معاشی بحالی کا ’پلان بی‘؟

پاکستان نے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ’معاشی بحالی‘ کی جامع حکمت عملی جاری کی ہے۔ جسے ’اکنامک ریوائیول پلان‘ کا نام دیا گیا ہے اور اسے پاکستانی فوج کی سپورٹ حاصل ہو گی۔

22 جون 2023 کو لاہور میں ایک تعمیراتی منصوبے پر کام جاری ہے (اے ایف پی)

‎شاہنواز برطانوی نژاد پاکستانی ہیں۔ وہ برطانیہ میں ہوٹل انڈسٹری کا کاروبار کرتے ہیں اور کئی سالوں سے پاکستان میں اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، لیکن ملکی حالات کے پیش نظر وہ ارادہ ملتوی کرتے رہے ہیں۔

چند دن قبل انہوں نے خبر پڑھی کہ پاکستان نے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ’معاشی بحالی‘ کی جامع حکمت عملی جاری کی ہے، جسے ’اکنامک ریوائیول پلان‘ کا نام دیا گیا ہے اور اسے فوج کی سپورٹ حاصل ہو گی۔ اس کے علاوہ سپیشل انویسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) بھی قائم کی گئی ہے۔

آئی ایم ایف کے انکار کے بعد اسے معیشت بحالی کا ’پلان بی‘ بھی کہا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں دوست ممالک کی مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کروائے جانے کا ارادہ ہے، جن میں زراعت، لائیو سٹاک، معدنیات، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، توانائی اور زرعی پیداوار جیسے شعبے سرفہرست ہیں۔

‎مزید تحقیق کرنے کے بعد انہیں علم ہوا کہ حکومت اس منصوبے کے ذریعے اگلے پانچ سے سات سالوں میں تقریبا 120 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان لانے کا دعویٰ کر رہی ہے، جبکہ سی پیک کے تحت چین نے پاکستان میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا تھی۔ اس طرح تکنیکی اعتبار سے اسے سی پیک سے بڑا منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ خبر ان کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا تھی لیکن یہ خوشی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکی۔ جب انہوں نے پاکستان اور بیرون ملک کچھ کاروباری دوستوں، بزنس چمبرز اور کاروباری تنظیموں سے رابطہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ابھی تک حکومت پر عدم اعتماد برقرار ہے اور عوامی سطح پر اس منصوبے کو اس طرح پذیرائی ملتی دکھائی نہیں دے رہی جس طرح سی پیک کو ملی تھی۔

اب وہ اپنا سرمایہ پاکستان پھنسانا نہیں چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے جب تک مقامی بزنس کمیونٹی اور عوام کا اعتماد بحال نہیں ہو گا۔

بلال اسلم ایک معروف کاروباری شخصیت ہیں۔ وہ کئی دہائیوں سے درآمدات اور مینوفکچرنگ سے وابستہ ہیں اور پاکستان کے معاشی نظام پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’معاشی بحالی کے پلان بی کو سی پیک کی طرح پذیرائی نہ ملنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ سی پیک کا اعلان چینی صدر نے پاکستان میں آ کر کیا تھا۔ جبکہ اکنامک ریوائل پلان کا اعلان حکومت پاکستان نے خود ہی کر دیا ہے اور ابھی تک چین سمیت خلیجی ممالک نے سرکاری سطح پر اس منصوبے میں شامل ہونے کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔

’جہاں تک بات ہے پاکستانی سرکار کے دعوؤں اور وعدوں کی تو ان کے نتائج عوام کے سامنے ہیں۔ ڈالر کو 200 روپے سے نیچے لانے کا دعوی کیا گیا، آئی ایم ایف سے کامیاب معاہدہ کرنے کا اعلان کیا گیا، مہنگائی میں کمی لانے، برآمدات بڑھانے اور روزگار پیدا کرنے کے وعدے کیے گئے لیکن وہ پورے نہیں ہو سکے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت کا معاشی بحالی کا پلان بی سرمایہ کاری لانے کا نہیں بلکہ اثاثے بیچنے کا منصوبہ ہے اور ان حالات میں حکومت کے نئے معاشی منصوبے پر اعتماد کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ‘

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں کوئی منفی بات نہیں کرنا چاہتا لیکن حقیقت کا سامنا کرنا بھی ضروری ہے۔ ملکی آبادی کا 40 فیصد حصہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور کاروبار میں آسانی کے انڈیکس میں پاکستان دنیا کے نچلے ترین ممالک میں شامل ہے۔ ان حالات میں 112 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا دعوی کسی معجزے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

’جس طرح منصوبہ بتایا جا رہا ہے اس لحاظ سے تو 2035 تک پورے ملک میں ایک بھی شہری غریب نہیں رہے گا اور پاکستان کئی یورپی ممالک سے بھی بہتر معاشی طاقت بن جائے گا۔ منصوبہ سننے کی حد تک تو بہت خوبصورت اور شاندار ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو مکمل ہو بھی سکتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

‎کرنسی ایسکچیبج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ صاحب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت پر عوام کے عدم اعتماد کی صورت حال یہ ہے کہ بیرون ملک پاکستانی بینکوں کی بجائے گرے مارکیٹ میں ڈالرز بھیج رہے ہیں۔ انٹربینک اور گرے مارکیٹ میں فرق 20 روپے سے بڑھ گیا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ’معیشت بحالی کے نئے منصوبے کو فوج کی سپورٹ حاصل ہے لیکن عوام یہ سوچ رہی ہے کہ جب چیئرمین تحریک انصاف وزیراعظم تھے اس وقت جنرل باوجوہ کی سی پیک کو سپورٹ حاصل تھی۔ لیکن تحریک انصاف کی قیادت نے سی پیک منصوبہ تقریباً بند کر دیا تھا۔

’چین کا شدید احتجاج اور جنرل باجوہ کے چین کے دورے بھی کام نہیں آئے تھے۔ موجودہ حکومت آئینی طور پر دو ماہ سے بھی کم کی مہمان ہے۔ اس کے بعد نگران حکومت آئے گی اور پھر نئی حکومت بنے گی۔ وہ کس طرح معیشت بحالی کے نئے منصوبے کو لے کر چلتی ہے اس بارے میں کچھ بھی واضح نہیں ہے۔‘

سابق چئیرمین ایف بی آر شبر زیدی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت اور فوج مل کر کوشش تو کر رہے ہیں، اب یہ کامیاب ہو گا یا نہیں اس بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہے۔ لیکن اگر حکومت یہ کہے کہ یہ آئی ایم ایف کا متبادل ہے تو سراسر غلط بیانی ہے۔ چند ممالک سے سرمایہ کاری آجانے اور معاشی اصلاحات لانے میں فرق ہوتا ہے۔ جتنی جلدی حکومت اس حقیقت کو مان لے گی عوامی اعتماد بھی بحال ہونا شروع ہو جائے گا۔‘

پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن کے چیئرمین زہیب خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نئے منصوبے میں ’سنگل ونڈو‘ کا آپشن متعارف کروایا گیا ہے، جس کے تحت سرکاری محکموں میں بیوروکریٹک تاخیری حربوں سے جان چھڑائی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ آئیڈیا بہترین ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی بیوروکریسی کے تاخیری حربوں کا بہترین متبادل ہو سکتا ہے۔ 90 کی دہائی میں من موہن سنگھ نے بھارت میں بھی سنگل ونڈو پالیسی بنائی تھی۔ جس فیکٹری کی سرکاری منظوری میں چار ماہ لگتے تھے وہ صرف 24 گھنٹوں میں منظور ہونے لگی۔

’سرمایہ کاروں کے لیے شکایت ہیلپ لائن بنائی گئی جہاں 24 گھنٹوں میں مسئلہ حل کیا جاتا تھا۔ یہ سب ڈیجیٹل تھا۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کے تجربوں کے پیش نظر پاکستانی عوام شاید یہ ماننے کو تیار نہیں کہ پاکستانی بیوروکریسی میں بھی یہ انقلابی تبدیلی آ سکے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ