خود ملامتی کو ذرا بریک دیں

میں ہر وقت اپنی قوم کو لعن طعن کرنے سے تنگ آ گیا ہوں، ہم نے ان باتوں کو بھی تضحیک کا نشانہ بنا لیا ہے، جن پر ہمیں فخر ہونا چاہیے۔

12 اگست 2022 کی اس تصویر میں پاکستان کے شہر کراچی میں شہری قومی پرچم کی خریداری کرتے ہوئے (اے ایف پی)

میرے ایک دوست جو ناروے میں رہتے ہیں، اکثر پاکستان آتے رہتے ہیں، گذشتہ برس جب وہ آئے تو میں نے پوچھا کہ ناروے جیسے آئیڈیل ملک سے پاکستان آ کر کیسا محسوس کرتے ہیں؟

انہوں نے بڑا دلچسپ جواب دیا، کہنے لگے: ’پاکستان آ کر میں پُرسکون ہو جاتا ہوں۔‘

میں نے کہا: ’کیا مطلب؟‘

فرمانے لگے کہ ’ناروے میں ہر کام کی ٹینشن ہوتی ہے، ڈاکٹر سے چھ بجے کی اپائنٹمنٹ ہے، فوراً پہنچو، کہیں اپائنٹمنٹ ضائع نہ ہو جائے۔ ڈنر پر جانا ہے، جلدی کرو، وقت نکلا جا رہا ہے۔

’تین ماہ بعد دوست نے ملنے کا وعدہ کیا ہے، ٹائم پر نکلو ورنہ دوست مصروف ہو جائے گا۔ گویا ہر وقت ذہن میں ایک عجیب تناؤ کی سی کیفیت رہتی ہے، لگتا ہے جیسے ناروے میں انسان نہیں مشینیں ہیں جو وقت پر سٹارٹ ہوتی ہیں اور وقت پر بند ہوجاتی ہیں۔

’جبکہ یہاں پاکستان میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس جانا ہو، وکیل سے ملنا ہو، بارات پر پہنچنا ہو، کسی سے ملنا ہو، کوئی مسئلہ ہی نہیں فون اٹھاؤ اور کہو کہ میں آرہا ہوں۔

’آج بٹ کی کڑاہی کھانے چلیں گے۔ بسم اللہ، مسئلہ ہی کوئی نہیں، اب آدھ گھنٹے میں آؤ یا دو گھنٹے میں، ہم بیٹھے ہیں تصور جاناں کیے ہوئے۔

’ڈاکٹر سے چھ بجے کا وقت لیتے ہیں، سات بجے پہنچتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب خود بھی تشریف نہیں لائے۔ ہم کہتے ہیں کوئی بات نہیں اور بیٹھ جاتے ہیں۔

’ناروے ہو تو اپائنٹمنٹ ضائع کرنے کے بعد تین ماہ انتظار کرنا پڑے۔‘

مجھے ان کا یہ جواب بہت دلچسپ لگا کیونکہ بات محض وقت کی پابندی کی نہیں بلکہ اس بے فکر رویے کی ہے جو ہمارے ہاں عام ہے۔

جی ہاں، اس بے فکر رویے کو لاپروائی اور وقت کا ضیاع کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے مگر آج کم از کم فدوی کا ارادہ تنقید کا نہیں، پاکستانی قوم پر ہم ہر وقت تنقید ہی تو کرتے ہیں، ایک آدھ مرتبہ تعریف کردیں گے تو قیامت نہیں آجائے گی۔

میرے ایک اور دوست، جو اکثر مغربی ممالک کا سفر کرتے رہتے ہیں، ایک مرتبہ ایمسٹرڈیم میں کسی ڈچ خاتون کے پاس اپنے کام کی غرض سے بیٹھے تھے کہ خاتون کو ان کی دوست کا فون آیا، وہ کہنے لگی کہ ’میں یہاں قریب سے گزر رہی ہوں، اگر تمہارے پاس وقت ہو تو آدھ گھنٹے کے لیے آجاؤ، کہیں کافی پینے چلتے ہیں۔‘

یہ سن کر ڈچ خاتون نے ڈائری نکالی اور اپنا شیڈول دیکھنا شروع کر دیا اور پھر کچھ دیر بعد بولی کہ آج تو ممکن نہیں البتہ تین ہفتے بعد سہ پہر چار بجے کافی پی جا سکتی ہے۔

یہ سن کر ان کی دوست نے یہ کہتے ہوئے فون بند کردیا کہ آج کا دن، آج کا موسم، آج کا موڈ، آج کا وقت اور آج کی کافی کو تین ہفتے بعد ’شیڈول‘ کر کے نہیں پیا جا سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میرے دوست نے جو یہ سب کچھ بہت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا، ڈچ خاتون کو کہا کہ ’اگر پاکستان میں میرا کوئی دوست مجھے یوں فون کرتا تو 99 فیصد امکان اس بات کا تھا کہ میں اس کے ساتھ اٹھ کر چل پڑتا الّا یہ کہ میں ہنگامی طور پر مصروف ہوتا۔‘

ڈچ خاتون حسرت سے اسے دیکھ کر خاموش ہو گئیں، لیکن اس خاموشی کا فائدہ یہ ہوا کہ ان دونوں نے پھر رات کا کھانا اکٹھے کھایا، یا یوں کہیے کہ کم از کم میرے دوست نے مجھے صرف کھانے کے بارے میں ہی بتایا۔

ہم دوستوں میں یہ بحث اکثر ہوتی ہے کہ بطور پاکستانی آج کل ہم اپنے بارے میں کچھ زیادہ ہی معذرت خواہانہ انداز اپنائے ہوئے رہتے ہیں۔

ہم میں ہزار برائیاں ہوں گی مگر کچھ مثبت باتیں تو بہرحال ہر قوم میں ہوتی ہیں۔ ٹھیک ہے کہ ہم وقت کی پابندی نہیں کرتے مگر کسی کی خوشی غمی میں تو بر وقت شریک ہوتے ہیں۔

 ٹھیک ہے کہ ہم میں ’work ethics‘ کی کمی ہے مگر ہم کولہو کے بیل بھی تو نہیں ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ ان دلائل سے متاثر نہیں ہوں گے اور پاکستانی قوم کی ہزار خامیاں نکال کر سامنے رکھ دیں گے مگر میرا ارادہ آج  کسی کو قائل کرنے کا نہیں بلکہ صرف اپنی دل کی بھڑاس نکالنے کا ہے۔

میں ہر وقت اپنی قوم کو لعن طعن کرنے سے تنگ آ گیا ہوں، ہم نے ان باتوں کو بھی تضحیک کا نشانہ بنا لیا ہے جن پر ہمیں فخر ہونا چاہیے۔

ہمارا ہر جملہ اس بات سے شروع ہوتا ہے کہ دنیا کی کسی قوم میں یہ برائی نہیں جو ہم میں ہے، دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا جو ہم نے کیا ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جو ہمارے ہاں ہوتا ہے، وہ تمام برائیاں اور خرابیاں جو ہم میں پائی جاتی ہیں وہ دنیا کے کسی نہ کسی دوسرے ملک اور قوم میں بھی پائی جاتی ہیں، لہذا ہر وقت کی یہ لعنت ملامت اچھی نہیں۔

انگریز وہ قوم ہے جس نے دنیا کو پارلیمانی جمہوریت کا تحفہ دیا، جو اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ لکھے ہوئے آئین کے بغیر ملک کو روایات کے تحت چلا رہے ہیں اور جو خود کو قانون کا تقریباً موجد سمجھتے ہیں۔

اس انگریز قوم کا وزیراعظم ٹونی بلیئر ’Chilcott Report‘ کی روشنی میں عراق پر حملے کا مجرم ہے اور بے گناہ شہریوں کا قاتل ہے، مگر برطانیہ میں آزاد پھرتا ہے، طعنے دینے ہیں تو اسے دیں، خود ملامتی کو ذرا بریک دیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ