پاکستان سے جنگ ہارنے کے بعد انڈیا کو نہ صرف دفاعی میدان میں بھاری نقصان ہوا بلکہ معیشت میں بھی دھچکے لگنے کا سلسلہ رکتا دکھائی نہیں دے رہا۔
جنگ میں تقریباً 100 ارب ڈالرز کا نقصان اٹھانے کے بعد امریکہ سے 50 فیصد ٹیرف، چاہ بہار بندرگاہ پر کام کرنے پر پابندی اور اب ایچ ون بی ویزہ کی فیس 1500 ڈالر سے بڑھا کر ایک لاکھ ڈالرز کرنے سے انڈیا کو بڑا معاشی نقصان ہو رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان انڈیا کے خراب ہوتے معاشی حالات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ ایسوی ایشن کے سابق چیئرمین ذوہیب خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا پاکستان کی موجودہ کامیابی حالیہ پاکستان انڈیا جنگ کا پھل ہے۔
’پاکستان سے جنگ ہارنے کے بعد انڈیا کا نہ صرف مورال گر گیا ہے بلکہ پوری دنیا میں معاشی دھچکے لگ رہے ہیں جس کا فائدہ پاکستان کو ہو سکتا ہے۔
’انڈیا کی آئی ٹی برآمدات تقریباً 205 ارب ڈالر ہیں جس میں تقریباً 112 ارب ڈالر صرف امریکہ سے منسلک ہے، جو کل آئی ٹی ایکسپورٹ کا تقریباً 55 فیصد بنتا ہے۔
’اس کے برعکس پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹس تقریباً ساڑھے ارب ڈالرز ہیں، جس میں سے تقریباً دو ارب ڈالرز امریکہ سے جڑی ہیں۔ یہ تقریباً 57 فیصد بنتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ملکی آئی ٹی ایکسپورٹ کی شرح کے حساب سے دیکھا جائے تو پاکستان کا حصہ انڈیا سے دو فیصد زیادہ ہے لیکن قدر میں انڈیا کا حصہ 5800 گنا زیادہ ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ایچ ون بی ویزہ کی سہولت تھی۔‘
ذوہیب خان نے کہا کہ ویزہ فیس بڑھانے کا سب سے زیادہ نقصان انڈیا کو ہو گا۔ ’یہ فیس تو پوری دنیا کے لیے ہے، لیکن تقریباً 72فیصد ایچ ون بی ویزے انڈیا کو جاری ہوتے تھے۔
’تقریباً 1400 پاکستانی اس ویزہ پر امریکہ جاتے ہیں۔ پاکستان کو تو پہلے ہی یہ ویزے نہیں مل رہے تھے۔
’انڈیا کے لیے نئے ویزوں کے حصول میں مشکلات پاکستان میں آئی ٹی ایکسپورٹ بزنس بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’زیادہ امکانات ہیں کہ اب امریکی کمپنیاں نئے ویزے جاری کرنے کی بجائے منصوبے آوٹ سورس کر دیں۔ پاکستان میں آئی ٹی ماہرین کا ریٹ انڈیا کی نسبت کم ہے اور مہارت انڈیا سے بہت بہتر ہے۔
’10 مئی کی جنگ نے پاکستان کی سائبر ٹیکنالوجی میں مہارت کو دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وزیراعظم اور فیلڈ مارشل امریکہ کے دورے پر ہیں۔ یہ دورہ ہر تین ماہ بعد ہونا چاہیے جس میں آئی ٹی کی بڑی کمپنیوں کے سی ای اوز کو ساتھ لے جایا جائے۔
’بی ٹو بی میٹنگز ہونی چاہیں۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب گئے تھے تو مارک زگر برگ اور ایلون مسک سمیت تمام ٹیک کمپنیوں کے سی ای اوز ہمراہ تھے۔ یہ کاروبار لینے کا ایس او پی ہے۔ ‘
ذوہیب خان کے مطابق وزیر اعظم پاکستان کو موجودہ ماحول سے صحیح فائدہ اٹھانے کے لیے کاروباری برادری کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ اس حکمت عملی سے تقریباً دو سالوں میں پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹ 10 ارب ڈالرز تک بڑھ سکتی ہے۔‘
پاکستان - ایران بزنس کونسل کے چیئرمین اسفند یار خان مندوخیل نے انڈیا پر چاہ بہار بندرگاہ کے حوالے سے پابندی کو پاکستان کے لیے سنہری موقع قرار دیتے ہوئے کہا ’چاہ بہار بندرگاہ انڈیا کے لیے سینٹرل ایشیا، روس اور افغانستان جانے کا واحد بہتر راستہ ہے۔
’پابندی کے بعد انڈیا کی تجارت ان ممالک سے محدود ہو جائے گی اور پاکستان اس کمی کو پورا کر سکتا ہے۔
’اس کے بعد پاکستانی گوادر بندرگاہ کی اہمیت بڑھ جائے گی کیونکہ سینٹرل ایشیا تک سارا سال تجارت کا یہی واحد راستہ ہے۔
’ایک اندازے کے مطابق انڈیا کو سینٹرل ایشیا سے فوری طور پر تقریباً 250 ملین ڈالرز اور افغانستان سے تقریباً ایک ارب ڈالرز کا نقصان ہو سکتا ہے۔‘
اسفندیار خان کے مطابق اگر یہ پابندی زیادہ عرصے تک برقرار رہی تو نقصان اربوں ڈالرز تک جا سکتا ہے کیونکہ انڈیا اب تک چاہ بہار پر تقریباً 490 ملین ڈالر خرچ کر چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’انڈیا چاہ بہار کو نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور سے منسلک کرنے کا منصوبہ بنا چکا تھا تاکہ سینٹرل ایشین ممالک کی مارکیٹ پر کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ان حالات میں پاکستان کے افغانستان سے تجارتی تعلقات بہتر ہو جائیں تو انڈیا کی تجارت بند ہونے سے پاکستان کی ٹریڈ تقریباً ایک ارب ڈالرز تک مزید بڑھ سکتی ہے۔
’ابھی تجارتی حجم تقریباً چار ارب ڈالر ہے۔ اسی طرح سینٹرل ایشیائی ممالک سے 200 ملین ڈالرز تک تجارت فوری بڑھائی جا سکتی ہے۔‘
پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفکچررز ایسوسی ایشن کے صدر میاں خالد مصباح رحمان نے بتایا کہ امریکہ نے آج برانڈڈ ادویات پر 100 فیصد ٹیکس لگا دیا ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان انڈیا کو ہو گا۔
’انڈیا سالانہ تقریباً 30 ارب ڈالرز کی ادویات برآمد کرتا ہے جس میں سے تقریباً 27 فیصد یعنی آٹھ ارب ڈالرز کی ادویات صرف امریکہ برآمد کی جاتی ہیں۔
’پاکستان تقریباً 341 ملین ڈالرز کی ادویات برآمد کرتا ہے، جس میں سے تقریباً نو لاکھ ڈالرز کی ادویات امریکہ بھیجی جاتی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا نقصان صرف 0.2 فیصد ہو گا جبکہ انڈیا تقریباً 20 فیصد برآمد گنوا سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ فرق ختم کرنا انڈیا کی نسبتا آسان ہے۔‘
آل پاکستان ٹیکسٹال ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کامران ارشد کے مطابق ’پاکستان امریکہ کو چھ ارب ڈالرز کی ٹیکسٹایل برآمد کرتا ہے جبکہ انڈیا تقریباً 12 ارب ڈالرز کی ٹیکسٹائل امریکہ کو برآمد کرتا ہے۔
’لیکن پاکستان کُل ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کا 33 فیصد امریکہ بھیجتا ہے اور انڈیا 22 فیصد۔ انڈیا پر ٹیکسٹائل پر 50 فیصد ٹیرف ہے۔
’پاکستان اگر بروقت اقدامات کرے تو جس طرح کرونا میں انڈیا کا شئیر پاکستان نے لے لیا تھا ابھی بھی بڑا شئیر لیا جا سکتا ہے۔‘