جیسنڈا سے کیا سیکھا جا سکتا ہے؟ 

 انہوں نے کتنی سادگی سے یہ کہہ ڈالا کہ ان کے جانے کا وقت ہو گیا ہے اور اب ان میں توانائی نہیں رہی کہ وہ ذمہ داری نبھا سکیں۔ یہ سن کر مجھے یہ احساس ہوا کہ ایک ہمارے سیاست دان ہیں کہ ’تھکتے‘ ہی نہیں ہیں۔

25 جنوری 2019 کو لی گئی اس تصویر میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن برسلز میں یورپی کونسل میں نظر آ رہی ہیں (اے ایف پی)

نیوزی لینڈ کے بارے میں تو ہم میں سے بہت سے افراد جانتے ہیں لیکن اس مغربی ملک میں جیسنڈا آرڈرن سے پہلے کے وزرائےاعظم کون تھے، ان کے بارے میں شاید بہت سوں کو معلوم نہ ہو۔

جیسنڈا 37 برس کی عمر میں 2017 میں نیوزی لینڈ کی کم عمر وزیراعظم منتخب ہوئی تھی اور انہیں ترقی پسند سیاست اور اپنے بے باک و نڈر موقف کے سبب شہرت ملی۔ 

 جب 2019 میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں نماز جمعہ کے موقع پر دو مساجد پر حملوں میں 51 افراد مارے گئے تھے تو جیسنڈا اپنے ملک کی مسلمان کمیونٹی کے ساتھ کھڑی رہیں، جسے دنیا بھر میں سراہا گیا۔ 

 گذشتہ سال ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک خطاب میں جیسنڈا نے خودکش حملے میں جان سے جانے والی پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو زبردست خراج عقیدت بھی پیش کیا تھا۔ 

جیسنڈا کا بے نظیر سے متعلق بیان بھی پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے خاصا مقبول ہوا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ رواں ہفتے جب اچانک انہوں نے وزارت عظمیٰ کا منصب جلد چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اس خبر کو بھی پاکستانی میڈیا میں جگہ ملی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اس جنوب ایشیائی ملک میں کسی نہ کسی حد تک فالو کیا جاتا ہے۔ 

 جیسنڈا آرڈرن کو 2020 کے انتخابات میں دوسری مدت کے لیے بھاری اکثریت سے کامیابی ملی تھی لیکن حال ہی میں ان کی مقبولیت میں کمی آئی اور انہیں قدامت پسند حزب اختلاف کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 انہوں نے جمعرات کو نیوزی لینڈ کے سب سے اہم منصب سے الگ ہونے کے بارے میں اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے جذباتی انداز میں کہا کہ ’سیاست دان انسان ہوتے ہیں۔۔۔۔ اور میرے لیے (بطور وزیر اعظم) یہ جانے کا وقت ہے۔‘ 

 جیسنڈا کا کہنا تھا کہ اب ان میں یہ کام کرنے کی مزید توانائی نہیں بچی۔ 

انہوں نے کتنی سادگی سے یہ کہہ ڈالا کہ ان کے جانے کا وقت ہو گیا ہے اور اب ان میں توانائی نہیں رہی کہ وہ ذمہ داری نبھا سکیں۔ یہ سن کر مجھے یہ احساس ہوا کہ ایک ہمارے سیاست دان ہیں کہ ’تھکتے‘ ہی نہیں ہیں۔

ہمارے ملک میں تو سیاست سے ریٹائرمنٹ کا رواج ہی نہیں۔ اگر کوئی ایک مرتبہ منظر سے ہٹ جائے تو واپسی کے راستوں کی تلاش میں ہی ’توانائی‘ صرف کر دیتا ہے، جس سے یہی لگتا ہے کہ یہاں ملک نہیں شخصیات اہم ہیں۔ 

صرف یہی نہیں کہ پاکستان اور بعض دیگر ترقی پزیر ممالک میں طاقتور سیاسی خاندانوں کی توانائی اپنی آئندہ نسل کو اس میدان میں اتارنے پر خرچ ہوتی ہے، جس سے یوں لگتا ہے کہ وہ سیاست کرنے سے نہیں بلکہ نہ کرنے سے تھکتے ہیں۔ 

جیسنڈا کے فیصلے سے کچھ نہ کچھ تو سیکھا جا سکتا ہے، شاید اتنا تو ضرور کہ سیاست دان بھی انسان ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ