عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سال 2023 اور 2024 کے دوران سندھ حکومت کو گندم کا سرکاری نرخ کے لیے سپورٹ پرائس ختم کرنے کی شرط کے بعد صوبے میں رواں سال گندم کے لیے رکھے ہدف سے انتہائی کم پیداوار کے امکان کے باعث حکومت سندھ نے ’گندم اگاؤ سپورٹ پالیسی‘ کا آغاز کیا ہے۔
اس پالیسی کے تحت ایک سے 25 ایکڑ زرعی زمین رکھنے والے چار لاکھ 11 ہزار کسانوں کو فی ایکڑ پر گندم لگانے والوں کو فی ایکڑ دو بوری یوریا کھاد اور ایک بوری ڈی اے پی دی جائے گی۔
’گندم اگاؤ سپورٹ پالیسی‘ کے لیے صوبے میں گندم اگانے والے کسانوں کے 57 ارب روپے کا ریلیف پیکیج مختص کر دیا ہے۔
محکمہ زراعت سندھ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں وزیر زراعت سندھ سردار محمد بخش مہر نے کہا ہے کہ صوبے میں 22 لاکھ 62 ہزار ایکڑ زمین پر گندم کاشت ہوگی اور کسان کو فی ایکڑ 24 ہزار 700 روپے سبسڈی دی جائے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ڈی اے پی کھاد نومبر 2025 تک اور یوریا جنوری 2026 کے بعد تصدیق شدہ کسانوں کو فراہم کی جائے گی۔‘
وزیر زراعت کے مطابق سندھ واحد صوبہ ہے جو کسانوں کو سبسڈی فراہم کرتا ہے اور یہ سب چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی خصوصی ہدایت پر ممکن ہوا تاکہ کاشت کاروں کو فوری ریلیف مل سکے۔
سردار محمد بخش مہر نے کسانوں پر زور دیا کہ وہ جلد از جلد اپنی رجسٹریشن مکمل کریں تاکہ حکومتی پیکیج سے فائدہ اٹھا سکیں۔
ترجمان محکمہ زراعت نے مزید بتایا کہ کسانوں کی رجسٹریشن کے عمل کی نگرانی کے لیے صوبائی، ضلعی اور دیہہ سطح پر مانیٹرنگ اور سپرویژن کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں۔ رجسٹریشن بینظیر ہاری کارڈ ڈیٹا بیس، قومی شناختی کارڈ اور لینڈ ریونیو ریکارڈ کے ذریعے کی جائے گی۔
محکمہ زراعت سندھ کے شعبہ میجر کراپس کے ڈائریکٹر رفیق احمد راہو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ سندھ میں دریائے سندھ کے بندوں کے اندر زمین کو کچے کی زمین اور دریا کے باہر والی زمین کو پکے کی زمین کہا جاتا ہے۔
رفیق احمد راہو کے مطابق ’سندھ میں پکے کی زمین پر ربیع کی فصلیں تقریباً 48 لاکھ ایکڑ پر لگائی جاتیں ہیں، جن میں تقریباً 31 لاکھ ایکڑ پر گندم لگائی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’دریائے سندھ پورے صوبے کے درمیاں گزرتا ہے اور دریائے سندھ کے حفاظتی بندوں کے درمیان گھوٹکی اور کشمور سے سمندر تک کچے کی زمین پر کل 15 لاکھ ایکڑ پر زراعت کی جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کچے کی کل 15 لاکھ ایکڑ زرعی زمین کے باجود دریا میں ہر سال سیلاب نہیں آتا اس لیے عام طور پر کچے میں خریف کے موسم میں تقریباً چار لاکھ ایکڑ پر مختلف فصلیں لگائیں جاتی ہیں۔
’ربیع کی موسم میں کچے میں پانچ لاکھ ایکڑ پر گندم کاشت کی جاتی ہے۔ اس سال سیلاب کے باعث سندھ میں کچہ مکمل طور پر پانی سے بھر گیا تھا جس کے باعث اس سال زیادہ گندم کی پیداور کا امکان ہے۔‘
رفیق احمد راہو کا مزید کہنا تھا کہ سندھ حکومت ہر سال کسانوں کو گندم اگانے کے لیے حوصلہ افزائی کے لیے سپورٹ پرائس مقرر کرتی ہے، جیسے حکومت کی سپورٹ پرائس کے بغیر گندم فی من 2500 روپے کی خرید کی جاتی ہے، مگر سپورٹ پرائس چار ہزار روپے مقرر کی گئی تھی۔
بقول رفیق احمد راہو ’سال 2023 اور 2024 کے دوران عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے سندھ حکومت کو گندم پر سپورٹ پرائس نہ لگانے کی شرط رکھی تھی، جس کے باعث امکان تھا اس سال کاشت کار گندم بڑے پیمانے پر نہیں لگائیں گے۔
’چار ہزار روپے فی من پرائس سپورٹ کے بغیر گندم کی قیمت 2500 روپے فی من ہونے پر کسان کو فی ایکڑ پر آنے والی لاگت بھی پوری نہیں ہوگی، تو وہ صرف اپنے کھانے کی گندم ہی اُگائے گا۔
'ان کے مطابق اس سب کے باعث ’گندم کی پیداوار میں شدید کمی کا امکان تھا، اس لیے حکومت سندھ نے آباد کار کو کھاد کی مد میں مکمل سپورٹ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔‘
رفیق احمد راہو کے مطابق اس سکیم کے تحت ایک سے 25 ایکڑ والے کسان کو گندم کی فصل کے لیے مطلوبہ کھاد مہیا کی جائے، جس میں 1400 روپے کی مالیت کی ڈی اے پی کھاد اور آٹھ ہزار 400 روپے مالیت کی دو بوری یوریا کھاد دی جائیں گی۔