عالمی بینک کے 41 ارب ڈالر کے ماحولیاتی فنڈز غائب؟ آکسفیم کو تشویش

رواں ماہ شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں آکسفیم نے انکشاف کیا کہ 2017 اور 2023 کے درمیان مختص کیے گئے فنڈز میں سے 40 فیصد تک کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔

چار دسمبر 2023 کو دبئی میں کوپ 28 کے موقعے پر ماحولیاتی حقوق کے کارکنان پلے کارڈز اٹھائے ہوئے (اے ایف پی/ کریم صاحب)

بین الاقوامی تنظیم آکسفیم نے یہ انکشاف کرتے ہوئے عالمی بینک کی موسمیاتی فنڈنگ کی شفافیت پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے سے دوچار ممالک کے لیے دیے گئے 41 ارب ڈالر کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

رواں ماہ شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں آکسفیم نے انکشاف کیا کہ 2017 اور 2023 کے درمیان مختص کیے گئے فنڈز میں سے 40 فیصد تک کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔

یہ فنڈز، جن کا مقصد کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو بڑھتے ہوئے موسمیاتی بحران سے نمٹنے میں مدد کرنا ہے، کا کوئی واضح ریکارڈ موجود نہیں ہے کہ یہ رقم کہاں گئی یا اسے کیسے استعمال کیا گیا جس سے اس فنڈ کی افادیت کو جانچنا ناممکن ہو گیا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا یہ فنڈز ماحولیات سے متعلق اقدامات پر ہی خرچ کیے گئے تھے یا کسی مقصد کے لیے کیوں کہ اس کا مقصد کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لوگوں کو موسمیاتی بحران کے اثرات سے بچانے اور صاف توانائی میں سرمایہ کاری کرنے میں مدد کرنا تھا۔

آکسفیم کے مطابق بنیادی مسئلہ ورلڈ بینک کے ٹریکنگ کے طریقہ کار میں ہے جس کا مطلب ہے کہ فنڈز کے خرچ کیے جانے پر محدود فالو اپ لیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس بات کا نامکمل اور ناقابل بھروسہ ریکارڈ ہوتا ہے کہ اصل میں رقم کیسے استعمال ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

توقع ہے کہ آذربائیجان میں آئندہ کوپ 29  اجلاس میں کلائمیٹ فنانس پر ایک کلیدی توجہ مرکوز کی جائے گی جس میں 2009 میں قائم کیے گئے 100 ارب ڈالر کے سابقہ ہدف کی جگہ کلائمیٹ فنانس کے لیے نیو کولیکٹیو کوانٹیفائیڈ گول (این سی کیو جی) کو حتمی شکل دینے کے لیے مذاکرات کیے جائیں گے۔

ترقی پذیر ممالک اور موسمیاتی کارکن پہلے ہی فنڈ میں اضافے کی وکالت کر رہے ہیں جن کا استدلال ہے کہ کمزور خطوں میں موسمیاتی بحران کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کم از کم پانچ ٹریلین ڈالر سالانہ ضروری ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق چین کو چھوڑ کر ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کو 2030 تک ہر سال تقریباً 2.4 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہو گی۔

اس کے باوجود آب و ہوا کے لیے اخراجات کی کمی اس بارے میں پریشان کن سوالات کو جنم دیتی ہے کہ آیا موجودہ وسائل ان خطوں میں کوئی بامعنی اثر ڈال رہے ہیں جہاں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

آکسفیم انٹرنیشنل کے واشنگٹن ڈی سی کے دفتر کی سربراہ کیٹ ڈونلڈ نے شفافیت کی اہم نوعیت پر زور دیا خاص طور پر جب  آذربائیجان میں کوپ 29 سربراہی اجلاس میں کلائمیٹ فنانس ایک اہم ایجنڈا آئٹم بننے کے لیے تیار ہے۔

ان کے بقول: ’یہ معلوم نہیں ہے کہ پیسہ اصل میں کہاں اور کیسے خرچ ہوتا ہے؟ یہ صرف کچھ بیوروکریٹک نگرانی نہیں ہے، یہ اعتماد کی بنیادی خلاف ورزی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا