیوں تھا، کوئی دوسرا ملک نہیں؟

’جیسا کہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے، سعودی عرب نے چینی صدر شی جن پنگ کے تجویز کردہ اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس نے اس کے ساتھ مذاکرات کی توسیع کے طور پر کام کیا جو وہ دو سال سے ایرانیوں کے ساتھ کر رہا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ چین کے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ مثبت تعلقات ہیں جنہوں نے تال میل حاصل کرنے اور مملکت کے جائز تحفظات کو اجاگر کرنے میں مدد کی ہے۔

’ہمیں امید ہے کہ اس معاہدے کی چین کی سرپرستی ہمارے خطے میں بقائے باہمی اور سلامتی اور ملکوں کے درمیان اچھی ہمسائیگی کو تقویت دے گی۔ تینوں ممالک ایک ایسے علاقائی ماحول کی تیاری میں مشترکہ دلچسپی رکھتے ہیں جس میں امن، سلامتی اور استحکام کا نشان ہو تاکہ وہ علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داریوں کی تعمیر اور ترقی پر کام کر سکیں جس سے عوام کی معاشی ترقی اور خوشحالی ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادھر ایران کے سرکاری میڈیا نے اتوار کو رپورٹ کیا کہ اقوام متحدہ میں ایران کے مشن کا کہنا ہے کہ دو طرفہ تعلقات کی بحالی کے لیے سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ یمن کی برسوں سے جاری جنگ کے سیاسی تصفیے میں مدد کرے گا۔

مغربی حکومتوں اور اقوام متحدہ کے ماہرین طویل عرصے سے ایران پر حوثیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ مغربی افواج نے بحیرہ احمر میں ایرانی ہتھیار لے کر یمن جانے والے بحری جہازوں کو بارہا روکا ہے۔

تہران نے حوثیوں کو مسلح کرنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔

ایران کے اقوام متحدہ کے مشن کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے، ارنا خبر رساں ایجنسی نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ ختم شدہ جنگ بندی کے معاہدے کی تجدید کی کوششوں کو تیز کرے گا، ’قومی بات چیت شروع کرنے میں مدد کرے گا، اور یمن میں ایک جامع قومی حکومت تشکیل دے گا۔‘

یمن میں طویل ترین جنگ بندی اکتوبر میں ختم ہو گئی تھی۔ تاہم، فریقیں نے ایسی سنگین کارروائیاں کرنے سے گریز کیا جو لڑائی کو بھڑکنے کا سبب بن سکتے ہیں، کیونکہ حوثیوں اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کی تجدید کے لیے بات چیت جاری تھی۔

حوثی اس معاہدے کا خیرمقدم کرتے نظر آئے اور ساتھ ہی ایران کے سب سے بڑے دشمن امریکہ اور اسرائیل پر بھی تنقید کی۔

باغیوں کے ترجمان اور چیف مذاکرات کار محمد عبدالسلام نے کہا، ’خطے کو اپنے ملکوں کے درمیان معمول کے تعلقات کی واپسی کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے صہیونیوں اور امریکیوں کی قیادت میں غیر ملکی مداخلتوں کے نتیجے میں اسلامی معاشرہ اپنی کھوئی ہوئی سلامتی کو دوبارہ حاصل کر سکے۔‘

یمن کے سیاسی مبصر اور صحافیوں کی یونین کے سابق سربراہ عبدالباری طاہر نے سعودی عرب ایران معاہدے کو ’مثبت پہلا قدم‘ قرار دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا