گوادر میں سی پیک کا پہلا منصوبہ مکمل لیکن مقامی لوگ لاعلم

گوادر پورٹ پراجیکٹ سے منسلک پاکستان چائنہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ، سی پیک کا گوادر میں مکمل ہونے والا پہلا منصوبہ ہے جو فروری 2022 سے فعال ہوجائے گا۔

ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ منصوبے  پر 2.3 ارب روپے کی لاگت آئی ہے (تصویر سہیل اصغر)

گوادر میں حکام کے مطابق چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے پانچ منصوبوں میں سے پہلا منصوبہ مکمل ہوگیا ہے، تاہم مقامی افراد اس منصوبے سے لاعلم ہیں۔

گوادر پورٹ پراجیکٹ سے منسلک پاکستان چائنہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ، سی پیک کا گوادر میں مکمل ہونے والا پہلا منصوبہ ہے، جس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر سہیل اصغر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ انسٹی ٹیوٹ فروری 2022 سے فعال ہوجائے گا۔

پراجیکٹ پر آنے والے اخراجات کے حوالے سے انہوں نے کہا: ’یہ 2.3 ارب روپے کی لاگت کا منصوبہ ہے، جس میں سے 92 فیصد سرمایہ چینی جب کہ آٹھ فیصد پاکستانی حکومت کی جانب سے لگایا گیا ہے۔‘

سہیل اصغر نے مزید بتایا: ’اس ادارے کا کام وقت سے پہلے مکمل ہوگیا ہے۔ اسے بنانے کے لیے 24 ماہ کا شیڈول دیا گیا تھا، تاہم ہم نے اسے 21 ماه میں مکمل کرلیا۔ یہ منصوبہ یکم جنوری 2020 کو شروع ہوا تھا اور 20 ستمبر 2021 کو مکمل ہوگیا۔‘

پراجیکٹ ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ’یہ سی پیک کی طرف سے گوادر کے بچوں کے لیے ایک تحفہ ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس ادارے میں بچے ٹیکنیکل اور ووکیشنل کورسز میں تین سال کا ڈپلومہ کرسکیں گے۔ ان تین سالوں میں وہ ڈیڑھ سال پاکستان جب کہ ڈیڑھ سال چین کے شینڈونگ انسٹی ٹیوٹ میں گزاریں گے، جن کے ساتھ اشتراک ہے۔

بقول سہیل اصغر: ’ڈپلومہ کے بعد ان طلبہ کو چین کی انڈسٹری میں چھ ماہ کی پروفیشنل ٹریننگ بھی دی جائے گی اور ان کی ڈگری عالمی سطح پر مانی جائے گی۔ اس طرح ان کے لیے نہ صرف پاکستان اور چین بلکہ پوری دنیا میں ملازمت کے مواقع بنیں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’گوادر میں پہلے سے چند ٹیکنیکل اور ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ موجود ہیں، مگر سی پیک کے اس ادارے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں گوادر کے بچوں کے لیے کوئی فیس نہیں ہوگی۔ چین کے شینڈونگ انسٹیٹیوٹ میں آنے جانے، رہنے کا خرچہ اور ٹیوشن فیس بالکل مفت ہوگی، بلکہ اس کے ساتھ انہیں وہاں رہنے کے لیے بھی ماہانہ خرچ بھی دیا جائے گا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’آغاز میں یہاں چار مضامین آفر کیے جائیں گے۔ ان میں کراس بارڈر ای کامرس، ایئر کنڈیشننگ اور ریفریجریشن، فوڈ پریزرویشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ تین سال کے عرصے میں یہاں کے طلبہ کو چینی زبان بھی سکھائی جائے گی۔‘

 

ادارے میں کیا کیا سہولیات موجود ہیں؟

پاکستان چائنہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر سہیل اصغر کے مطابق اس ادارے میں کُل 24 کلاس رومز ہیں اور ہر کلاس میں 40 بچوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔

یہ عمارت گراؤنڈ پلس ون کی طرز پر بنی ہوئی ہے۔ اس کی پہلی منزل پر کمپیوٹر لیب موجود ہے۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر کے مطابق اس لیب میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نئی جنریشن پر کام ہوگا۔

انہوں نے بتایا: ’تدریسی عمل میں ٹیکنیکل اور ووکیشنل سہولیات فراہم کرنے کے لیے اس ادارے میں ایک ورک شاپ بھی موجود ہے، جہاں گاڑیوں اور کرینوں کے سٹیرنگ مکینیزم، موٹر وائنڈنگ، اے سی اور ڈی سی جنریٹر کی مشینیں، جدید ٹرانسفارمرز کے ورکنگ ماڈلز اور پورٹ الیکٹریکل اکوئپمنٹ کی ٹریننگ ڈیوائسز موجود ہیں۔ ہر ماڈل کی چار سے آٹھ مشینیں یہاں رکھی گئی ہیں۔‘

اس انسٹی ٹیوٹ میں دنیا کی مختلف بندرگاہوں پر موجود مختلف اقسام کی بین الاقوامی مشینوں کے سیمیولیٹرز بھی موجود ہیں۔ انٹرایکٹیو انٹیلی جنٹ وہیکل ڈرائیونگ ٹریننگ سمیولیٹر کہلائی جانے والی ان مشینوں میں بڑی سکرینیں نصب ہیں۔

سہیل اصغر کے مطابق ان مشینوں کے ذریعے طلبہ کسی بھی قسم کی گاڑی یا کرین چلانا سیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر فورک لفٹر، شپ ٹو شور کرین، آر ٹی جی کرین، کنٹینر ہینڈلنگ گینٹری اور این پی ٹی کنٹینر ہینڈلنگ گینٹری وغیرہ۔

سہیل اصغر کے مطابق: ’یہ سیمیولیٹرز بڑے قیمتی اور نادر سامان ہیں اور پاکستان میں اگر یہ کہیں پر موجود ہیں تو وہ گوادر میں پاکستان چائنہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ میں موجود ہیں۔‘

اس ادارے میں بلوچستان کے مختلف اضلاع اور پاکستان کے دیگر صوبوں سے آنے والے طلبہ کے لیے ہاسٹلز بھی بنائے گئے ہیں۔

سہیل اصغر کے مطابق لڑکوں اور لڑکیوں کے ہاسٹلز کی عمارتیں الگ الگ ونگ میں موجود ہیں، جہاں ہر ونگ میں 24 کمرے ہیں اور ہر کمرے میں آٹھ طلبہ کے رہنے کی جگہ موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی کے ساتھ طلبہ اور طالبات کی تفریح کے لیے ایک باسکٹ بال کورٹ بھی بنایا گیا ہے جو کہ کھلی فضا میں بنا ہوا ہے اور گوادر کی ساحلی پٹی یہاں سے دیکھی جاسکتی ہے۔

ساتھ ہی اس عمارت میں طلبہ کے لیے بین الاقوامی طرز کی کینٹین اور ایک عام استعمال کا روم بھی موجود ہے۔

کینٹین میں طلبہ کو کیمپس میں موجود عملے کی جانب سے بنا ہوا تازہ کھانا میسر ہوگا، جسے وہیں بیٹھ کر کھانے کے لیے کئی ٹیبلز اور کرسیاں لگائی گئی ہیں۔

اس کےعلاوہ عام استعمال کے کمرے میں لگائی گئی سیٹیں بھی کافی دلچسپ ہیں۔ یہ مختلف رنگ کی مضبوط پلاسٹک سے بنی سیٹیں چینی تعلیمی اداروں میں کافی مقبول ہیں۔

سہیل اصغر کے مطابق اس ملٹی پرپز ہال کو مختلف تقریبات، امتحانات اور مشغلوں کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

سی پیک کے کتنے منصوبے ہیں اور کتنے مکمل ہونا باقی ہیں؟

گوادر پورٹ اتھارٹی کے ملازم اور پاکستان چائنہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر سہیل اصغر کے مطابق گوادر میں سی پیک کے کُل پانچ منصوبے ہیں، جس میں سے اب تک صرف ایک منصوبہ مکمل ہوا ہے۔

اس کے علاوہ سی پیک کے چار اور منصوبے ہیں جن میں نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ، 50 بیڈز پر مشتمل گوادر پورٹ اتھارٹی ہسپتال، ایسٹ بے ایکسپریس وے اور 1.2 ملین گیلن فی دن پانی کی گنجائش کا ڈی سیلینیشن پلانٹ موجود ہیں۔ یہ تمام منصوبے ابھی تک زیر تعمیر ہیں۔

’زندگی میں کبھی اس انسٹی ٹیوٹ کا نہیں سنا‘

گوادر کی بندرگاہ کے نزدیک مقیم 70 سالہ رہائشی داد کریم جو کہ پیشے کے لحاظ سے مچھیرے ہیں، اس منصوبے کے حوالے سے لاعلم ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’میں نے زندگی میں کبھی اس انسٹی ٹیوٹ کے حوالے سے نہیں سنا، آپ نے سوال کیا تو آپ سے پہلی بار سن رہا ہوں۔ اگر یہ واقعی گوادر کے لوگوں کے لیے ہے تو ہم سے زیادہ خوشی کسی کو نہیں ہوگی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب گوادر کی رہائشی اور ’حق دو بلوچستان کو‘ تحریک کی سرگرم کارکن سمیرہ صدیق کا کہنا تھا: ’ہم حق دو بلوچستان تحریک میں گوادر کے مقامی افراد کے لیے بنیادی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہمیں تو اس منصوبے کے حوالے سے کوئی علم نہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’صرف 2017 یا 2018 میں اسی طرح کے ایک پروگرام کے تحت گوادر کے کچھ طلبہ کو ٹریننگ کے لیے چین لے جایا گیا تھا اور چین کی مدد سے ایک سکول بھی کھولا گیا تھا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ہی منصوبے کمزور ہوگئے۔‘

انہوں نے کہا کہ گوادر کا عام آدمی اور خاص طور سے مچھیرے غیر قانونی فشنگ اور ٹرالرز کے باعث اس قدر غربت میں مبتلا ہیں کہ سرکاری سکولوں میں داخلے اور سکول فیس کم ہونے کے باوجود ان کے لیے اپنے بچوں کے اخراجات اٹھانا مشکل ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’مگر اس طرح کے انسٹی ٹیوٹ کے قیام کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں کیوں اگر واقعی میں یہ گوادر کے عوام کے لیے ہے تو ہمیں اس سے بہت فائدہ پہنچے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان