مس یونیورس انڈونیشیا کی جنسی ہراسانی کی شکایت

خواتین کے وکیل نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ دیگر کئی امیدوار بھی جنسی استحصال کے الزامات کے ساتھ سامنے آئیں گے۔

مس یونیورس کا تاج 12 جنوری 2023 کو نیو آرلینز لوزیانا میں ایک تقریب کے دوران رکھا گیا ہے (اے ایف پی / جوش براسٹیڈ)

مس یونیورس انڈونیشیا کی چھ امیدواروں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں ایونٹ کے منتظمین نے جنسی طور پر ہراساں کیا ہے۔ انہوں نے منتظمین کے خلاف پولیس میں شکایت بھی درج کرائی ہے۔

مس یونیورس انڈونیشیا مقابلے کی امیدواروں کا کہنا تھا کہ انہیں ’جسم کی جانچ‘ کے لیے ایک ایسے کمرے میں برا اتارنے کو کہا گیا جہاں مردوں سمیت 20 سے زائد لوگ موجود تھے۔

امیدواروں کے وکیل کے مطابق انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ اس کے بعد ان کی ’ٹاپ لیس‘ تصویر کھینچی گئی۔

وکیل کا کہنا تھا کہ مبینہ جنسی استحصال مقابلہ حسن کے فائنل سے دو دن قبل ہوئی جوکہ تین اگست کو دارالحکومت جکارتہ میں ہونا تھا۔

منتظمین نے مبینہ طور پر شرکا سے کہا کہ وہ یہ جانچ اس لیے کر رہے ہیں کہ ان کے جسم پر کسی بھی نشان، سیلولائٹ یا ٹیٹو کی جانچ کی جا سکے۔

شکایت کنندگان میں سے ایک نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ انہیں نامناسب انداز میں پوز دینے کے لیے کہا گیا تھا۔

براڈکاسٹر کومپاس ٹی وی نے ان خاتون کا چہرہ دھندلا کیا ہوا تھا، جنہوں نے کہا کہ ’مجھے ایسا لگا جیسے مجھے گھورا جا رہا ہے۔  میں بہت الجھن اور بے چینی کا شکار تھی۔‘

ایک اور امیدوار نے کہا کہ ’مجھے لگا کہ میرے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس نے مجھے ذہنی طور پر متاثر کیا ہے۔ مجھے سونے میں مشکل ہو رہی ہے۔‘

خواتین کے وکیل نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ دیگر کئی امیدوار بھی جنسی استحصال کے الزامات کے ساتھ سامنے آئیں گے۔

جکارتہ پولیس کے ترجمان ٹرونو یوڈو وشنو اینڈیکو نے کہا کہ مقابلے کے شرکا کی جانب سے ایک رپورٹ موصول ہوئی ہے اور معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

مس یونیورس آرگنائزیشن نے منگل کو کہا کہ اسے ان الزامات سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور وہ اس کی تحقیقات کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس (آرگنائزیشن) نے کہا کہ ’مس یونیورس جنسی استحصال اور بے ضابطگیوں کے الزامات کو انتہائی سنجیدگی سے لیتی ہے۔ خواتین کو محفوظ جگہ فراہم کرنا مس یونیورس آرگنائزیشن کی اولین ترجیح ہے۔‘

اگرچہ مقابلوں میں جسم کی جانچ معمول کی بات ہے لیکن شرکا کو کپڑے اتارنے کے لیے نہیں کہا جاتا ہے۔ منتظمین عام طور پر امیدواروں سے ان کا باڈی ماس انڈیکس پوچھتے ہیں۔

اگرچہ انڈونیشیا میں ایک طویل عرصے سے مقابلہ حسن کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے لیکن دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک میں منتظمین قدامت پسند گروہوں کو لے کر محتاط ہی رہتے ہیں۔

2013 میں مس ورلڈ مقابلے کو مذہبی گروہوں کے اعتراض کے بعد اپنا بکنی راؤنڈ ختم کرنا پڑا تھا۔

مس یونیورس مقابلہ، جس کا 73واں ایڈیشن اس سال کے آخر میں ایل سلواڈور میں منعقد ہوگا، جنوب مشرقی ایشیائی اور جنوبی ایشیائی ممالک جیساکہ انڈونیشیا، فلپائن اور تھائی لینڈ میں مقبول ہے۔

شرکا مقابلے جیتنے کے بعد سوشل میڈیا انفلوئنسر، اداکار اور مشہور شخصیات بن جاتے ہیں۔

مس یونیورس آرگنائزیشن کو تھائی لینڈ کے مشہور میڈیا ٹائیکون اور خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی وکیل جاکاپونگ ’این‘ جاکرجوتاٹیپ نے گذشتہ سال خریدا تھا۔

20 لاکھ ڈالر کے معاہدے کے بعد تھائی ٹرانس جینڈر خاتون نے کمپنی کو از سر نو تشکیل دینے پر کام کیا ہے تاکہ ٹرانس جینڈر، اکیلی اور شادی شدہ خواتین کو زیادہ شامل کیا جا سکے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن