اگر جیسنڈا آرڈرن ہماری وزیراعظم بن جائیں

اگر جیسنڈا آرڈرن پاکستان کی وزیراعظم بن جائیں تو انہیں کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور کیا وہ انہیں حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی؟

25  مئی 2022 کی اس تصویر میں جیسنڈا آرڈرن کو دیکھا جاسکتا ہے جنہوں نے 19 جنوری 2023 کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی حیثیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تھا (اے ایف پی)

مقتدرہ نے فیصلہ کیا کہ اس مرتبہ کیوں نہ اسے آزمایا جائے جس سے پاکستانی عوام واقعی محبت کرتے ہیں، قرعہ فال جیسنڈا آرڈرن کے نام نکلا۔

پہلے تو ان کی سکیورٹی کلیئرنس میں کافی دن لگ گئے، وہ نہ صرف غیر ملکی تھیں بلکہ غیر مسلم بھی تھیں۔ غیر ملکی والا مسئلہ تو کسی نہ کسی طرح حل ہو گیا کیونکہ معین قریشی کی نظیر پہلے موجود تھی البتہ غیر مسلم والا معاملہ ٹیڑھا تھا، اس کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت تھی اور ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کی، جبکہ پارلیمان میں بمشکل سادہ اکثریت کو ہی اپنا ہمنوا بنایا جا سکتا تھا۔

بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ کاغذات نامزدگی میں مذہب کے خانے میں ’اہل کتاب‘ لکھ دیا جائے اور ریٹرننگ افسر کو رام کر کے کاغذات ایک مرتبہ منظور کروا لیے جائیں تو باقی معاملات بعد میں دیکھے جائیں گے۔

ظاہر ہے کہ یہ کوئی مثالی حل نہیں تھا، تاہم اسے قابل قبول بنانے کے لیے ایک مرد عاقل نے تجویز دی کی جیسنڈا آرڈرن کے کاغذات بادشاہی مسجد کے امام صاحب پیش کریں، اس صورت میں ریٹرننگ افسر انہیں مسترد کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ یہ تجویز سب کو پسند آئی، امام صاحب نے بھی اسے سراہا۔

جیسے تیسے کر کے یہ مرحلہ طے ہو گیا، مس آرڈن کو ضمنی انتخاب میں کھڑا کیا گیا، چونکہ وہ پاکستانی عوام میں بہت مقبول تھیں، اس لیے باآسانی اپنی نشست جیت گئیں۔ اس دوران کسی نے ان کے انتخاب کو عدالت میں چیلنج بھی کر دیا لیکن ان کی مقبولیت کی وجہ سے اس رِٹ کو پذیرائی نہیں ملی اور وہ بالآخر پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔

وزیراعظم بننے کے بعد جیسنڈا آرڈرن نے جب اپنی کابینہ بنائی تو اس میں صرف دس وزیر رکھے اور انہیں ہدایت کی کہ تمام غیر ضروری وزارتیں ختم کر دی جائیں یا انہیں متعلقہ وزارتوں میں ضم کردیا جائے۔ اس فیصلے کو بہت سراہا گیا، اخبارات نے اس پر اداریے لکھے اور میڈیا میں اس پر ٹاک شو ہوئے، عوام نے بھی اس فیصلے کی پذیرائی کی لیکن یہ خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔

جن جماعتوں نے ووٹ دے کر جیسنڈا آرڈرن کو منتخب کیا تھا، ان کے سربراہان نے مس آرڈرن سے ملاقات کی اور کہا کہ اگر انہیں انہیں سیٹوں کی مناسبت سے وزارتیں نہ ملیں تو وہ حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہو جائیں گے اور یہ وزارت عظمیٰ دھڑام سے نیچے آ گرے گی۔

جیسنڈا آرڈرن کو اندازہ تھا کہ انہیں منتخب کروانے کے لیے پاکستانی عوام نے کیا کیا جتن کیے ہیں، وہ نہیں چاہتی تھیں کہ یہ ساری محنت یکدم رائیگاں چلی جائے، سو انہوں نے وزارتیں ختم کرنے کا فیصلہ واپس لے کر اپنی اتحادی جماعتوں کو رام کر لیا۔ ملک چونکہ معاشی بحران سے گزر رہا تھا، سو مس آرڈرن نے فیصلہ کیا کہ ہر قسم کے بجٹ میں کٹوتی کی جائے اور اس بچت سے حاصل ہونے والی رقم غریب طبقے پر خرچ کی جائے۔

ابھی اس فیصلے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ مس آرڈرن کو بتایا گیا کہ سول انتظامیہ اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے رکھے گئے بجٹ سے تو شاید کٹوتی ممکن ہے مگر باقی کسی جگہ سے بچت کی امید نہ رکھی جائے۔ کابینہ نے بھی یہ فیصلہ منظور نہیں کیا، اس سے جیسنڈا آرڈرن کی حکومت کو شدید دھچکہ پہنچا، یوں لگا کہ جیسے ان کی وزارت عظمیٰ ختم ہو جائے گی مگر پھر اتحادیوں نے کندھا دے کر انہیں بچا لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وجہ یہ تھی کہ عوام جیسنڈا آرڈرن کو چاہتے تھے اور اتحادی جماعتیں عوام میں اپنا تاثر خراب نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ جیسنڈا آرڈرن کی حکومت تو بچ گئی مگر ان کا دل کھٹا ہو گیا، جس جذبے کے تحت انہوں نے یہ حکومت قبول کی تھی وہ ماند پڑ گیا۔ انہیں نیوزی لینڈ یاد آنے لگا، وہاں بطور وزیراعظم وہ جو بھی فیصلہ کرتی تھیں اس پر من و عن عمل ہوتا تھا جبکہ یہاں انہوں نے عوامی امنگوں کے مطابق فیصلے کیے مگر ان پر عمل نہ ہو سکا۔

لیکن وہ اتنی جلد ہمت ہارنے والی نہیں تھی، اگلے چند ہفتوں میں انہوں نے مزید کچھ ایسے فیصلے کیے جو ان کی دانست میں معیشت کو درست سمت میں لے جانے کے لیے ضروری تھے۔

مثلاً انہوں نے ارب پتی کاروباری خاندانوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کر دی، جائیداد پر دولت ٹیکس نافذ کر دیا، دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر پابندی لگا دی، ملک کے تمام گالف کورسزاور سرکاری سرپرستی میں چلنے والے کلبوں کی لیز ختم کر کے ان سے مارکیٹ کے مطابق کرایہ وصول کرنے کے احکامات جاری کیے، بازاروں کو دن میں روشنی ختم ہونے کے بعد بند کرنے کا فیصلہ کیا، پر تعیش اشیا کی درآمد پر بھاری ڈیوٹی عائد کر دی، وغیرہ وغیرہ۔

اس کے علاوہ بھی جیسنڈا آرڈرن نے ایسے بہت سے فیصلے کیے جن کا مشورہ ماہرین معیشت نے دیا تھا اوریہ سب کچھ انہوں نے پوری نیک نیتی کے ساتھ کیا، مگر نہ جانے کیوں یہ فیصلے لوگوں کو پسند نہیں آئے، طاقتور طبقات تو پہلے ہی ان سے خار کھائے بیٹھے تھے، اب کاروباری طبقہ اور تاجر بھی خلاف ہو گئے۔ دو بچوں پر پابندی کے فیصلے نے عوام کی بڑی تعداد کو بھی ناراض کر دیا جو اسے خلاف مذہب سمجھتی تھی۔

نتیجتاً جیسنڈا آرڈرن کے خلاف ایک مہم شروع ہو گئی، لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ چونکہ یہ غیر مسلم ہیں، اس لیے مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کی سازش کر رہی ہیں۔ ان کے خلاف دائر کی گئی درخواست میں یکدم جان پڑ گئی، میڈیا میں ان کے خلاف پروگرام شروع ہو گئے، ایک ٹی وی چینل کے مالک نے، جو پراپرٹی ٹائیکون بھی تھا، مس آرڈرن کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانی شروع کر دی۔

یہ بدلتا ہوا منظردیکھ کر اتحادی جماعتوں نے بھانپ لیا کہ اب مس آرڈرن کے ساتھ رومانس ختم کرنے کا وقت آچکا ہے، انہوں نے جیسنڈا آرڈرن کی حمایت سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا۔

پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے، جیسنڈا آرڈرن نے پاکستان کی وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا اور نیوزی لینڈ واپس چلی گئیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ