’لڑکی تھانے میں کیسے جائے گی؟‘ خواتین کرائم رپورٹر کا ڈر

خواتین صحافیوں کا تناسب نہ ہونے کے برابر کیوں؟ رپورٹنگ کے لیے تھانے جانے والی خواتین صحافی ڈری سہمی کیوں ہوتی ہیں؟ جانیے اس تفصیلی رپورٹ میں۔

فائل فوٹو: 21 دسمبر، 2015 کو ایک پولیس افسر انڈین مچھیروں کو گن رہا ہے (اے ایف پی/رضوان تبسم)

’ایسی رپورٹنگ کا کیا فائدہ جس سے عوام کو کوئی فائدہ نہ ہو، سوشل میڈیا کے آنے بعد صحافت کا وہ معیار نہیں رہا۔ روزنامہ مشرق سے صحافت کا آغاز کیا۔ 2007 میں پشاور دہشت گردی کے زد میں تھا تو ایک کلر ایڈیشن کے لیے دہشت گردی کے واقعات کی رپورٹنگ کرتی تھی۔ سوات میں دہشت گردی بھی جاری تھی ان حالات میں رپورٹنگ اور متاثرہ خاندانوں کے انٹرویو کرنا جان جوکھوں کا کام تھا۔‘

یہ کہانی بیان کر رہی ہیں پشاور کی کرائم رپورٹر شازیہ نثار۔

پاکستان میں کام کرنے والی ہر کرائم رپورٹر اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے صحافت اور اداروں میں اپنی الگ پہچان بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔

خواتین کو اعصابی طور پر کمزور سمجھنے والے معاشرے میں عورت کی پہچان اس کی جدوجہد اور کام ہی ہوتا ہے۔

خواتین کے لیے کرائم رپورٹنگ کرنا کیوں مشکل اور خطرناک کام ہے، کیا اس کی وجہ مردوں کی بالادستی ہے؟ یا پھر اداروں میں کرائم رپورٹنگ کے بارے میں تربیت کا فقدان ہے؟

سوال یہ ہے کہ اگر کرائم رپوٹنگ خطرناک ہے تو کیا یہ مرد صحافیوں کے لیے خطرناک نہیں؟ ان کی جان بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی خواتین صحافی کی ہے؟

شازیہ نثار

19 سال سے صحافت کے پیشے سے وابستہ شازیہ نثار ضلع پشاور میں کرائم رپورٹنگ، کورٹ رپورٹنگ اور جیل خانہ کی رپورٹنگ کرتی آ رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ تین سال سے مجھے ڈر لگنے لگ گیا ہے۔ آج میں سمجھتی ہوں کہ مجھے محتاط ہونا چاہیے، کرائم رپورٹنگ اور جیل کی رپورٹنگ کرتے ہوئے خود کو محفوظ نہیں سمجھتی اب تو ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’جب اے آر وائی نیوز میں جاب ملی تو پہلی بیٹ ہائی کورٹ ملی جو میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھی۔‘

یہ وہ دور نہیں جہاں صحافی سے ملنے کے لیے وقت لینا پڑتا تھا

انہوں نے بتایا: ’کورٹ رپورٹنگ کے دوران میری بہت سی سٹوریز پر از خود نوٹس لیے گئے جس سے عوام کا براہ راست فائدہ ہوا۔

’ٹی وی چینل کے پروگرام ’جرم بولتا ہے‘ میں 15 سے 20 منٹ کی سٹوری کرائم پر کرتی تھی۔ کرائم رپورٹنگ کرتے ہوئے مجھے کبھی خوف محسوس نہیں ہوا کیونکہ میں نے دہشت گردی کے حالات میں بہت کام کیا ہوا تھا جس سے میرا حوصلہ کبھی پست نہیں ہوا جبکہ ادارے کی جانب سے بھی کبھی کوئی رکاوٹ نہیں ہوئی۔‘

شازیہ نے اپنے خوف کو ایک جملے میں بیان کیا کہ ’سوشل میڈیا کی وجہ سے خواتین صحافیوں کی عزتیں محفوظ نہیں۔ یہ وہ دور نہیں جہاں صحافی سے ملنے کے لیے وقت لینا پڑتا تھا۔‘

جن خطرات کا شازیہ نے ذکر کیا ان خطرات کا وجود سالوں پرانا ہے۔ ایسی ایک مثال آئرلینڈ کی کرائم رپورٹر ویرونیکا گورین کی ہے جو وہاں کے اخبار ’سنڈے انڈپینڈنٹ‘ میں کام کرتی تھیں۔

جون 1996 میں انڈرورلڈ پر تحقیقاتی سٹوری کی وجہ سے انہیں گولی مارکر خاموش کر دیا گیا۔ ان کے قتل کے بعد آئرلینڈ نے ملک کی سب سے بڑی کرمنل انویسٹی گیشن کی اور گینگ کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔

اس بات میں کہیں نہ کہیں حقیقت ضرور پنہاں ہے کہ خواتین کے جرائم کو دیکھنے کے لیے کوئی خاتون کرائم رپورٹر بھی ہونی چاہیے۔

قارئین کو میری اس بات سے صنفی فرق تو نظر آ رہا ہے مگر حقائق کو مدنظر رکھ کر بات کی جائے تو پاکستان کی 60 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے جہاں خواندگی کی شرح زیادہ نہیں۔

دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین اپنی روایات کی وجہ سے مردوں سے کھل کر بات کرنے سے آج بھی گھبراتی ہیں۔

بڑھتے ہوئے جرائم کی ایک وجہ حقائق کا سامنے نہ آنا بھی ہے۔ خواتین کرائم رپورٹر اگر ان علاقوں میں جائیں تو بہت سی خواتین بھی اپنے مسائل کو کھل کر بیان کر پائیں گی۔

عارفہ صبح خان

کرائم رپورٹنگ میں سات ایوارڈ، بطور خاتون صحافی 12 گولڈ میڈلز حاصل کرنے والی پاکستان کی سینیئر کرائم رپورٹر عارفہ صبح خان نے 90 کی دہائی میں صحافت کا آغاز کیا۔

روزنامہ جنگ کے لیے پہلی کرائم سٹوری کی جو لاہور کے ایک علاقے میں ایک ہی خاندان کے 13 افراد کا قتل تھا۔

لیڈی رپورٹر کے ٹائٹل سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے والی عارفہ نے سیاست، پارلیمنٹ، کورٹ، جیل خانہ، تعلیم اور صحت پر بھی رپورٹنگ کی مگر ’صحافت کی شیرنی ‘کا ٹائٹل انہیں ’نوائے وقت‘ کے سربراہ مجید نظامی نے کرائم رپورٹنگ کی وجہ سے دیا۔

انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے بطور کرائم رپورٹر سٹوریز کرنا شروع کیں تو اعتراضات شروع ہو گئے، مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔

’کرائم سٹوری کور کرنے میں کبھی ہار نہ ماننے کی ایک وجہ روزنامہ جنگ میں ہمارے نیوز ایڈیٹر اطہر عباس بھی تھے، وہ مجھے کرائم سین کور کرنے بھیجتے تھے کہ ’عارفہ سٹوری کے ہر پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے سٹوری فائل کرتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں اگر آپ کو کام کرنا آتا ہے تو کافی حد تک مشکلات کم ہو جاتی ہیں۔‘

معاشرے کی طرف سے ملنے والے ردعمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ 90 کی دہائی میں، سیاسی جلسوں، مذہبی جلسوں اور ریلیوں کو کور کرنے کے لیے مرد صحافی حضرات کے ساتھ جانا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لیکن انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔

خواتین صحافیوں کی سکیورٹی کے حوالے سے انہوں نے بتایا، ’میری نظر میں آج کی خواتین صحافی محفوظ نہیں، جس کی ایک وجہ سوشل میڈیا ہے چونکہ اب صحافیوں کا کام اخباروں اور ٹیلی ویژن کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا میں بھی اپنی ایک پہچان رکھتا ہے۔

’سوشل میڈیا میں آپ کی تصویر، اور فیملی کی تفصیل موجود ہوتی ہیں جس کی وجہ سے خواتین کو سوشل میڈیا پر ٹرول کیا جاتا ہے اور ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔

’ہمارے دور میں آپ کی پہچان محفوظ رہتی تھی جس کی وجہ سے بہت سے مشکل حالات میں بھی بچ کر خواتین نکل جاتی تھیں۔‘

صحافت میں صنفی امتیاز 2023 میں بھی برقرار ہے۔ معاشرے میں کرائم کی لپیٹ میں مرد اور عورت دونوں ہی براہ راست یا بالواسطہ آتے ہیں۔

ایسے کون سے عوامل خواتین صحافیوں کے راستے میں حائل ہوتے ہیں کہ قابلیت ہونے کے باوجود خواتین نظر انداز ہو رہی ہیں؟ کرائم رپورٹنگ میں خواتین کی تعداد انتہائی کم (نہ ہونے کے برابر) ہونے کے پیچھے محرکات کیا ہیں؟

ان سوالات کے جوابات بہت ضروری ہیں۔ جامعات میں صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کو علم ہونا چاہیے کہ اصل میں رکاوٹیں کیوں اور کہاں ہیں؟

’خواتین صحافی خود اس فیلڈ میں آنا نہیں چاہتیں‘

جیو نیوز کے بیورو چیف رئیس انصاری کا کہنا ہے، ’میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ خواتین کو کرائم رپوٹر بننے نہیں دیا جاتا۔ خواتین صحافی خود اس فیلڈ میں آنا نہیں چاہتیں۔

’اس بات کا میں خود گواہ ہوں کہ بعض اوقات خاتون رپورٹر میں ٹیلنٹ ہوتا ہے میں خود کہتا ہوں کہ چونکہ آپ کی اس معاملے میں سمجھ بوجھ اچھی ہے اور سٹوری کے اہم پہلو کو منظر عام پر لا سکتی ہیں تو کرائم بیٹ کریں۔

’اس پر مجھے خواتین کی طرف سے انکار سننے کو ملتا ہے کہ معاشرتی اور گھریلو مسائل کی وجہ سے وہ یہ کام نہیں کر سکتیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ خواتین رات دیر تک کام نہیں کر سکتیں جبکہ کرائم رپورٹنگ میں دن رات کا تصور کم ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’جہاں تک خواتین کو کرائم رپورٹنگ سے روکنے کی بات ہے تو اس معاملے میں ایک پہلو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مرد کرائم رپورٹر بھی نہیں چاہتے کہ کوئی آگے بڑھے۔ اس فیلڈ میں پورے میڈیا ہاوسز میں مرد کرائم رپورٹر خاتون تو کیا مرد کرائم رپورٹر کو بھی اپنے برابر برداشت نہیں کرتے۔‘

رئیس انصاری کے مطابق ’میری 37 سالہ صحافت میں خواتین صحافیوں کو کرائم سٹوریز کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ جنگ میں تو خواتین میگزین میں پورے پورے صفحوں پر کرائم سٹوریز شائع ہوتی تھیں۔

’خواتین صحافی کو دن میں کام کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں، ہاں مگر شام اور رات میں آج کے جدید دور میں بھی خواتین اس فیلڈ میں کام کرنے سے اجتناب کرتی ہیں شاید اس کی ایک وجہ ان کے ذاتی تحفظ کے بارے میں خدشات بھی ہیں۔‘

ملک میں خواتین کے حوالے سے جس طرح کے حالات ہیں ہم خود بھی خواتین کی سکیورٹی کو لے کر بہت محتاط رہتے ہیں کہ کہیں کوئی ایسا واقع نہ ہو جائے جس سے خاتون کی جان اور عزت کو کوئی نقصان ہو۔

رئیس انصاری سے سوال کیا گیا کہ آپ کو لگتا ہے خواتین اعصابی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے کرائم رپورٹنگ نہیں کر پاتیں؟

انہوں نے کہا، ’اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ خواتین بہت بہادر اور نڈر ہوتی ہیں اور بعض اوقات سٹوری کے ایسے پہلوؤں کو منظر عام پر لاتی ہیں جس کے بارے میں کوئی مرد سوچ بھی نہیں سکتا۔

’خواتین قابل، ذہین، ذمہ دار، نڈر بھی ہوتی ہیں اور ٹیم ورک اچھا کرتی ہیں اور اب جو میڈیا کی طالبات ہیں وہ مزید سمجھ دار اور نڈر ہیں۔‘

کیا معاشرے میں والدین پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے بیٹیوں کے برابر کھڑے ہوتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں انہوں نے مثال دی کہ ’نیوز کاسٹر ماہ پارہ صفدر جب میڈیا میں آئیں تو انہیں فیملی کی طرف سے ناراضگی بھی برداشت کرنی پڑی کہ معاشرہ اور رشتے دار کیا کہیں گے مگر اب والدین سپورٹ کرتے ہیں اور کام کی نوعیت کو سمجھتے ہیں۔‘

دعا مرزا

پہلی بائیکر خاتون کرائم رپورٹر دعا مرزا کا کہنا ہے کہ2017 میں سٹی 42 سے صحافت کا آغاز ایک خاتون رپورٹر کے طور پر کیا۔

کرائم رپورٹنگ کی طرف رجحان ہونے کی وجہ سے میں آغاز سے ہی خود کو کرائم رپورٹر سمجھتی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ پبلک نیوز چینل، جی ٹی وی اور 92 اس تمام چینلز میں میری ہائرنگ کرائم رپورٹر کے طور پر ہی ہوئی کیونکہ میں اس فیلڈ میں تجربہ رکھتی تھی۔

دعا سے سوال کیا کہ کیا آپ متفق ہیں کہ میڈیا ہاؤسز میں خواتین کرائم رپورٹر کو قبول نہیں کیا جاتا؟

اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’چار سے پانچ سال اس فیلڈ میں کام کرنے کے بعد بھی آج تک معاشرے میں انہیں خاتون کرائم رپورٹر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکا۔ کیونکہ اس فیلڈ میں صحافیوں کے ایک ورکنگ لوپ میں کام کرنا پڑتا ہے جہاں 24 گھنٹے کرائم رپورٹ ہو رہے ہوں وہاں ایک اکیلے فرد کے بس کی بات نہیں۔

’میں آج بھی یہ بات دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ آج تک میرا کوئی لوپ نہیں بن سکا۔ جس کی ایک وجہ میرا لڑکی ہونا ہے، لڑکی تھانے میں کیسے جائے گی، اور پھر اگر اپ کے پاس کوئی خبر ہے بھی تو فوراً ٹیگ کر دیا جاتا ہے کہ لڑکی ہونے کی وجہ سے اسے یہ خبر ملی ہو گی۔‘

دعا مرزا کی یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہے کہ رپورٹر کی خبر کہیں نہ کہیں ان کے سورسز کے ساتھ ساتھ ان افراد کے ساتھ جڑی ہوتی ہے جو ہماری سوسائٹی کے اہم کردار ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب کو صحافت میں اعلیٰ کارکردگی پر کئی ایوارڈز ملے۔ وہ اپنی کامیابی کا راز اپنے وسیع حلقہ احباب کو قرار دیتی ہیں۔

منشیات کے بے تاج بادشاہ اور ان پڑھ جہادی سے لے کر وزرائے اعظم تک، سکول ٹیچر سے امریکہ، پاکستان اور برطانیہ کے سابق فوجی جرنیلوں تک سب ان کی رابطہ لسٹ میں موجود ہیں۔

دعا مرز نے ایک اہم نکتہ اٹھایا کہ ’اگر خواتین کرائم ر پوٹنگ کر رہی ہیں یا کرنا چاہتی ہیں تو انہیں بھی سافٹ کارنر ختم کرنا ہو گا۔ میں جب اس فیلڈ میں آئی تو پہلے سپر ویمن تک جانے کے لیے پہلے سپر مین بننا پڑا تب جا کر معاشرہ اور ادارے آپ کی قابلیت کو مانتے ہیں۔‘

لاہور میں ایک فیصد خاتون صحافی 

لاہور پریس کلب کے جنرل سیکریٹری عبدالمجید ساجد نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’لاہور پریس کلب میں خواتین صحافی تقریباً ایک فیصد کے برابر ارکان ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ معاشرے میں اب بھی خواتین رپورٹرز کو اپنی جگہ بنانے میں تھوڑی محنت کرنا پڑتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عبدالمجید ساجد جنگ اخبار سے وابستہ ہیں انہوں نے خود بھی کئی بار خواتین کو رپورٹنگ کے دوارن معاشرتی مسائل کی وجہ منفی اثرات کو دیکھا ہے۔ خواتین خود بھی کرائم رپورٹنگ اس لیے نہیں کرتیں کہ انہیں معاشرے کی سختیوں کے ساتھ ساتھ گھر والوں کے اعتراضات کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے۔

’یہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین کرائم رپورٹنگ کا آغاز تو کر دیتی ہیں مگر کچھ عرصے بعد انہیں جنرل رپورٹنگ میں ہی اپنی صلاحیتیں دکھانی پڑتی ہیں۔‘

اسلام آباد پریس کلب سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق 3663 صحافی رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے صرف 211 صحافی خواتین پریس کلب کی ارکان ہیں۔ یہ تعداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔

آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے شہر لاہور میں تمام بڑے میڈیا چینلز کے بیوروز موجود ہیں۔ لاہور میں بڑے میڈیا چینلز میں خواتین رپورٹرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر، پاکستان ٹیلی ویژن میں پانچ، جیو نیوز میں چار، سنو ٹی وی میں چار، نیو اور لاہور رنگ دونوں میں کل پانچ، سما ٹی وی، اے آر وائی نیوز، جی ٹی وی، دنیا نیوز، لاہور نیوز، جی این این سب میں ایک ایک خاتون رپورٹر کام کر رہی ہیں۔

دوسری طرف جی ٹی وی، ہم نیوز، بول نیوز، اب تک نیوز، آج نیوز، کیپٹل نیوز، اور پی این این کوئی خاتون رپورٹر نہیں۔ لاہور کے میڈیا ہاؤسز میں کام کرنے والی خواتین رپورٹرز کی تعداد صرف 23 ہے۔

خاتون رپورٹر کو تھانے آنے میں کیوں ہچکچاہٹ ہوتی ہے؟

ڈی ایس پی آپریشنز نورین رمضان کا کہنا ہے کہ ’ظاہر ہے کہ اگر خواتین رپورٹر پولیس سٹیشن آتی ہیں تو وہ زیادہ تر خواتین کے حوالے سے جرائم کے بارے میں بھی معلومات اکٹھی کرتی ہیں؟

زیادہ تر جرائم کی نوعیت کے بارے میں زیادہ تر سوالات جس میں خواتین گھریلو تشدد اور ریپ کی ایف آئی آرز کے ہوتے ہیں۔

’میرے خیال میں آج کل کی خواتین صحافی زیادہ تجربہ کار ہیں، انہیں کام کی نوعیت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ میرے تجربے کے مطابق جن خواتین رپورٹر کو اس فیلڈ میں زیادہ تجربہ ہو جاتا ہے وہ اپنے کام کو بڑے پروفیشنل طریقے سے کرتی ہیں۔

’مگر یہاں میں یہ بھی بتانا چاہوں گی جن خواتین کو صحافت میں آئے زیادہ وقت نہیں ہوتا وہ جب پولیس سٹیشن میں کسی بھی واقعہ کی معلومات کے لیے جاتی ہیں تو کچھ ڈری اور سہمی ہوتی ہیں۔‘

جس طرح صحافیوں کا کام کرنے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے، ویسے ہی پولیس بھی اپنے انداز میں کام کرتی ہے جس سے بعض اوقات تجربہ نہ رکھنے والی خواتین صحافی پریشان ہو جاتی ہیں۔

آج کے دور میں خواتین رپورٹرز کا ہونا ایک خوش آئند عمل ہے کیونکہ پہلے ہم دیکھتے تھے کہ کرائم رپوٹنگ کا رجحان زیادہ تر مرد صحافیوں کے ذمہ ہی ہوتا تھا بلکہ اسی طرح جس طرح پولیس کے محکمے میں صرف مرد حضرات کی ایس پی، ڈی ایس پی اور ایس پی آپریشنل کے عہدوں پر ہوتے تھے مگر اب دیکھیں خواتین بھی ان عہدوں پر خدمات ست انجام دے رہیں ہیں۔  

پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستان کی ٹیلی ویژن سکرین میں جدت آئی اور پرائیویٹ چینلز کی لائن لگ گئی۔

اس دور میں صحافت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین صحافیوں نے بھی الیکٹرونک میڈیا کے مختلف شعبہ جات میں ملازمتیں حاصل کیں۔

مرد صحافیوں کے لیے بھی الیکڑونک میڈیا میں کام کرنا ایک نیا تجربہ تھا۔ اس دور میں بھی پرنٹ میڈیا کی طرح الیکڑونک میڈیا میں بھی خواتین صحافی بہت پیچھے رہ گئیں۔

خاتون کرائم رپورٹر دعا مرزا کا کہنا ہے کہ ’اگر میں اب کی بات کروں تو خواتین صحافیوں کے لیے ماحول بہت بہتر ہے، کم سے کم دفاتر میں خواتین نظر تو آتی ہیں۔

’اب الیکٹرونک میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کی ذریعے کام کرنا آسان ہو گیا ہے۔ آج میں دیکھتی ہوں کہ خواتین کورٹس، کرائم شوز اور جیلوں سے لائیو رپورٹنگ کرتی ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’رپورٹنگ کے دوران میں نے اپنے مرد کولیگز کی طرف سے تعصب اور حسد جیسے بہت سے معاملات دیکھے ہیں کبھی کبھی غصہ بھی آتا تھا مگر مجھے لگتا ہے مردوں کو پہلے بھی خواتین کرائم رپورٹر ہضم نہیں ہوتی تھیں اور اب جدید دور میں بھی ایسی ہی صورت حال سے خواتین صحافی مقابلہ کرتیں نظر آتی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین