مستقبل سنوارنے کے دو ’شریفانہ‘ طریقے

نوجوانوں کو فکر ہے کہ ان کا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے، لیکن اس کالم میں انہیں کیریئر بنانے کے دو نادر طریقے بالکل مفت بتائے جا رہے ہیں۔

ہمارے ملک میں صحافت واحد پروفیشنل شعبہ ہے جس کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں (اے ایف پی) 

ویسے تو ہمارے ملک کے حالات کبھی بھی مثالی نہیں رہے لیکن آج کل تو ہمارے اپنے حساب سے یعنی even by our own standards بھی حالات بہت خراب ہیں۔

لوگ صبح اٹھتے ہیں تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ ڈالر دس روپے مہنگا ہو گیا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کی تنخواہ بیٹھے بٹھائے گھٹ گئی ہے۔ کسی زمانے میں ہم جیسے لکھاری اخبار میں شائع ہونے والی تجارتی خبروں کا تمسخر اڑاتے ہوئے اس قسم کے جملوں سے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ افریقہ کے قبائل میں لڑائی کے نتیجے میں 50 افراد مارے گئے جس سے جنوبی امریکہ میں روئی کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہو گیا، یا جزائر غرب الہند میں خطرناک وائرس پھیلنے سے شنگھائی کی سٹاک مارکیٹ میں سٹہ بازوں کے کروڑوں ڈالر ڈوب گئے وغیرہ وغیرہ۔

اب تو یوں لگتا ہے جیسے ان خبروں میں واقعی صداقت ہوتی تھی، آج اگر راہ چلتے کسی اَن پڑھ کو روک کر بھی پوچھیں کہ پاکستان کی معیشت ترقی کیوں نہیں کر رہی تو وہ آپ کو بتائے گا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہو پا رہا کیونکہ ماضی میں ہم نے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں کا پاس نہیں کیا تھا اس لیے اعتماد کی کمی ہے، اب آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان اس بات کی ضمانت دے کہ وہ پہلے چھ سے آٹھ ارب ڈالر کی فنانسنگ حاصل کرے، اس کے بعد سٹاف لیول پر۔۔۔

گویا جو باتیں پہلے صرف معیشت دانوں کو معلوم ہوتی تھیں آج وہ بچے بچے کو ازبر ہیں۔

لیکن ہمارا موضوع پاکستان کے معاشی مسائل یا ان کا حل نہیں ہے، ہمارا موضوع ہے کہ ان مسائل کی موجودگی میں آج کا نوجوان کیا کرے؟ کیا اس کے پاس کوئی شریفانہ راستہ ہے؟ اگر ہے تو کیا ہے اور اگر نہیں ہے تو ملک سے باہر جانے، شادی کرنے اور خودکشی کرنے کے علاوہ اس کے پاس کیا آپشن ہے؟

میرے خیال میں آج کا نوجوان کچھ زیادہ ہی مایوس ہے، حالات چاہے جتنے بھی خراب ہوں، اندھیری رات بالآخر کٹ جاتی ہے اور سپیدہ سحر نمودار ضرور ہوتا ہے۔

سیانے کہہ گئے ہیں کہ کہیں دور جب دن ڈھل جائے، سانجھ کی دلہن بدن چرائے، چپکے سے آئے۔۔۔ لہٰذا میرے عزیز نوجوانو گھبرانا نہیں ہے، تمہاری دلہن بھی چپکے سے آئے گی لیکن اس سے پہلے تم نے اپنا کیریئر بنانا ہے ورنہ دلہن چپکے سے واپس بھی جا سکتی ہے اور فی زمانہ کیرئیر بنانے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ تم سرکاری نوکری حاصل کر لو۔

ہاں ہاں، میں جانتا ہوں، یہ کوئی آسان کام نہیں، لیکن نوجوانو، ایک مرتبہ اگر تم یہ کام کر لو گے تو یاد رکھنا کہ ساری عمر تمہیں کوئی کام نہیں کرنا پڑے گا۔ اور یہ جو لفظ نوکری ہے اس سے کوئی غلط مطلب مت نکالنا، اس سے مراد اصل میں افسری ہے۔

اب تم پوچھو گے کہ سرکاری ملازمت میں تو بہت سختی ہو گئی ہے، کام کرنا پڑتا ہے، افسران بالا کی ڈانٹ ڈپٹ سہنی پڑتی ہے؟

نہیں عزیزان من، یہ سب دشمنوں کی پھیلائی ہوئی باتیں ہیں۔ سرکاری لوگ نہیں چاہتے کہ ہر کوئی سرکار کی نوکری کی طرف راغب ہو، کام کا تو صرف شور ہے، مجھ سے پوچھو تو یہ وظیفے کا دوسرا نام ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سرکاری افسر بننے کے لیے ایک مشکل سا امتحان دینا پڑتا ہے جو خاصا جوکھم کا کام، اس میں وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور جوئے کی طرح اس کے نتیجے کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا۔

پاس ہونے پر آئے تو کوئی بھی پاس ہو جاتا ہے اور فیل ہونے پر آئے تو اچھا خاصا بیدار مغز شخص بھی فیل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے میں نے تم لوگوں کے لیے ایک اور کیریئر بھی سوچ رکھا ہے اور وہ ہے صحافت۔

دیکھو اب یہ مت کہنا کہ یہ کام بھی مشکل ہے، سچ پوچھو تو اس سے آسان کام اپنے ملک میں کوئی نہیں۔ یہ واحد شعبہ ہے جس میں داخل ہونے کے لیے کوئی سند یا تجربہ درکار نہیں۔ ہاں ہاں، کچھ اخبار اور ٹی وی چینل والے ایم ایس سی ماس کمیونیکیشن یا ایم اے صحافت مانگتے ہیں، مگر ڈگری کوئی نہیں دیکھتا۔

اگر تم اپنا یو ٹیوب چینل بنا کر اس میں سو پچاس ویڈیوز بھر دو تو بھی کام چل جائے گا اور اگر یہ طریقہ بھی مشکل لگے تو کسی بھی چینل کو کہنا کہ تمہیں بغیر تنخواہ کے رپورٹر بھرتی کر لے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چھ ماہ تک یہ کڑوا گھونٹ بھرنا پڑے گا، اس کے بعد تم کسی سکوٹر کی طرح سیلف سٹارٹ ہو جاؤ گے۔ اگر تو چینل والوں نے تنخواہ لگا دی تو بہت اچھے اور اگر نہ لگائی تو بھی کوئی مسئلہ نہیں، جیسے کہ میں نے کہا یہ ایک منفرد فیلڈ ہے، یہاں بغیر تنخواہ کے بھی گزارا ہو جاتا ہے۔

سب سے بڑی کشش یہ ہے کہ اس میں منہ پھٹ اور بدلحاظ لوگوں کا مستقبل بہت روشن ہے۔ جب تمہیں اس فیلڈ میں چار پانچ سال ہو جائیں تو تم نے کسی ٹی وی چینل میں ٹاک شو کی میزبانی حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے، چاہے وہ چینل کسی دودھ دہی والے نے کھولا ہو اور وہ پروگرام اس کی گھر والی کے علاوہ کوئی نہ دیکھتا ہو۔

تم نے صرف وہاں منہ بگاڑ کر گفتگو کرنی ہے، لوگوں کی پگڑیاں اچھالنی ہیں اور بد زبانی کے نئے ریکارڈ قائم کرنے ہیں۔ اس کے بعد دیکھنا کیسے تم دنوں میں مقبول ہو جاؤ گے، لوگ تمہیں دانشور کہیں گے، تمہارے سامنے آنے سے کترائیں گے، چینل کے مالکان تمہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور تمہیں منہ مانگی قیمت دے کر تمہارا ضمیر خریدیں گے۔

گھبرانا نہیں، بے فکر ہوکر ضمیر بیچنا، ضمیر کی پروا بالکل نہ کرنا، اس ضمیر نے تمہارا کچن نہیں چلانا۔

نوجوانو! میں نے پوری نیک نیتی کے ساتھ آج تک لوگوں کو اپنا مستقبل سنوارنے کے دو طریقے بتائے ہیں، اگر تم کسی ایک پر بھی عمل کر لو گے تو یقین کرو امر ہو جاؤ گے اور ساری عمر مجھے دعائیں دو گے۔

لیکن مجھے تمہاری دعاؤں کی ضرورت نہیں، البتہ اگر تمہیں ان شعبوں میں کامیاب ہونے کے لیے کسی تعویذ کی ضرورت ہے تو میرے نام پانچ ہزار روپے کا پے آرڈر ارسال کرو، میں تمہیں customized تعویذ بھیجوں گا۔

مجھے روپے پیسے کی طمع نہیں، میں یہ کام فی سبیل اللہ کرتا ہوں اورتمہارے بھیجے گئے پیسے میں بیواؤں اور جواں سال مسکین عورتوں کی بہبود پر خرچ کرتا ہوں۔ خدا میرا حامی و ناصر ہو۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر