’سی پیک میں تاخیر کا خمیازہ پاکستان کو بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے‘

پاکستان شاید اگلے 50 سال تک اتنے فنڈز حاصل نہ کر پاتا جو چین نے صرف ایک منصوبے کے لیے دے دیے ہیں۔ اگر اب بھی ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھا پائے تو یقیناً یہ پاکستان کی بدقسمتی ہو گی۔

کراچی الیکٹرک کا ایک ٹیکنیشن بجلی کے کھمبے پر (اے ایف پی فائل)

ارشد جنرل پوسٹ آفس میں ملازم ہیں۔ ان کے دو بیٹے ہیں۔ ایک مکینیکل انجینیئر اور دوسرا سول انجینیئر ہے۔

مکینیکل انجینیئر 40 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر نجی ادارے میں نوکری کرتا ہے اور سول انجینیئر 35 ہزار روپے پر ایک دفتر میں ملازم ہے۔

لاکھوں روپے کالج اور یونیورسٹی فیسوں میں ادا کرنے کے بعد دونوں کی آمدن سے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ ارشد کے بھائی نے انہیں مشورہ دیا کہ گھر بیچ کر بچوں کو کسی مغربی ملک میں بھیج دو۔ ڈالروں میں کمائیں گے، خود بھی خوش رہیں گے اور تمہیں بھی کما کر پیسے بھیجیں گے۔ لیکن ارشد اس بات پر متفق نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں معاشی ترقی کے مراکز بدل رہے ہیں، طاقت مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہی ہے، جس کی سب سے بڑی دلیل چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ ہے۔ اس نے چین کے بڑے میڈیا ہاؤس ’گلوبل ٹائمز‘ میں پڑھا کہ یہ واحد منصوبہ ہے جو دنیا کے 60 سے زیادہ ممالک کو تجارت کے لیے ایک نیا راستہ فراہم کر رہا ہے، جس کے تحت بحیرہ بالٹک اور بحر اوقیانوس کو سڑکوں، ریلوے لائنوں اور سمندری راستوں کے ذریعے ایک دوسرے سے ملایا جائے گا۔ آزادانہ تجارت کے مواقع ملیں گے۔ اس کی لاگت تقریباً 21.1 ٹریلین ڈالرز (21 کھرب 10 ارب ڈالرز) ہو گی اور ایک اندازے کے مطابق یہ منصوبہ دنیا کی 80 فیصد آبادی کو مستفید کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

چین نے اسے دو حصوں میں منقسم کر رکھا ہے۔ ایک ’سلک روڈ اکنامک بیلٹ‘ ہے اور دوسرے کا نام ’میری ٹائم سلک روڈ‘ رکھا گیا ہے۔ اِس منصوبے میں چھ راہداریاں شامل ہیں۔ پہلی راہداری کا نام ’چائنا منگولیا رشیا اکنامک کوریڈور‘ ہے۔ دوسرے کو ’نیو یوریشین لینڈ برج‘ کہتے ہیں۔ تیسرے کو ’چائنا سینٹرل اینڈ ویسٹ ایشیا اکنامک کوریڈور‘ کا نام دیا گیا ہے۔ چوتھا ’چائنا، پیننسولا اکنامک کوریڈور‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، پانچواں ’چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور‘ ہے اور چھٹے کو ’بنگلہ دیش چائنا انڈیا، میانمار اکنامک کوریڈور‘ کا نام دیا گیا ہے۔

لیکن چین کے لیے اس منصوبے کی سب سے اہم راہداری چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) ہے جس کے ذریعے چین کی گوادر بندرگاہ تک رسائی آسان ہو سکے گی اور پوری دنیا میں کم وقت اور کم خرچ کے ساتھ تجارت ممکن ہو سکے گی۔

ارشد نے ماہر معیشت ظفر پراچہ کو ایک انٹرویو میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ سی پیک کا دفاعی اور معاشی محل وقوع اہمیت کا حامل ہے۔ یہ زمین سے گھرے ملکوں کو سمندروں تک رسائی دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں سڑکوں کے علاوہ سولر اور ہائیڈرو پاور پلانٹس بھی شامل ہیں۔ اگلے دس سالوں میں جتنی سرمایہ کاری پاکستان میں ہو گی اس کی پچھلے 40 سالوں میں کوئی مثال نہیں ملے گی۔

ارشد کو سی پیک مکمل ہونے کا انتظار ہے، لیکن آج اخبار میں سی پیک سے متعلق خبریں پڑھ کر وہ مایوس ہو گئے ہیں۔ انہوں نے پڑھا کہ حکومت پاکستان کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے سی پیک کے تحت بننے والے 3584 میگا واٹ کے پانچ منصوبے تاخیر کا شکار ہو گئے ہیں۔

884 میگاواٹ کا سکی کناری ہائیڈرو پاور، 720 میگاواٹ کا کیروٹ ہائیڈرو پاور، تھر بلاک 2 کا 330 میگاواٹ، تھل نووا تھر بلاک 2 کا 330 میگاواٹ اور 1320 میگاواٹ کا تھر بلاک 1 منصوبہ شامل ہے۔ سکی کناری تقریباً دس ماہ، کیروٹ چار ماہ، تھل نووا تھر 15 ماہ اور تھر بلاک 1 منصوبہ تقریباً ایک سال تاخیر کا شکار ہیں، جس کا بھاری نقصان پاکستانی معیشت اور چینی سرمایہ کاروں کو ہو رہا ہے۔ چینی سرمایہ کاروں نے ان منصوبوں کے لیے بینکوں سے قرض لے رکھے ہیں۔ ایک دن بھی تاخیر ہو جائے تو لاکھوں ڈالر کا نقصان ہو جاتا ہے۔ منصوبوں پر کام ہو یا نہ ہو سود کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے، اس لیے طے کیے گئے وقت میں انہیں مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔

جہاں ایک دن کا نقصان نا قابل برداشت ہوتا ہے وہاں بیورو کریسی اور سیاست دانوں کی نااہلی کی وجہ سے 15 ماہ کی تاخیر ہو چکی ہے جس پر چینی حکام کئی مرتبہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروا چکے ہیں، لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

جب بات آخری وارننگ تک پہنچی تو اسد عمر صاحب نے دو اگست کو پاک چائنا ریلیشنز سٹیئرنگ کمیٹی کی دوسری میٹنگ میں پاور ڈویژن کو حکم دیا کہ پانچوں منصوبوں کو مکمل کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایک ماہ میں پالیسی بنا کر دی جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ارشد سوچنے لگے کہ اس طرح کے احکامات تو پہلے بھی دیے جاتے رہے ہیں۔ کئی ڈیڈ لائنز دی گئیں لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی، اس ایک ماہ میں ایسی کیا تبدیلی آئے گی کہ 15 ماہ کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ انہوں نے محسوس کیا کہ گونگلوں پر سے مٹی جھاڑی جا رہی ہے اور حکومت شاید سی پیک مکمل کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ جن سرکاری افسران کی وجہ سے کروڑوں روپوں کا نقصان ہو رہا ہے ان کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اس سوچ کو تقویت ملے گی کہ بیوروکریسی حکومت کی ایما پر سی پیک منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔

ارشد کو فکر لاحق ہوئی کہ کیا چینی سرمایہ کار اس تاخیر کا بوجھ خود برداشت کریں گے یا پاکستان کو منتقل کریں گے؟

الجھن دور کرنے کے لیے انہوں نے وزارت خزانہ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست سے اس بارے میں استفسار کیا تو اس نے بتایا کہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ صرف چینی سرمایہ کاروں کو نقصان پہنچ رہا ہے، پاکستان نے تو کوئی سرمایہ لگایا ہی نہیں۔ یہ بات عوام کو دھوکا دینے کے مترادف ہے کیوں کہ اس تاخیر کا خمیازہ پاکستان کو بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ سی پیک قرضوں پر شروع کیا گیا منصوبہ ہے جس کی ادائیگی بہرحال پاکستان کو ہی کرنا ہو گی۔

معیشت سے واقف دوست نے مزید کہا کہ چینی حکمران اپنی عوام کے پیسے کا خیال رکھتے ہیں اور پاکستان کی غلطی کی سزا اپنے سرمایہ کاروں کو نہیں دے سکتے۔ آنے والے دنوں میں سی پیک کی مد میں پاکستان کے واجب الادا قرضوں میں اضافہ ممکن ہے۔

اس نے بتایا کہ چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ 26 جولائی کو شاہ محمود قریشی کے چین کے دورے کے بعد سرکاری بیانیے میں بھی سی پیک منصوبوں کی جلد تکمیل پر بات کی گئی تھی اس کے علاوہ دو جولائی کی پریس کانفرنس میں شاہ محمود قریشی نے فرمایا تھا کہ پاکستان چین کو سی پیک منصوبوں کی جلد تکمیل کی یقین دہانی کرواتا ہے۔

اسد عمر کے سی پیک معاملے پر بیورو کریسی سے متعلق دیے گئے بیان اور وزیراعظم سے شکایات کرنے کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ اہم وزارتوں سے یکے بعد دیگرے وضاحتیں اور بیانات آنا چین حکام کی  ناراضی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ارشد سوچنے لگے کہ ایک طرف بین الاقوامی طاقتیں ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا اس کا متبادل نظام لانے کا اعلان کر رہے ہیں تا کہ چین کی طاقت کو کم کیا جا سکے۔ پاکستان شاید اگلے 50 سال تک اتنے فنڈز حاصل نہ کر پاتا جو چین نے صرف ایک منصوبے کے لیے دے دیے ہیں۔ اگر اب بھی ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھا پائے تو یقیناً یہ پاکستان کی بدقسمتی ہو گی۔

انہیں یہ فکر لاحق ہے کہ اگر پاکستانی حکومت نے سی پیک کو اسی طرح غیر سنجیدگی سے لیا تو ان کے بچوں کے مستقبل کا کیا ہو گا۔ وہ کس طرح روزگار کمائیں گے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی میں دو وقت کی روٹی کیسے پوری کریں گے۔ حکومت شاید چاہتی ہے کہ پڑھا لکھا طبقہ ملک سے باہر جا کر آباد ہو جائے۔ وزیراعظم صاحب فرماتے تھے کہ ہماری حکومت میں لوگ باہر کے ملکوں سے روزگار ڈھونڈنے پاکستان آئیں گے لیکن آج حساب الٹا دکھائی دے رہا ہے۔ آنے والے دن سکون اور اطمینان کی بجائے زیادہ مشکلات لا سکتے ہیں۔

ارشد کو اپنے بھائی کی بات درست محسوس ہونے لگی ہے اور اس بات پر قائل ہوتے دکھائی دیتے ہیں کہ بچوں کو مغربی ممالک میں بھیج دیا جائے۔ پاکستان میں شاید ان کا مستقبل محفوظ نہیں ہے۔ ارشد کہتے ہیں کہ حکومت کے سی پیک منصوبوں کی تکمیل کے حوالے سے دعووں پر اعتماد نہیں رہا۔ ’میں اس وقت ان دعووں کو درست مانوں گا جب میرے بچوں کو اچھی نوکریاں ملیں گی اور وہ قرض اٹھائے بغیر گھر کے اخراجات پورے کر سکیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت