جو کل صحیح تھا وہ آج غلط؟

آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی صورت تحریک انصاف دور میں ہونے والی زیادتیوں کا جواز نہیں ہو سکتا۔ جو کل غلط تھا وہ آج بھی غلط ہے۔

عمران خان کچھ روز قبل خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے (تصویر: اے ایف پی)

تحریک انصاف کے دور حکومت میں صرف مثبت خبریں چلانے کا ایسا سائیکل چلا کہ ن لیگ کے رہنماؤں کو پروگرام میں لینے پر سخت کالیں آ جاتی تھیں۔ درخواست یہ ہوتی کہ چھ مہینے صرف مثبت خبریں چلائیں پھر دیکھیں پاکستان کہاں پہنچتا ہے۔

پاکستان نے البتہ ریورس گیئر لگایا اور پھر اگلا فیز آیا جب حزب اخلاف کے رہنما جیلوں میں ڈال دیے گئے اور ہمیں ٹاک شوز کے لیے ن لیگ کا کوئی رہنما بمشکل ہی ملتا تھا لیکن نیا پاکستان پھر بھی ٹیک آف نہ کر پایا۔

پھر ہم نے وہ دور بھی دیکھا جب نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر اور ٹکرز چلانے تک پر پابندی لگ گئی۔ میڈیا کو اس طریقے سے مینیج کیا گیا کہ عمران خان کے ناقد ٹی وی اینکرز نوکریوں سے فارغ ہونے لگے اور درجنوں صحافی نما سیاسی کارکنان کے ذریعے تحریک انصاف کے علاوہ سب چور ڈاکو کا ون سائیڈڈ پروپیگنڈا چلایا گیا۔

ساتھ ہی عمران خان کو یوٹیوبرز نے عالم اسلام کا سب سے بڑا رہنما ثابت کر دیا اور جو صحافی اس رائے سے متفق نہ ہوتا وہ جدید ٹرولنگ باالفاظ دیگر ننگی گالیوں کا حقدار پاتا لیکن عمران خان کو لانے اور چلانے والے اس حقیقت کو ماننا شروع ہو گئے کہ گاڑی دھکوں سے بھی سٹارٹ نہیں ہو رہی۔

صحافت اور اظہار رائے پر پابندیوں کے اس دور میں چند نام ایسے ہیں جو کھل کر بولے اور نتائج بھی بھگتے لیکن ایک جم غفیر ایسا بھی ہے جو ان پابندیوں کا نہ صرف دفاع کرتا رہا بلکہ اپوزیشن کے کسی رہنما کے جیل جانے پر دھڑلے سے وی لاگ کے ٹائٹل لگاتا رہا ’خان نے ایک اور وکٹ گرا دی‘۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے عمران خان کو 2021 میں ’پریس پریڈیٹر‘ یعنی میڈیا کا شکاری کا ٹائٹل دیا۔ لیکن صحافی نما کارکنان نہ صرف خاموش رہے بلکہ وہ صحافی جو آواز اٹھاتے رہے ان کی کردار کشی پر لمبے لمبے وی لاگز میں مصروف رہے۔ نہ ان کو اس وقت انسانی حقوق کی پامالی نظر آ رہی تھی اور نہ ہی صحافت پر لگنے والی قدغنوں کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت تھی۔

لیکن آج جو کچھ ہو رہا ہے اسے وہی صحافی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی اور صحافت کا تاریک ترین دور ثابت کر رہے ہیں۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی صورت تحریک انصاف دور میں ہونے والی زیادتیوں کا جواز نہیں ہو سکتا۔ جو کل غلط تھا وہ آج بھی غلط ہے۔ لیکن آپ نظر دوڑائیں تو ایسے صحافی نما سیاسی کارکنان کی بڑی تعداد آپ کو نظر آئے گی جن کے انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کے معیارات کا فیصلہ ایک پارٹی کی پریس ریلیز کے مندرجات سے ہوتا نظر آئے گا۔

آج چادر اور چار دیواری کی مبینہ پامالی پر وی لاگ کرنے والوں کے منہ سے اس وقت ایک چھوٹی سی مذمت نہیں نکل پائی تھی جب اندر داخل ہو کر آدھی رات کو کسی کی بیٹی اور ماں مریم نواز کے ہوٹل کا دروازہ توڑ دیا گیا تھا۔

معیار تو یہ ہونا چاہیے کہ عثمان ڈار کی والدہ سے ہونے والے توہین آمیز سلوک اور مریم نواز سے ہونے والی زیادتی کی کھل کر مذمت کی جاتی۔ لیکن چونکہ عمران خان کے بقول، مریم نواز ایک ’چور ڈاکو‘ کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اس لیے ان کو جیل میں ڈالو، کمرے کا دروازہ توڑ کر اندر گھس جاؤ وہ سب جسٹیفائیڈ ہے لیکن اگر تحریک انصاف سے جڑے کسی شخص کے ساتھ ایسا ہو تو ایسی کی تیسی کر دو۔

یہ رویہ آپ کو صحافی نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کی گود میں بیٹھ کر صحافت کرنے والا صحافی نما سیاسی کارکن بنا دیتا ہے۔ ایسے خواتین و حضرات آج کل وافر مقدار میں موجود ہیں جو آج صرف خود کو ہی شرمندہ کر رہے ہیں۔

نو مئی کے واقعات کے بعد ویسے بھی حالات اس قدر بدل چکے ہیں کہ ہمیں ٹی وی پر بصد مجبوری عمران خان کو قاسم کے ابا پکارنا پڑ رہا ہے۔ کسی کے نام لینے پر پابندی اس وقت بھی غلط تھی جب تین دفعہ کے وزیراعظم نوازشریف اس کا نشانہ تھے اور آج بھی غلط ہے جب عمران خان اس کا نشانہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن نوازشریف پر لگنے والی پابندی پر جشن منانے والے آج کس منہ سے عمران خان پر لگنے والی پابندی کو آزادی اظہار رائے سے جوڑ سکتے ہیں؟ مطیع اللہ جان اور اسد طور کے ساتھ ہونے والے واقعات کو لڑکی کے بھائی سے جوڑنے والے یہ حضرات آج کیسے سمیع ابراہیم کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر چیخ سکتے ہیں؟

ہاں البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ وہ عمران خان کے دور میں ہونے والی زیادتیوں کا جواز پیدا کرنے پر آج معافی مانگ کر کہیں کل غلط ہوا تھا اور آج بھی غلط ہو رہا ہے۔

مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ایسا شاید وہ کر بھی لیں اگر عمران خان آج اپنے دور میں کی گئی زیادتیوں پر معافی مانگ لیں، کیونکہ لائن جو وہیں سے لینی پڑتی ہے۔ عمران خان آج سیاسی جماعتوں سے کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ آپ کو کب مارنے کا فیصلہ کرے آپ کو پتہ نہیں چلے گا، لہذا موجودہ حالات پر سوچیں۔

یہ ہنسنے کا مقام اس لیے ہے کہ انہوں نے خود اپوزیشن اور صحافت کے ساتھ کر کے جو ٹائٹل پائے وہ آج بھول چکے ہیں۔ انہیں شہریار آفریدی تو یاد ہیں لیکن رانا ثنا اللہ کی اہلیہ اور بچوں کی درد بھری پریس کانفرنسز بھول چکی ہیں۔

اگر آپ ایک نیا آغاز چاہتے ہیں تو اپنی کی گئی غلطیوں پر ندامت کا اظہار کر کے معافی مانگیں تاکہ صحافی نما کارکنان بھی آپ کی پیروی کر سکیں۔ گذشتہ اور موجودہ دور کے موازنے میں نو مئی کا تذکرہ نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی۔

کالم کے اختتام پر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث تمام لوگوں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ لیکن وزیراعظم شہباز شریف کو نو مئی کے واقعات کی آڑ میں سیاسی انتقام کا تاثر ختم کرنا ہو گا اور یہ بھی کہ پریس کانفرنس کر کے جان بخشیاں ہو رہی ہیں۔

ندیم افضل چن اور حماد اظہر کے بزرگ والد کو اٹھانے سے حکومت نو مئی کے واقعات کے ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کے عمل پر شکوک و شبہات بڑھا رہی ہے۔ ان کی فوری رہائی قابل تحسین ہے لیکن ان کی گرفتاری پر اٹھنے والا بڑا سوالیہ نشان جوں کا توں موجود ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی رائے پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ