عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں غربت کی شرح 25 فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ جس عرصے کا اس رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے اس دوران غربت میں واقعی اضافہ ہوا تھا جس کی بڑی وجوہات میں کرونا وائرس، سیلاب اور معاشی دباؤ شامل ہیں۔
مشیر خزانہ نے کہا ہے کہ ’عالمی بینک نے اس بات کی توثیق کی ہے کہ پاکستان میں پالیسی سازی کے لیے بین الاقوامی معیار نہیں بلکہ قومی سطح پر غربت ہی اصل پیمانہ ہے۔‘
گذشتہ روز عالمی بینک نے ’خوشحالی کی جانب دوبارہ پیش رفت: پاکستان میں غربت، مساوات، اور بحالی کا جائزہ‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں مالی سال 2023–24 میں غربت کی شرح 25.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ سال 2021-22 میں یہ شرح تقریبا 18.3 فیصد تھی۔
اس طرح پاکستان میں گذشتہ تین برس میں غربت میں سات فیصد اضافہ ہوا ہے اور ایک کروڑ 30 لاکھ نئے افراد غربت کی سطح سے نیچے چلے گئے ہیں۔
جہاں ایک جانب پاکستان کی 44 فیصد آبادی غربت سے متاثر ہے وہیں دوسری جانب 15 سے 24 سال کے نوجوان افراد میں سے 37 فیصد روزگار یا تعلیمی مواقع سے محروم ہیں۔
عالمی بینک کی 198 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ اضافہ ’نہ صرف کرونا وائرس، مہنگائی اور سیلاب جیسے متعدد اقتصادی اور قدرتی چیزوں کی وجہ سے ہوا بلکہ اس کی ایک بڑی وجہ معاشی ترقی کا وہ ماڈل ہے جو اب غیر موثر ہو چکا ہے۔‘
میسر اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 20 سالوں میں غربت میں واضح کمی دیکھنے کو ملی تھی لیکن سال 2020 کے بعد یہ رجحان رک گیا اور حالیہ عرصہ میں اس میں دوبارہ اضافہ آتا نظر آ رہا ہے۔
عالمی بینک نے اس ضمن میں تجویز دی ہے کہ حکومت کو فوری طور پر سٹرکچرل ریفارمز کرنے ہوں گے اور ساتھ روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنا اور سماجی تحفظ کے نظام کو مزید بہتر بنانا ہوگا تاکہ غربت کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جا سکے۔
معاشی امور کے ماہر ساجد امین نے اس معاملہ پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ہے کہ کوئی بھی شخص جو معیشت کو سمجھتا ہے اس کے لیے یہ نتائج حیران کن نہیں ہو سکتے۔
سسٹینیبل ڈولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ میں بطور ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کام کرنے والے ساجد امین کہتے ہیں چونکہ رپورٹ کا تجزیاتی دورانیہ سال 2020 سے 2024 تک کا ہے اور ان چار سالوں میں تین بڑے عوامل ایسے تھے جنہوں نے پاکستان میں غربت میں نمایاں اضافہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساجد امین کے مطابق پہلا بڑا مسئلہ کمزور معاشی نمو (سست گروتھ) تھا۔
’جب گروتھ سست ہوتی ہے تو روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوتے، لوگوں کی آمدن میں کمی آتی ہے اور بے روزگاری بڑھتی ہے۔‘
دوسرا عنصر انہوں نے شدید مہنگائی کو قرار دیا۔
’ہم نے دیکھا کہ 2020 سے 2023 تک ہمیں بجلی کی قیمتیں بڑھانا پڑیں، گندم کا بحران آیا، جس کے باعث عام آدمی کی زندگی شدید متاثر ہوئی۔‘
ساجد امین پاکستان کے موجودہ اقتصادی ماڈل پر تنقید کرتے ہوئے اسے ’کنزمشن بیسڈ اور امپورٹ پر انحصار کرنے والا گروتھ ماڈل‘ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ماڈل محدود مواقع فراہم کرتا ہے اور اچھے روزگار پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔‘
ماہر معیشت نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا موجودہ گروتھ ماڈل صرف کم آمدن والی ملازمتیں پیدا کرتا ہے جبکہ ہائی انکم جابز کی گنجائش کم ہے۔
’یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے تعلیم بڑھتی ہے ویسے ویسے بیروزگاری کی شرح بھی بڑھتی ہے۔‘
دوسری جانب حکومت پاکستان نے عالمی بینک کی رپورٹ کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے پاکستان میں غربت کا اچانک اضافہ نہیں ہوا۔
وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کے مشیر خرم شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بھیجے گئے بیان میں کہا ہے کہ یہ رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ قومی غربت کی لکیر ہی پالیسی بنانے کے لیے سب سے اہم معیار ہے۔
وزیر خزانہ کے مشیر نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا سال 2018-19 کے تازہ ترین سرکاری گھریلو سروے کے مطابق ملک کی 21.9 فیصد آبادی بنیادی ضروریات کی قومی حد سے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔
’اس ڈویلپمنٹ نے اس نقطہ کی وضاحت کی ہے کہ حالیہ دنوں جو زیادہ بین الاقوامی غربت کی شرحیں سامنے آئیں، وہ پاکستان میں غربت کے کسی اچانک اضافے کا نتیجہ نہیں بلکہ عالمی طریقہ کار اور فی روز ڈالر کی حد میں کی گئی تبدیلی کا اثر تھا۔‘
مشیر خرم شہزاد نے رپورٹ کے ’حالانکہ بین الاقوامی غربت کی حدیں مختلف ممالک کے درمیان موازنہ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں لیکن پاکستان کے اندرونی حالات، پالیسی سازی، سماجی تحفظ اور غربت میں کمی کی کوششوں کی رہنمائی کے لیے قومی غربت کی لکیر کو ہی بنیاد بنانا چاہیے۔‘
خرم شہزاد سمجھتے ہیں گذشتہ چند سالوں میں غربت میں واقعی اضافہ ہوا ہے، جس کی بڑی وجوہات میں کرونا وائرس، سیلاب اور معاشی دباؤ شامل ہیں۔
’یہ چیلنج صرف پاکستان تک محدود نہیں تھا بلکہ دیگر ترقی پذیر ممالک بھی اس سے متاثر ہوئے۔‘
حکومت پاکستان کی جانب سے غربت کی شرح سے متعلق مشیر وزیر خزانہ نے کہا اس سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں جن میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو مزید وسعت دینا، ہنگامی حالات میں غریب خاندانوں کو فوری نقد امداد فراہم کرنا اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے زراعت اور چھوٹے کاروباروں میں سرمایہ کاری کرنا شامل ہیں۔
مشیر نے پروگرامز کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ خصوصی طور پر غربت کی شرح میں کمی کے لیے وفاقی سطح پر پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ، ورکرز ویلفیئر فنڈ اور پاکستان بیت المال جیسے پروگرامز جاری ہیں۔ جبکہ صوبائی سطح پر سماجی تحفظ اور غربت میں کمی کے پروگرامز متعارف کروائے گئے ہیں۔
مشیر وفاقی وزیر خزانہ کہتے ہیں حکومت سبسڈی کے نظام کو زیادہ موثر بنانے، سماجی تحفظ کو مضبوط کرنے اور صحت و تعلیم میں سرمایہ کاری بڑھانے پر کام کر رہی ہے۔
’یہ اقدامات ریفارمز ایجنڈے کا حصہ ہیں جن کا مقصد کمزور طبقے کو سہارا دینا اور غربت میں کمی لانا ہے۔‘
معیشتی پالیسیوں پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ساجد امین حکومت پاکستان کو اقدامات تجویز کرتے ہوئے کہا ہے کہ گروتھ ماڈل کو ’کنزمشن سے انویسٹمنٹ پر منتقل‘ کیا جائے اور برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔
دوسرا معاشی استحکام کے موجودہ مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں ’کیونکہ حالیہ عرصہ میں مہنگائی اور شرح سود میں کمی آئی ہے اور روپیہ مستحکم ہوا ہے۔‘
انہوں نے زور دیا کہ ’غربت کا مستقل اور پائیدار حل معیاری اور روزگار پیدا کرنے والی گروتھ ہی ہے۔ امید ہے حکومت اس بات کو سن رہی ہوگی اور اپنی آنے والی اسٹریٹیجیز اسی بنیاد پر تشکیل دے گی۔‘