حمزہ خان! یہ ابتدا ہے آپ نے اور آگے جانا ہے

پاکستان سکواش فیڈریشن حمزہ کی جیت کا کریڈٹ لے رہی ہے۔یہ فیڈریشن کا کام ہے کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کا کس طرح خیال رکھتی ہے اور ان کی ٹریننگ اور پھر مطلوبہ نتائج کے حصول کو کس طرح یقینی بناتی ہے لیکن حمزہ خان کے معاملےمیں کچھ باتیں ایسی ہیں جن پر سب کوحیرت ہے۔

حمزہ خان کی یہ جیت یقیناً پاکستان سکواش کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ یہ انہی جیسے کئی دوسرے نوجوان باصلاحیت کھلاڑیوں کو بھی نیا حوصلہ دے گی جو دن رات محنت کر رہے ہیں (پاکستان سکواش فیڈریشن ٹوئٹر اکاؤنٹ)

میں نے اگرچہ اپنی 33 سالہ سپورٹس صحافت کے دوران زیادہ تر کوریج کرکٹ سے متعلق کی ہے لیکن سکواش ہمیشہ سے میرا پہلا پیار رہا ہے۔

نواکلی سے تعلق رکھنے والے عظیم کھلاڑیوں کے کارنامے بچپن سے پڑھتے رہنے کے بعد عملی زندگی میں انہیں قریب سے دیکھا تو سکواش سے تعلق مزید پختہ ہوتا چلا گیا۔

یہ اسی تعلق کا نتیجہ تھا کہ سابق برٹش اوپن چیمپیئن قمر زمان کی سوانح حیات بھی ان کی فرمائش پر لکھ ڈالی، لیکن بدقسمتی سے وہ کتاب ہائی جیک ہوکر کسی اور کے نام سے شائع ہوگئی۔

یہ کالم آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں:

ان 33 برسوں کے دوران میں نے پاکستان میں سکواش کا عروج و زوال بہت قریب سے دیکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہر عروج کو زوال ہے لیکن زوال کے بعد اگر اس کے اسباب کا نیک نیتی سے جائزہ لیا جائے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرلی جائے تو عروج دوبارہ بھی حاصل ہوجاتا ہے۔

نوجوان حمزہ خان کی ورلڈ جونیئر سکواش چیمپیئن  شپ کی جیت کو بھی پاکستان میں سکواش کے زوال سے عروج کی طرف دوبارہ سفر کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے لیکن ابھی سے یہ نتیجہ اخذ کرلینا قبل از وقت ہوگا کہ یہ عروج دوبارہ مل جائے گا کیونکہ ایک بڑی کامیابی منزل کی سمت متعین تو کرسکتی ہے لیکن منزل تک پہنچنے کے لیے ناکافی ہوتی ہے ۔اس کے لیے مسلسل محنت اور نیک نیتی کے ساتھ کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

جہانگیر خان اور جان شیر خان کے بعد پاکستان میں سکواش قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ ان دونوں کے بعد ورلڈ یا برٹش اوپن ٹائٹل تو دور کی بات ان مقابلوں کے فائنل تک رسائی بھی کسی پاکستانی کھلاڑی کے لیے ممکن نہیں ہوسکی ہے۔

اس دوران ایشین سینیئر اور ایشین جونیئر کی جیت کے شادیانے بجاکر پاکستان سکواش کے ارباب اختیار خوش ہوتے رہے ہیں اور ایشیائی سطح کی انہی کامیابیوں پر پرائیڈ آف پرفارمنس بھی تقسیم ہوتے رہے ہیں اور جس نے پہلی بار پاکستان کو ورلڈ امیچر سکواش ٹائٹل جتوایا وہ کھلاڑی مقصود احمد آج بھی سرکاری پذیرائی اور اس پرائیڈ آف پرفارمنس سے محروم ہیں۔

حمزہ خان کی یہ جیت یقیناً پاکستان سکواش کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ یہ انہی جیسے کئی دوسرے نوجوان باصلاحیت کھلاڑیوں کو بھی نیا حوصلہ دے گی جو دن رات محنت کر رہے ہیں۔ انہیں اس جیت سے یہ تحریک ملے گی کہ وہ بھی اسی طرح عالمی سطح پر اعزاز حاصل کرسکتے ہیں۔

حمزہ خان کی یہ کامیابی جہاں ان کی اپنی محنت کا نتیجہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے افراد کی محنت بھی اس میں شامل ہے، جن میں ان کے والد نیاز اللہ خان سرفہرست ہیں۔

ان کے والد نے اس وقت جب کووڈ کے دنوں میں پشاور کا پی اے ایف سکواش کمپلیکس بند تھا، اس خیال سے کہ بیٹے کا ٹیلنٹ ضائع نہ ہوجائے اپنے مکان کا ایک کمرہ خالی کرکے وہاں سیلف پریکٹس شروع کروا دی۔ وہ اپنے بیٹے کو پشاور کی سڑکوں پر رننگ کرواتے رہے تھے تاکہ کم از کم فٹنس برقرار رہے۔ حمزہ کی انٹرنیشنل مقابلوں میں شرکت کا معاملہ ہو یا ٹریننگ کا، نیاز اللہ خان ہر قربانی دینے کے لیے تیار نظر آئے ہیں۔

کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ہارنے والے کے سر پر کوئی ہاتھ نہیں رکھتا۔ جیتنے والے کے کئی مائی باپ بن جاتے ہیں۔ یہ دنیاوی اصول ہے۔ آج حمزہ کے ساتھ بھی یہی کچھ دیکھنے میں آرہا ہے۔

پاکستان سکواش فیڈریشن حمزہ خان کی جیت کا کریڈٹ لے رہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ یہ فیڈریشن کا بنیادی کام ہے کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کا کس طرح خیال رکھتی ہے اور ان کی ٹریننگ اور پھر مطلوبہ نتائج کے حصول کو کس طرح یقینی بناتی ہے لیکن حمزہ خان کے معاملے میں کچھ باتیں ایسی ہیں جن پر سب کو حیرت ہے۔

مثلاً حمزہ کے ساتھ آسٹریلیا بھیجے گئے مینیجر کے بارے میں فیڈریشن کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ صاحب مینیجر، مینٹور، کوچ، ٹرینر اور ماہر نفسیات یعنی تمام تر خوبیوں کے مالک ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ محض ایئرفورس کے اہم افسر ہیں نہ کہ پروفیشنل کوچ یا ٹرینر۔

سکواش پر سند کا درجہ رکھنے والے عظیم جہانگیر خان کا کہنا ہے کہ جن صاحب کو فیڈریشن نے مینیجر کے طور پر بھیجا، انہوں نے خود کبھی سکواش نہیں کھیلی اور نہ ہی انہیں کوچنگ کا کوئی تجربہ ہے۔ حمزہ خان نے اپنی محنت کے بل پر یہ ٹائٹل جیتا ہے اور اس میں آرمی کا کنٹری بیوشن ہے، جنہوں نے اپنے کوچز انہیں ٹریننگ کے لیے فراہم کیے، لیکن اس جیت میں سکواش فیڈریشن کا کوئی کمال نہیں ہے۔

یہاں میلبرن میں مقیم ایک پاکستانی ڈاکٹر شہروز کا ذکر کرنا بھی ضروری ہےکہ انہوں نے سکواش سے اپنی دیرینہ وابستگی کی وجہ سے حمزہ خان کا بہت خیال رکھا کیونکہ حمزہ خان کے ساتھ جانے والے مینیجر صاحب نے تو تمام تر توجہ اپنی ذات پر مرکوز کر رکھی تھی، جس کا اندازہ اس ویڈیو کلپ سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حمزہ سکواش کورٹ میں ورلڈ ایونٹ کا میچ کھیل رہے ہیں اور مینیجر صاحب اس سے بے نیاز اپنے موبائل فون میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

مجھے پاکستان سکواش فیڈریشن کے سیکریٹری کا یہ بیان پڑھ کر بھی حیرت ہو رہی ہے جس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہماری بہترین حکمت عملی تھی کہ ہم نے ورلڈ جونیئر چیمپیئن شپ میں صرف ایک کھلاڑی یعنی حمزہ خان کو بھیجا کیونکہ ہم اسی پر فوکس کیے ہوئے تھے۔

یہاں سیکریٹری صاحب نے انڈیا اور مصر کی مثال دی کہ ہم نے ان کی طرح بڑی تعداد میں کھلاڑی نہیں بھیجے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حمزہ خان کیا جہانگیر خان یا جان شیر خان تھے کہ سکواش فیڈریشن کو اس بات کا سو فیصد یقین تھا کہ وہ ورلڈ جونیئر ٹائٹل جیت لیں گے؟

رہی بات ایک سے زائد کھلاڑیوں کو کسی ورلڈ ایونٹ میں بھیجنے کی تو اس کے ایک سے زائد مقاصد ہوا کرتے ہیں۔ اول یہ کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل سطح پر کھیلنے کا ایکسپوژر ملتا ہے، جو ان کے اعتماد میں اضافہ کرتا ہے اور انہیں پتہ چلتا ہے کہ انٹرنیشنل سکواش کسے کہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ آپ کے جتنے زیادہ کھلاڑی ہوتے ہیں، آپ کے ٹائٹل جیتنے کے مواقع زیادہ موجود رہتے ہیں۔

جب فیڈریشن یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ نوجوان کھلاڑیوں کی ٹریننگ پر بہت کام کر رہی ہے تو ایسی ٹریننگ کا کیا فائدہ کہ نوجوان ٹیلنٹ کو بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے لیے ہی نہ بھیجا جائے۔

آج اگر مصر جونیئر کھلاڑیوں کے معاملے میں بہت آگے نظر آتا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اس نے ایک باقاعدہ سیٹ اپ بنا رکھا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ باصلاحیت لڑکوں اور لڑکیوں کو برٹش اوپن جونیئر اور ورلڈ جونیئر مقابلوں میں بھیجتا ہے اور پھر وہ کھلاڑی جونیئر سے سینیئر میں آجاتے ہیں۔

رامی آشور اور محمد الشربگی اس کی دو بڑی مثالیں ہیں، جنہوں نے ورلڈ جونیئر ٹائٹل جیتے اور کچھ عرصے بعد ہی عالمی چیمپیئن  بھی بن گئے۔

حمزہ خان کی ورلڈ جونیئر چیمپیئن شپ کے لیے جانے سے پہلے 45 روز تک سخت ٹریننگ ان کے ادارے پاکستان آرمی نے باقاعدہ طور پر کروائی تھی جن میں میجر سلیمان، کوچ آصف خان اور ٹرینرز فہیم اور ارباز نمایاں تھے۔

خود حمزہ خان نے مجھے بتایا کہ ’سکواش ہر کوئی کھیلتا ہے لیکن اصل چیز فٹنس ہوتی ہے اور وہ ورلڈ جونیئر چیمپیئن  شپ کھیلنے سے قبل فٹنس کی کمی کو خاص طور پر محسوس کر رہے تھے لیکن آرمی کے ان ٹرینرز اور کوچ کے ساتھ ان کی فٹنس میں نمایاں بہتری آئی۔ اس کے علاوہ ان لوگوں نے مجھے ذہنی طور پر بہت مضبوط کیا۔‘

حمزہ خان نے اسی سال پاکستان آرمی کو روشن خان ٹرافی بھی جتوائی ہے جس کے فائنل میں آرمی نے واپڈا کو ہرایا تھا۔

حمزہ خان کون ہیں؟

حمزہ خان نے 2020 میں برٹش اوپن انڈر15 ٹائٹل جیتا تھا۔ اسی سال انہوں نے مکاؤ میں ایشین جونیئر چیمپیئن شپ میں انڈر 15 ٹائٹل بھی اپنے نام کیا تھا۔

انہوں نے 2021 میں فلاڈیلفیا میں یو ایس اوپن جونیئر ٹائٹل جیتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فروری 2023 میں انہوں نے نور زمان کے ساتھ مل کر پاکستان کو ایشین جونیئر سکواش چیمپیئن شپ میں انڈیا کے خلاف کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔

حمزہ خان کے والد نیاز اللہ خان سول ایوی ایشن میں ایئر ٹریفک سپروائزر ہیں۔ نیاز اللہ خان سابق برٹش اوپن چیمپیئن قمر زمان کے برادر نسبتی ہیں۔

حمزہ خان کے ماموں شاہد زمان بھی سابق انٹرنیشنل کھلاڑی ہیں، جنہوں نے ان کی کوچنگ بھی کی ہے اور بوسٹن، امریکہ میں انہیں ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ ورلڈ جونیئر ایونٹ سے قبل بھی حمزہ خان شاہد زمان سے مسلسل رابطے میں رہے تھے، جو انہیں اہم ٹپس دیتے رہے تھے۔

حمزہ خان امریکہ میں منعقدہ چار سیٹلائٹ ٹورنامنٹس بھی جیت چکے ہیں۔

وہ پشاور میں پاکستان ایئرفورس اکیڈمی میں رہے ہیں، اس کے علاوہ وہ پاکستان سکواش فیڈریشن کے کوچنگ پروگرام کا حصہ بنے۔

حمزہ خان کا ٹیلنٹ کم عمری میں ہی سامنے آگیا تھا جب انہوں نے ایک کوالیفائر کی حیثیت سے چیف آف ایئر سٹاف چیمپیئن شپ میں انڈر 11 کا فائنل کھیلا تھا۔

حمزہ خان پر مصر کا اعتراض

حمزہ خان کے ورلڈ جونیئر چیمپیئن  بننے کے بعد مصر کی سکواش فیڈریشن نے ورلڈ سکواش فیڈریشن کو درخواست دی ہے جس میں حمزہ خان کی عمر کے بارے میں تحقیقات کے لیے کہا گیا ہے۔

مصر کی سکواش فیڈریشن کا خیال ہے کہ حمزہ خان کی عمر 19 سال سے زیادہ ہے اور وہ اس ورلڈ جونیئر چیمپیئن شپ میں حصہ لینے کے اہل نہیں تھے۔

جس پر ورلڈ سکواش فیڈریشن کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

میری اس بارے میں حمزہ خان کے والد نیاز اللہ خان سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان سکواش فیڈریشن کو تمام ضروری دستاویز فراہم کردی ہیں اور فیڈریشن یہ تمام دستاویز ورلڈ سکواش فیڈریشن کو ارسال کر رہی ہے اور اس ضمن میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ حمزہ کی عمر کے بارے میں نہ کوئی ابہام ہے اور نہ ہی کوئی غلط بیانی کی گئی ہے۔

نیاز اللہ خان کا کہنا ہے کہ یہ دراصل ان سازشی لوگوں کا کام ہے، جن سے حمزہ خان کی جیت ہضم نہیں ہو رہی ہے۔

مستقبل کے اہداف

حمزہ خان نے جونیئر سطح پر جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ حاصل کرلیا ہے لہذا اب انہیں مکمل طور پر سینیئر مقابلوں کی طرف اپنی مکمل توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور اپنی عالمی رینکنگ کو بہتر سے بہتر بنانا ہوگا تاکہ وہ اس مقام پر پہنچ سکیں جہاں وہ جونیئر کے بعد سینیئر ورلڈ چیمپیئن بننے کے خواب کو بھی حقیقیت کا روپ دے سکیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ