عورت مارچ کے کئی شہروں میں افغانوں کے حق میں مظاہرے

کراچی میں اتوار کو عورت مارچ کے رہنماؤں اور ارکان نے افغان پناہ گزینوں کے حق میں مظاہرہ کیا جس میں سول سوسائٹی سے منسلک افراد نے بھی شرکت کی۔

کراچی میں 29 اکتوبر 2023 کو عورت مارچ کی طرف سے منعقدہ مظاہرے میں شریک افراد پاکستان سے افغانوں کی ملک بدری کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ورت مارچ کے رہنماؤں اور ارکان نے حکومت پاکستان کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کی بیدخلی کے فیصلے کے خلاف کراچی سمیت ملک کے کئی بڑے شہروں مظاہرے منعقد کیے ہیں جن میں سول سوسائٹی نے بھی شرکت کی۔

عورت مارچ کی رہنما سارہ ملکانی نے کہا کہ ’عورت مارچ کا افغان پناہ گزینوں کے حق میں مارچ کرنے کا مقصد یکم نومبر، 2023 تک افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کی مخالفت کرنا تھا۔‘

حکومت پاکستان نے غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکی شہریوں کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دے رکھا ہے جس کے بعد حکومت کے مطابق یکم نومبر سے ایسے افراد کو بے دخل کر دیا جائے گا اور ان کی املاک ضبط کر لی جائیں گی۔ 

نگران حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے پس منظر میں کیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں قومی پریش کلب کے سامنے بھی احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا جس میں سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے حکومت پت اپنا فیصلہ واپس لینے کے لیے زور ڈالا۔

نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے 26 اکتوبر کو کہا تھا کہ ’یکم نومبر کے بعد ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی افراد کے انخلا کے معاملے میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔‘

سارہ کا مزید کہنا ہے کہ ’ہم حکومت  کے فیصلے سے سخت پریشان ہیں۔ یہ پناہ گزین کئی دہائیوں سے افغانستان میں طالبان کی جابرانہ حکومت سے فرار ہو کر پاکستان میں حفاظت کے خواہاں ہیں اور انہیں بین الاقوامی قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہے۔‘

کراچی پریس کلب کے باہر ہوئے مظاہرے کے بعد سارہ ملکانی نے کہا کہ ’یو این ایچ سی آر کے ساتھ 1993 کے تعاون کے معاہدے کے تحت پاکستان کو اس کی وابستگی کی یاد دلانا بہت ضروری ہے، جو کہ پناہ گزینوں کی ان کے آبائی ملک میں جبری واپسی پر پابندی عائد کرتا ہے۔‘

’موجودہ پالیسی اس اصول کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بہت سے افغان پناہ گزین جنگ اور شدید تشدد سے بچ گئے ہیں، اور طالبان کی جابرانہ حکومت کے تحت زندگی گزارنے سے خوفزدہ ہیں۔ یہ ایک مکمل اور اصل حقیقت ہے کہ افغانستان میں خواتین کو منظم طریقے سے کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان شہریوں کو قانونی مدد فراہم کرنے والی ایک وکیل منیزہ کاکڑ کہتی ہیں کہ ’ہم اس حقیقت پر دباؤ ڈالنا چاہیں گے کہ جو لوگ کئی دہائیوں سے پاکستان میں رہ رہے ہیں انہیں 30 دنوں کے اندر افغانستان واپس جانے کے لیے کہنا غیر انسانی ہے۔‘

منیزہ کاکڑ نے کہا کہ ’اس سے ان کی زندگی اور معاش متاثر ہو گا، انہیں اپنے کاروبار کو سمیٹنے کے لیے بمشکل وقت ملے گا۔ یہ پالیسی خاندانی علیحدگی کا باعث بنے گی، خاص طور پر غیر رجسٹرڈ خاندان کے اراکین کو متاثر کرے گی، جس کے نتیجے میں بچے اپنے والدین (بزرگان) سے الگ ہو جائیں گے۔‘

’ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان غیر آئینی اقدامات کو واپس لے۔‘

جینڈر انٹریکٹیو الائنس کے پلیٹ فارم سےخواجہ سرا شہزادی رائے بھی مارچ کا حصہ بنیں جہاں انہوں نے کہا کہ ’نگران حکومت کا یہ اختیار نہیں کہ وہ اتنے بڑے فیصلے لے جس سے ہماری خارجی پالیسی متاثر ہو۔‘

’ہمارے 280 خواجہ سرا سندھ میں پناہ گزین ہیں وہ  افغان مہاجرین میں سے ہیں اگر وہ واپس گئے تو ان کی جان خطرے میں ہو گی انہیں مار دیا جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان