پاکستان پہلی مس یونیورس امیدوار ایریکا رابن سے لاتعلق کیوں؟

کراچی سے تعلق رکھنے والی 24 سالہ فیشن ماڈل ایریکا رابن کو مالدیپ میں منعقدہ مس یونیورس پاکستان کا افتتاحی مقابلہ جیتنے کے بعد شدید تنقید اور غصے کا سامنا ہے۔

ایریکا رابن نے جنوری 2020 میں اپنے پروفیشنل ماڈلنگ کیریئر کا آغاز کیا تھا (ایریکا رابن انسٹاگرام اکاؤنٹ)

گذشتہ ہفتے جمعرات کو 24 سالہ ایریکا رابن نے مالدیپ میں منعقدہ مس یونیورس پاکستان کا افتتاحی مقابلہ جیتا۔ یہ کراچی میں پیدا ہونے والی ایریکا رابن کے لیے جشن کا لمحہ ہونا چاہیے تھا، لیکن اس کے برعکس انہیں ملک میں غصے کی لہر کا سامنا کرنا پڑا، جو حکومت میں اعلیٰ سطح تک دیکھی گئی۔

مسلم اکثریتی ملک پاکستان نے پہلے کبھی عالمی مس یونیورس مقابلے میں حصہ نہیں لیا، یہی وجہ ہے کہ ایریکا رابن کی جیت پر سیاست دانوں، مذہبی رہنماؤں اور ملک کے نگراں وزیراعظم کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ واضح نہیں ہے کہ آیا فیشن ماڈل کو نومبر میں ایل سلواڈور میں ہونے والے 72 ویں عالمی مس یونیورس مقابلے میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں۔

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی حکومت نے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی سے مقابلے کے منتظمین کے بارے میں تحقیقات کرنے کو کہا ہے کہ وہ حکومت کی منظوری کے بغیر بظاہر ملک کے نام پر مقابلہ کروانے میں کس طرح کامیاب ہوئے۔

انوار الحق کاکڑ نے مالدیپ میں مقابلے کے انعقاد کو ’شرمناک فعل‘ اور ’پاکستان کی خواتین کی توہین اور استحصال‘ قرار دیا ہے۔

ایریکا رابن کون ہیں؟

ایریکا رابن نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈگری حاصل کی ہے۔ انہوں نے جنوری 2020 میں اپنے پروفیشنل ماڈلنگ کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ ان کی تصاویر دیوا میگزین سمیت کئی جرائد میں شائع ہوچکی ہیں۔

انہوں نے حال ہی میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے کندھوں پر بہت زیادہ ذمہ داری محسوس کرتی ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ یہ پہلا موقع ہوگا جب پاکستان عالمی مس یونیورس مقابلے میں شریک ہوگا۔

بقول ایریکا: ’تاہم میں ایسا کچھ نہیں کروں گی، جس سے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچے۔‘

مالدیپ کے علاقے را اٹول میں واقع برینیا کوٹیفارو ریزورٹ میں منعقدہ ایک تقریب میں جمعرات (14 ستمبر) کو ایریکا کو (مس یونیورس پاکستان کا) فاتح قرار دیے جانے کے بعد سے شدید ردعمل سامنے آیا۔

اسلامی سکالر مفتی تقی عثمانی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مقابلے کے منتظمین کے خلاف کارروائی کی جائے اور اس تاثر کو زائلکیا جائے کہ ایریکا رابن ’پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔‘

ایک اور سیاست دان مشتاق احمد خان نے اس تقریب کو ’پاکستان کی توہین‘ قرار دیا۔ انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ کیا: ’پاکستان میں اس مقابلہ حسن کے منتظمین کون ہیں؟ یہ شرمناک حرکت کون کر رہا ہے؟‘

ایریکا اس مقابلے میں کیسے شریک ہوئیں؟

رواں برس مارچ میں یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ دبئی میں قائم ایجنسی ’یوگن گروپ‘ پہلی بار مس یونیورس مقابلے کا انعقاد کر رہی ہے اور اس نے پاکستانی خواتین سے درخواستیں طلب کی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق یہ ایجنسی مس یونیورس بحرین اور مس یونیورس مصر کی فرنچائزز کی بھی مالک ہے۔

ایریکا رابن نے اس مقابلے میں شرکت کے لیے اپلائی کیا اور سینکڑوں امیدواروں میں سے انہوں نے پہلے ٹاپ 10 اور پھر ٹاپ فائیو میں جگہ بنالی۔

اپنی جیت کے بعد، کراچی سے تعلق رکھنے والی 24 سالہ ماڈل، جو ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں، نے کہا: ’مجھے پہلی مس یونیورس پاکستان ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور میں پاکستان کی خوبصورتی کو اجاگر کرنا چاہتی ہوں۔ ہمارا ایک خوبصورت کلچر ہے۔ جس پر میڈیا بات نہیں کر رہا۔

’پاکستان کے لوگ بہت فیاض، مہربان اور مہمان نواز ہیں۔ اس کے علاوہ، میں ہر ایک کو اپنے ملک کا دورہ کرنے اور انتہائی شاندار پاکستانی کھانوں کو کھانے اور ہماری فطرت، برف پوش پہاڑوں، سبزہ زاروں اور مناظر کو دیکھنے کی دعوت دینا چاہتی ہوں۔‘

رواں برس کے آغاز میں، مس یونیورس پاکستان کے نیشنل ڈائریکٹر اور یوگن گروپ کے بانی جوش یوگن نے دی نیشنل کو بتایا تھا: ’ہم مس یونیورس برانڈ کی ڈائنامکس کو تبدیل کیے بغیر اپنے نقطہ نظر کو مقامی بنانا چاہتے ہیں۔ ہم پاکستان سے تعلق رکھنے والی خواتین کو دکھانے جا رہے ہیں، جو انتہائی پر اعتماد ہیں اور جو اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی کہانیوں کا مظہر ہیں۔‘

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ’سینکڑوں‘ پاکستانی خواتین نے افتتاحی مس یونیورس پاکستان کے لیے درخواستیں دیں۔

یوگن گروپ نے مارچ میں اعلان کیا تھا کہ اس نے مقابلے کے حقوق حاصل کر لیے ہیں۔

مس یونیورس کی آفیشل ویب سائٹ کا کہنا ہے: ’اس بین الاقوامی پلیٹ فارم پر شرکت کرنے والی خواتین دنیا بھر میں اپنی کمیونٹیز اور مداحوں کے لیے متاثر کن رہنما اور رول ماڈل کے طور پر کام کرتی ہیں۔‘

اس سال کے شروع میں پاکستان بھر سے پانچ فائنلسٹ منتخب ہوئی تھیں۔ ایریکا رابن کے ساتھ مقابلہ کرنے والوں میں لاہور کی 24 سالہ حرا انعام، راولپنڈی کی 28 سالہ جیسیکا ولسن، 19 سالہ امریکی نژاد ملیکہ علوی اور پنجاب کی 26 سالہ سبرینا وسیم شامل تھیں۔

ایریکا رابن کو ایک امیدوار کے طور پر متعارف کرواتے ہوئے یوگین گروپ نے اپنے انسٹاگرام پیج پر لکھا: ’ملک کے اقلیتی گروپ سے تعلق رکھنے پر چیلنجوں کے باوجود، وہ اپنا بہترین ورژن بننے کے لیے بہت محنت کرتی ہیں۔ وہ پاکستان میں مثبت تبدیلیاں دکھانے کے لیے ایک آلہ بننا چاہتی ہیں اور ملک میں متنوع کمیونٹی کو اجاگر کرنا چاہتی ہیں۔‘

پوسٹ میں مزید کہا گیا: ’وہ ایسی تنظیموں کے لیے کام کرنا چاہتی ہیں جو تعلیم اور خواتین کو بااختیار بنانے کی وکالت کرتی ہیں۔ اپنے ذاتی سفر کی کہانی سنا کر ایریکا کو امید ہے کہ وہ اپنے خوابوں کی پیروی کے لیے نوجوان پاکستانی لڑکیوں کے لیے امید کی علامت بن سکیں۔‘

فتح اور ردعمل

14 ستمبر کو پہلی بار مس یونیورس پاکستان کی تاج پوشی کو مس یونیورس کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کیا گیا۔ ایریکا رابن کی جیت پر شروع میں پاکستان میں کچھ لوگوں نے جشن منایا، لیکن زیادہ تر ردعمل میں اس پر شدید غصے کا اظہار کیا گیا۔

یہ مقابلہ حکومت کے علم میں اس وقت آیا جب صحافی انصار عباسی نے گذشتہ ہفتے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا: ’مس یونیورس کے مقابلہ حسن میں پانچ پاکستانی لڑکیوں کو ملک کی نمائندگی کرنے کی اجازت کس نے دی؟ یا تو یہ فیصلہ (نگران) وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کیا یا یہ فیصلہ ان کی کابینہ کے کسی رکن یا مشیر نے کیا؟ انہوں نے سوال کیا کہ کیا حکومت پاکستان کی اجازت کے بغیر کوئی پاکستان کی نمائندگی کرسکتا ہے؟‘

جس کے بعد پاکستان میں اطلاعات و نشریات کے نگران وزیر مرتضیٰ سولنگی نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا: ’حکومت اور ریاستِ پاکستان کی نمائندگی ریاست اور حکومت کے ادارے کرتے ہیں۔ ہماری حکومت نے کسی غیر ریاستی اور غیر حکومتی فرد یا ادارے کو ایسی کسی سرگرمی کے لیے نامزد کیا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا شخص یا ادارہ، ریاست/حکومت کی نمائندگی کر سکتا ہے۔‘

پاکستان میں مقابلہ حسن

پاکستان میں اگرچہ مقابلہ حسن میں حصہ لینے پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہے، لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان مقابلوں میں پہنے جانے والے لباس کے ضابطے ان کے اسلامی عقائد کے خلاف ہیں۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں کوئی بھی مقابلہ حسن نہیں ہوا۔ جیو ٹی وی نے رواں ماہ کے شروع میں رپورٹ کیا تھا کہ مس پاکستان یونیورسل 2023 کا تاج پہنائے جانے کے چند ماہ بعد ‘ڈاکٹر کپوتاخی چنچلہ نے سری لنکا میں منعقدہ مس ورلڈ ٹورازم 2023 مقابلے میں فخر کے ساتھ پاکستان کی نمائندگی کی۔‘

مزید کہا گیا کہ وہ ’ویتنام میں پاکستانی پرچم لہرانے‘ کے لیے ایک نئے سفر کا آغاز کر رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2018 میں یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ دونوں ملکوں میں تنازع کے باوجود انڈیا کی مس دیوا سپرانیشنل 2018 ادیتی ہنڈیا اور مس سپرانیشنل پاکستان 2018 انزیلیکا طاہر نے پولینڈ میں ہونے والے مس سپرانیشنل 2018 کے مقابلے میں حصہ لیا۔

سوشل میڈیا پر دونوں بیوٹی کوئینز نے اپنے اپنے ممالک کے پرچم اٹھائے ایک ساتھ پوز دیتے ہوئے لکھا تھا: ’ہمیں امید ہے کہ ایک دن تمام جنگیں رک جائیں گی، ہر تنازع رک جائے گا اور دنیا ایک پرامن جگہ بن جائے گی۔‘

گذشتہ سال کے مس پاکستان ورلڈ مقابلے کی فاتح ڈاکٹر صدف خالد نے کہا کہ انہوں نے ’مثبت امیج کو اجاگر کرنے اور ملک کے روشن اور خوش کن امیج کی نمائندگی کرنے کے لیے‘ مقابلے میں حصہ لیا۔

تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر بیوٹی کوئینز اب پاکستان میں نہیں ہیں۔

نیویارک ٹائمز کی 2008 کی ایک رپورٹ میں، لاہور میں مقیم ایشین-امریکن نیٹ ورک اگینسٹ ابیوز آف ہیومن رائٹس کی بانی آمنہ بٹر کا حوالہ دیا گیا، جن کا کہنا تھا: ’ہم پاکستان میں خواتین کے لیے بنیادی حقوق کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں، جیسے کے شادی کا حق، طلاق کا حق، ملازمت اور تعلیم کے مساوی مواقع، اور مس پاکستان جیسے مسائل اس تحریک کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ایک عام پاکستانی نوجوان خاتون عوامی طور پر بکنی نہیں پہننا چاہتی۔ اس کے لیے اہم چیز مساوی مواقعوں کی موجودگی ہے اور تمام تر توجہ اس پر مرکوز ہونی چاہیے، نہ کہ ایسے مقابلوں پر، جن میں صرف اشرافیہ ہی حصہ لے سکتے ہیں۔‘

انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم کارکن زہرہ یوسف، جو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابق چیئرپرسن بھی ہیں، ان لوگوں میں شامل ہیں جو ایریکا رابن کی حمایت میں سامنے آئے۔

’ڈان‘ اخبار نے ان کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ پہلے ملالہ یوسفزئی اور شرمین عبید چنائے کو برا بھلا کہا گیا اور اب ایریکا رابن کو بھی اسی طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ رویہ غلط اور قابل مذمت ہے۔‘

صحافی ماریانا بابر نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’پاکستان سب کا ہے۔ ہر پاکستانی کہیں بھی، کبھی بھی پاکستان کی نمائندگی کر سکتا ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سٹائل