کیا واقعی عمران خان کے دور میں سی پیک سست ہوا؟

بظاہر عمران خان کے دور میں سی پیک سست روی کا شکار رہا، اس لیے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس حکمت عملی کے پیچھے عمران خان کا مقصد امریکہ کو خوش کرنا تھا جو سی پیک کے شدید خلاف ہے۔

اصل مسئلہ عمران خان کا نہیں بلکہ پاکستان کے انتظامی ڈھانچے کا ہے جو بیوروکریسی کے حوالے ہے (فائل فوٹو: عمران خان آفیشل فیس بک پیج)

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیوں اور کس لیے لائی گئی، اس پر بہت بحث ہوچکی۔ ہر ادارے، جماعت اور دانشور نے اس کے بارے میں اپنا اپنا تجزیہ پیش کیا ہے اور قیاس کے گھوڑے دوڑائے ہیں۔

ایک طرف عمران خان کو یقین ہے کہ امریکہ نے انہیں اقتدار سے نکلوایا۔ اس الزام کی سند میں وہ ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہیں جو اس وقت امریکہ میں پاکستانی سفیر اور انڈر سیکریٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو کے درمیان ہوئی، جس کی تفصیل پاکستانی سفیر نے لکھ کر پاکستان کی وزارت خارجہ کو ارسال کی۔

عمران خان کا موقف ہے کہ اس مراسلے میں ان کی امریکہ مخالف سوچ پر سخت تنقید کی گئی اور ان کی حکومت ختم کرنے پر زور دیا گیا۔ اس خط کا متن آج تک عوام سے شیئر نہیں کیا گیا، یوں اسے یک طرفہ الزام کے طور پر لیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔

دوسری جانب کچھ لوگ مصر ہیں کہ عمران خان کو فوج کی ایما پر نکالا گیا کیونکہ نہ صرف وہ جنرل باجوہ کو وقت سے پہلے ان کے عہدے سے ہٹانا چاہتے تھے، بلکہ ان کی جگہ اپنے من پسند جنرل فیض کو آرمی چیف بنانے پر مائل تھے۔

ایک نقطہ نظر یہ بھی تھا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے آج تک کسی وزیراعظم کو اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی اور اس روایت کے تحت عمران خان کو بھی گھر بھیج دیا گیا۔

ان چہ مگوئیوں میں ایک اور رائے بھی سامنے آئی، جس کے مطابق عمران خان کو کسی اور کے نہیں بلکہ چین کے کہنے پر حکومت سے نکالا گیا۔ بظاہر عمران خان کے دور میں سی پیک سست روی کا شکار رہا، اس لیے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس حکمت عملی کے پیچھے خان کا مقصد بلاواسطہ امریکہ کو خوش کرنا تھا جو سی پیک کے شدید خلاف ہے۔

ہمارا مقصد خان کی حکومت پر اٹھنے والے اس نئے الزام کا جائزہ لینا ہے، لیکن کیا عمران خان نے واقعی سی پیک کو نقصان پہنچانے کے منصوبے پر کام کیا؟ اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں، ہمارا مقصد خان کے دور حکومت میں سی پیک کی صورت حال کو جانچنا ہے تاکہ دیکھا جائے کہ اس منصوبے پر کس طرح جولائی 2018 سے اپریل 2022 تک کام کیا گیا۔

پاکستان نے چین کے ساتھ 2015 میں سی پیک معاہدے پر دستخط کیے۔ معاہدے کے تحت چین نے اب تک پاکستان میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ہدف طے کیا ہے جو 15 سال میں مکمل کیا جائے گا۔ اس سرمایہ کاری کا بڑا حصہ بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے عمل میں بہتری لانے پر خرچ کیا جانا ہے۔

نئی سڑکوں اور نئے ریلوے ٹریک کی تعمیر کے لیے بھی خاصی رقم مختص کی گئی۔ گوادر پورٹ کی تعمیر و ترقی کو سی پیک کا دل تسلیم کیا جاتا ہے، جس کے تحت چین مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی منڈیوں تک کم سفری اخراجات اور کم وقت میں تجارت کر سکے گا۔

گوادر پورٹ کی تعمیر کے بعد نہ صرف چین کی تجارت میں بیش بہا اضافہ ہو گا بلکہ اسے بحیرہ ہند، ملاکا اور سوئز کنال جیسے امریکی رسوخ والے سمندری راستوں سے بھی چھٹکارہ ملے گا۔ اس سفر میں پاکستان کی معاشی نمو بھی پوشیدہ ہے، جس کا اختیار صرف پاکستان کے پاس ہے۔ چین باقی ملکوں کی طرح کسی بھی معاشی یا تجارتی معاہدے میں اپنے مفادات کو مقدم رکھے گا۔ اسی طرح یہ پاکستان کے پالیسی ساز اداروں اور تنظیمی ڈھانچوں کی تعمیر پر مامور رہنماؤں کا کام ہے کہ وہ اس معاہدے سے پاکستان کو کس طرح زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں ایک لا مختتم بحث یہ بھی ہے کہ چین سی پیک کی آڑ میں قرضوں کے جال میں پھنسا کر پاکستان کو مالی اور اخلاقی طور پر اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ کا بھی یہی بیانیہ ہے۔ امریکہ کے مطابق چین کی سرمایہ کاری کے پیچھے ایشیا، افریقہ یا کسی بھی خطے میں ترقی سے زیادہ مقصد چین کی اجارہ داری قائم کرنا ہے۔ اسی لیے امریکہ کا ہمیشہ یہ تقاضا رہا کہ سی پیک کے حوالے سے منصوبوں کی تفصیلات عام کی جائیں۔

اسی طرح آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کو متنبہ کیا ہوا ہے کہ وہ اس سے لیا گیا قرضہ چینی قرضے اتارنے پر خرچ نہیں کرے گا۔ حیرانی کی بات ہے کہ ایک قرضہ جس سے پاکستان میں ترقی کے امکانات روشن ہوں وہ کفر کے زمرے میں گنا جائے لیکن جس قرضے سے (آئی ایم ایف) پاکستان کی رگوں میں زہر انڈیلے وہ مستحب اور قابل عمل ہے۔

گو چین مخالف لابی نے سی پیک کے معاہدے کو مکمل ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ صرف اس حد تک کامیاب ہو سکی کہ اسے متنازع بنا دے۔ اس لیے ضروری تھا کہ اس منصوبے کو سست روی کا شکار کر دیا جائے۔ پھر ایسا ہی ہوا، لیکن سوال ہمارا یہ ہے کہ کیا سست روی کی اس سازش میں خان کے دور میں تیزی آئی یا یہ گناہ بے لذت پچھلی حکومتوں میں بھی اسی طرح کیا جاتا رہا ہے؟

ہم جواب عمران خان کے آخری دورۂ چین سے ڈھونڈتے ہیں۔ وہ تین فروری 2022 کو چار دن کے دورے پر چین گئے۔ دورے سے قبل عمران خان نے چینی آئی پی پیز سرمایہ کاروں کی واجب الادا رقوم کا کچھ حصہ واپس کیا، جب کہ کچھ حصہ دوسرے سے واپس آ کر ادا کیا گیا۔ ساتھ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا جو 2020 میں بند ہوا تھا۔

دونوں ممالک نے باہمی تعلقات کو تجارتی، ثقافتی اور سیاسی طور پر مزید مستحکم کرنے کا وعدہ 33 نکاتی مشترکہ اعلامیے میں کیا۔

عمران خان نے اپنے دورے کے دوران سی پیک منصوبے میں سست روی کی شکایات سنی تو انہیں بتایا گیا کہ اس کے پیچھے کرونا کی وجہ سے باہمی روابط متاثر ہونے کی وجہ تھی، لیکن سچ تو یہ ہے کہ کرونا کے دوران چین سمیت تمام دنیا انٹرنیٹ کے ذریعے نہ صرف جڑی ہوئی تھی بلکہ تقریباً تمام اہم کام چل رہے تھے۔

خان نے چین کو بجلی کے پیداواری نرخ کم کرنے کا کہا تو وہ مان گیا۔ خان کے دور ہی میں بجلی کے نو منصوبوں اور ایک لاہور مٹرانی ہائی وولٹیج ٹرانسمیشن لائن لگائی گئی۔ یہ تمام منصوبے وقت پر ختم ہوئے یعنی عمران خان ہی کے دور میں۔

اصل مسئلہ عمران خان کا نہیں بلکہ پاکستان کے انتظامی ڈھانچے کا ہے جو بیوروکریسی کے حوالے ہے۔ چین متعدد بار پاکستان میں نہ ختم ہونے والے سیاسی بحران، طاقتور اداروں کے درمیان تصادم اور حکومت میں موجود سٹیک ہولڈروں کی پاکستان کی ترقی کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا شکوہ کر چکا ہے۔

عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد تو اس شکوے کو مزید تقویت ملی جس کا مظاہرہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم ’برکس‘ کے حالیہ سمٹ میں دیکھا گیا، جس میں پاکستان کو شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔ اس کے باوجود چین نے پاکستان کو 2.3 ارب ڈالر کا بلا سود قرضہ دیا ہے۔

چین کسی صورت بھی ایسے ملک کو اپنی چار دہائیوں پر محیط سخت محنت سے کمائی ہوئی دولت نہیں دے گا، جس کی اشرافیہ ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، جو قرضہ مانگنے کے لیے تو تگ و دو کر سکتی ہے لیکن ملک کی ترقی کے لیے اقدامات کرنا، بھاگ دوڑ کرنا اور قربانیاں دینے کو تیار نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ