سی پیک نشانے پر

بدقسمتی سے ہم نے سی پیک کی تعریف میں جس نابالغ پن کا اظہار کیا اس پر تنقید کا انداز بھی کچھ اس سے زیادہ مختلف نہیں۔ نجانے ہم تدبیر اور تدبر کب سیکھیں گے؟

لاہور میں ایک محافظ منی ایکسچینج دفتر کے باہر ڈیوٹی دے رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستان میں سی پیک پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ وہ طبقات اور حلقے جو عموماً ریاست اور حکومت کی پالیسیوں کی تشہیر کے لیے مشہور ہیں چین کے ساتھ اس اہم ترین باہمی تعاون اور فوائد سے بھرپور منصوبے کے بارے میں نئے نکتے نکالنے میں مصروف ہیں۔

بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں ان منصوبوں سے پیدا شدہ بجلی ہماری ضرورت سے بہت زیادہ ہے اور اس کی قیمت چکاتے چکاتے ہمارا کباڑہ ہو جائے گا۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چین کے ساتھ دوستی اگرچہ قابل احترام ہے لیکن اس کو کاروباری معاملات کے ساتھ الجھائے بغیر اپنے مفادات کو بھی جاننے کی ضرورت ہے۔

میں نے ہمیشہ صحافت کے اس بنیادی اصول کو معتبر سمجھا ہے کہ بحث کو اعدادو شمار اور منطقی آرا کی بنیاد پر کرتے ہوئے ہم ابہام اور وہم کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور کسی بھی معاملے چاہے وہ کتنا ہی حساس کیوں نہ ہو کو حل کرنے کا راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔ لہذا سی پیک کے بارے میں اس طرح کے نکات اٹھائے جانے پر سیخ پا ہونے کی بجائے بالغانہ طرز عمل اپناتے ہوئے ردعمل دینے چاہییں۔

ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اس منصوبے پر اگر اس وقت اس طرح کی توجہ دی جا رہی ہے جو عمومی قومی بیانیے سے مختلف ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں۔

اس زاویے سے اگر دیکھیں تو سی پیک کے بارے میں دوسرا نکتہ نظر ہمیں اس وجہ سے عجیب محسوس ہوتا ہے کیوں کہ ہم نے اس منصوبے کو حقیقت پسندانہ انداز سے زیر غور اور زیر بحث لانے سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔

میں اس منصوبے کے حق میں ہوں لیکن اس سے متعلق معلومات ایک خفیہ اور حساس ترین قومی راز کے طور پر فائل میں بند رکھیں گئیں۔

مسلم لیگ ن کی حکومت میں بین الاقوامی اور مغربی اداروں کی طرف سے سی پیک کے بارے میں جاننے کے لیے جب بھی کوئی کاوش ہوئی تو آگے سے ٹکا سا جواب ملا۔

یہ حالات اس وقت تک قائم رہے جب تک اسد عمر کی آئی ایم ایف کے نمائندگان کے ساتھ بات چیت کا آغاز نہیں ہوا۔ بین الاقوامی اداروں کی سی پیک سے متعلق معلومات تک پہنچ پچھلے تین سال میں ہی ممکن ہو پائی۔

پاکستانی عوام جن کی فلاح کے لیے بظاہر یہ سب کام کیے جا رہے ہیں بہرحال ابھی بھی ان منصوبوں اور ان سے پیدا ہونے والے فوائد اور چیلینجز سے نا آشنا ہیں۔

صحافیوں کے پاس ٹوٹی پھوٹی معلومات ہیں مگر بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ پاکستان کے لیے ان منصوبوں کے منافع اور نقصانات کے کھاتے کیا ہیں۔

ہم یہ جانتے ہیں کہ جہاں پر معلومات کا فقدان ہوتا ہے شبہات وہیں پر پیدا ہوتے ہیں۔ اگر بروقت معلوماتی آگاہی کا بندوبست کیا جاتا تو آج سی پیک کی بحث اس انداز سے نہ ہو رہی ہوتی جیسے ہو رہی ہے۔

دوسرا مسئلہ حکومتوں اور ریاست کے اداروں کی مبالغہ آرائی سے جڑا ہوا ہے۔ جب اور جہاں ضرورت محسوس ہوتی ہے ڈھول بجانے شروع کر دیتے ہیں۔ 

ایسے صوتی اثرات پیدا کرتے ہیں کہ عقل اور دانش مندی کی کوئی متبادل بات سوچی، سمجھی یا کہی نہیں جا سکتی۔ سی پیک کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

ایک طرف معلومات نہیں دیں دوسری طرف تعریف کا قومی میوزیکل کنسرٹ شروع کر دیا۔ آپ اس منصوبے کے بارے میں سوال اٹھانے کے لیے منہ کھولتے ہی ہیں کہ تعریف کا ایک ریلا آپ کو آن لیتا ہے۔

پاکستان کی قسمت کو بدلنے والا، ملک کو جنت بے نظیر بنانے والا، ہمارے تمام خوابوں کی تکمیل کرنے والا۔ سی پیک ایک ایسے بت میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس کو سورج کے طلوع سے غروب تک تعریفوں کے ہارپہنانا قومی فریضہ بنا دیا گیا ہے۔

جب ایسا ماحول پیدا کر دیا جائے تو پھر عام سی بات بھی کانوں کو جھنجنا دیتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ چھوٹا یا بڑا کاروبار، قومی یا بین الاقوامی منصوبے یا کچھ بھی ایسا جس میں پیسے اور مفادات مرکزی حیثیت رکھتے ہوں، اچھے اور برے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتے۔

سی پیک آسمان سے اترا من و سلوی نہیں کہ جس میں ہر چیز ذائقے اور تسکین کے لیے تیار کی گئی ہو۔

چین نے یہ منصوبہ ہمارے فائدے کے لیے نہیں اپنے فائدے کے لیے لگائے ہیں۔ ہم نے یہ منصوبہ چین کے فائدے کے لیے نہیں اپنے فائدے کے لیے اپنایا ہے۔

جہاں پر مفادات مختلف ہوں مگر ان میں باہمی تعاون کی گنجائش ہو وہاں پر متوازن تصویر بنانے کی ضرورت ناگزیر ہو جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مگر ہم نے یک طرفہ تصویر بنائی اور اب جب اس تصویر کی وجہ سے ہمیں اپنے دوسرے خارجی اور دفاعی امور کو درست کرنے میں دقت پیش آ رہی ہے تو ہم بالواسطہ انداز سے سی پیک پر بحث کا آغاز کرنے کی بھونڈی کوشش کر رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سی پیک کو متنازع نہ بنایا جائے۔ اس کے فوائد نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی اشد ضروری ہے کہ اس کو کسی ایسی مقدس گائے میں تبدیل نہ کر دیا جائے جس پر بحث کرنا گناہ کبیرہ تصور ہو۔

ہمارے لیے پاکستان کے مفادات اولین ہیں۔ اگر چین کے ساتھ اس معاہدے کے ذریعے ہم اپنی فلاح حاصل کر سکتے ہیں تو اس کو مقدم رکھتے ہوئے ایک ایسے اتفاق رائے کو پروان چڑھانا چاہیے جس میں تمام آرا سمیت تعریف و تنقید کے شامل ہوں۔

اگر کہیں پر ہمیں اس منصوبے کی وجہ سے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے تو وہ بھی ہماری نظر سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے۔

بدقسمتی سے ہم نے سی پیک کی تعریف میں جس نابالغ پن کا اظہار کیا اس پر تنقید کا انداز بھی کچھ اس سے زیادہ مختلف نہیں۔ نجانے ہم تدبیر اور تدبر کب سیکھیں گے؟

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ