کیا وزیر اعظم کے دورہ چین کا مقصد ’سی پیک پر خدشات دور کرنا‘ ہے؟

وزیر اعظم عمران خان سرمائی اولمپکس کی تقریبات میں شرکت کے آئندہ ہفتے بیجنگ جائیں گے لیکن سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ دورے کا مقصد بیجنگ کے سی پیک اور پاکستان میں چینی کارکنوں کے تحفظ سے متعلق خدشات دور کرنا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان چینی صدر شی جن پنگ کی دعوت پر دارالحکومت بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کی تقریبات میں شرکت کے لیے تین سے پانچ فروری کے دوران بیجنگ کا دورہ کریں گے۔   

تاہم عالمی امور کے مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کے دورے کا مقصد بیجنگ کے سی پیک اور پاکستان میں چینی کارکنوں کے تحفظ سے متعلق خدشات دور کرنا اور دونوں پڑوسی ممالک کے دیرینہ اوردوستانہ تعلقات کے تاثر کو قائم رکھنے کی کوشش ہے۔  

بین الاقوامی امور کے استاد اور محقق پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کے خیال میں وزیر اعظم عمران خان دورے کے دوران چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات میں انہیں اعتماد میں لینے کی کوشش ضرور کریں گے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس دورے کا دوسرا مقصد پاکستان کی طرف سے اسلام آباد اور بیجنگ کے دوستانہ روابط کا تاثر دینا ہے۔ 

 ان کا کہنا تھا کہ دوسرے ممالک کے چین میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کے بائیکاٹ کے بعد پاکستان کی عدم شرکت دونوں ملکوں کی دوستی کا اچھا تاثر نہ چھوڑتی۔ 

’ایک طرح سے جگ ہنسائی ہوتی کہ پاکستان قریبی اور دیرینہ تعلقات کے باوجود چین کی حمایت سے دور رہا۔‘ 

وزیر اعظم عمران خان نے ہفتے کی صبح اسلام آباد میں چینی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ خصوصی بات چیت میں کہا کہ وہ آئندہ ہفتے چین کے دورےکے منتظر ہیں۔ 

عمران خان نے مزید کہا: ’چین کے ساتھ ہمارے 70 سال پرانے قریبی دوستانہ تعلقات ہیں، جو وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط ہوئے جب کہ چین ضرورت کے وقت ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔‘ 

جمعے کو پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین سے دونوں ممالک کے درمیان سٹریٹجک تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ 

ان کا کہنا تھا: ’یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تمام موسمی سٹریٹجک تعاون پر مبنی شراکت داری کو تقویت دے گا اور نئے دور میں ایک مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایک قریبی چین پاکستان کمیونٹی کی تعمیر کے مقصد کو مزید آگے بڑھائے گا۔‘ 

واضح رہے کہ کئی یورپی، امریکی اور ایشیائی ممالک نے چار فروری سے چین میں شروع ہونے والے سرمائی اولمپکس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے، جس کی بینادی وجہ چین میں انسانی حقوق کی مبینہ پامالی ہے۔ 

تاہم روسی صدر ولاد میر پوتن بھی سرمائی اولمپکس کی تقریبات میں شرکت کے لیے بیجنگ جائیں گے۔ 

پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کے مطابق اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان کے دورے کے دوران چین کی جانب سے اٹھائے جانے والے متوقع سوالات پر غور ہوا۔ 

اس سلسلے میں انہوں نے بدھ کو وزیر اعظم عمران خان کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’لگتا ہے اس ملاقات میں چین کی جانب سے سی پیک اور اس کے ورکرز کی سکیورٹی سے متعلق سوالات سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمت عملی پر گفتگو ہوئی۔‘ 

یاد رہے کہ بدھ کو وزیر اعظم عمران خان فوجی قیادت سے علیحدہ ملاقات کے علاوہ وفاقی وزرا اور سی پیک کے متعلقہ حکام سے بھی ملے تھے جنھوں نے وزیر اعظم کو چین کے دورے سے متعلق بریفنگ دی تھی۔ 

تھینک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز آف اسلام آباد (آئی ایس آئی ایس) سے منسلک محقق دوست محمد کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کے دورے کا بنیادی مقصد بیجنگ کا اسلام آباد پر اعتماد بحال کرنا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران سی پیک کے منصوبوں پر کام تقریباً بند رہا، جس پر چینی قیادت ناراض ہے۔ 

اینکر پرسن اور تجزیہ کار ڈاکٹر معید پیرزادہ کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال داسو (کوہستان) میں دہشت گرد حملے میں چینی کارکنوں کی ہلاکتوں اور سی پیک کی سست روی کی وجہ سے چین اور پاکستان کے تعلقات سردمہری کا شکار رہے ہیں، اور وزیر اعظم عمران خان کے دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان پیش رفت دیکھنے کو ملے گی۔ 

’مغرب کا دہرا معیار‘ 

اسلام آباد میں چینی میڈیا سے گفتگو کے دوران سنکیانگ کے مسلمانوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ مغرب کے دہرے معیارات ہیں۔  

’مغرب میں سنکیانگ کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن وہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے متعلق بات نہیں کرتے، یہ ان کا دہرا معیار ہے۔‘  

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ مغرب میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کے بارے میں selective silence ہے، وہاں لوگ آٹھ لاکھ فوج کی موجودگی میں بدترین حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ 

آئی ایس ایس آئی کے ریسرچر دوست محمد کا اس سلسلے میں کہا تھا کہ بین الاقوامی سیاست میں چیزیں مفادات کے مطابق اسی طرح مخصوص انداز میں لی جاتی ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا: ’یہ کوئی نئی بات نہیں اور ایسا دنیا کا ہر ملک کرتا ہے، اس میں مغرب یا مغربی ممالک تنہا نہیں۔‘ 

انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی سیاست میں چیزیں بالکل واضح نہیں ہوا کرتی بلکہ انہیں جان بوجھ کر غیر واضح رکھا جاتا ہے تاکہ اپنے مفادات کے تحت استعمال کیا جا سکے۔ 

دوست محمد کے خیال میں عراق اور افغانستان کے علاوہ دوسرے کئی ملکوں میں انسانی حقوق کی پامالی ہوتی رہی ہے، لیکن مغرب اور حتی کہ کئی مسلمان ملک بھی اس پر خاموش رہے۔ 

’اور یہی صورت حال بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی ہے، جہاں ہونے والی ظلم و بربریت پر دنیا خاموش ہے، اور اس کی یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سیاست اور تعلقات میں اخلاقیات کی بجائے مفادات زیادہ اہم سمجھے جاتے ہیں۔‘ 

پوتن کی موجودگی 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اعظم عمران خان کی بیجنگ میں موجودگی کے دوران روسی صدر ولاد میر پیوتن بھی سرمائی اولمپکس کی تقریبات میں شرکت کے لیے چین میں ہوں گے اور دونوں رہنماؤں کی ملاقات بھی ممکن ہے۔ 

دوست محمد کے مطابق امریکہ کے ساتھ حالیہ تناؤ کی وجہ سے روس خطے میں اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہے گا اور اس سلسلے میں پاکستان ایک اہم ملک ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی وجہ سے بھی پاکستان کی اہمیت بنتی ہے اور چین اور روس کے افغانستان میں مفادات موجود ہیں، جن وہ ضرور تحفظ کرنے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ 

ڈاکٹر معید پیرزادہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی چینی اور روسی صدور سے ملاقاتوں کے پاکستان کے حق میں بہت بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان