ایران کا خود پر عائد ایٹمی پابندیاں کم کرنے کا اعلان

امریکی سفارتکاربرائن ہک کا کہنا تھا کہ اگر آپ تاریخ پر نظر ڈالیں تو اسلامی جمہوریہ ایران کی 40 سالہ تاریخ میں وہ چوہے بلی جیسے سفارتی کھیل میں ماہر ہے۔ وہ ایٹمی  پروگرام کی دھمکی دے کر رقم نکلوانے میں مہارت رکھتا ہے۔

ایرانی صدر کے مطابق سینٹری فیوجز کے لیے تحقیق اور تیاری کے دائرے میں ممکنہ توسیع جمعے سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ایران نے یورنیم افزودہ کرنے والی ٹیکنالوجی کے ڈیزائن اور تیاری پر عائد پابندیاں از خود ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے حوالے سے مبصرین اسے ایران کے ایٹمی پروگرام میں کسی قدر کم درجے کی توسیع قرار دے رہے ہیں۔

بدھ کو ایرانی صدر حسن روحانی نے اعلان کیا کہ ایرانی حکومت اپنے سائنس دانوں کو جدید سینٹری فیوجز کی تیاری کے لیے تحقیق کا عمل تیز کرنے کی اجازت دے رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایران 2015 میں طے پانے والے مشترکہ جامع پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے ایک حد تک عہدہ برا ہو جائے گا۔

جے سی پی او اے وہ ایٹمی معاہدہ ہے جو ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین سمیت جرمنی اور یورپی یونین کے ساتھ کیا تھا۔ ٹرمپ دور حکومت میں اس معاہدے سے امریکی علیحدگی کے بعد یہ معاہدہ خطرے سے دوچار ہے۔

ایرانی صدر نے کہا: ’ادارہ برائے ایٹمی توانائی کو ذمہ داری دے دی گئی ہے کہ ایران میں تحقیقی شعبے کی جو بھی ضروریات ہیں انہیں پورا کرنے کے لیے فوری طور پر کام شروع کر دیا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’سابقہ ایٹمی معاہدے کے تحت جو بھی طے پایا تھا اسے ایک طرف رکھ دیا جائے گا۔ ہم سینٹری فیوجزکے شعبے میں تحقیق اورانہیں بالکل تیار دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان میں تمام اقسام کی جدید سینٹری فیوجز شامل ہیں۔‘

سینٹری فیوجز کے لیے تحقیق اور تیاری کے دائرے میں ممکنہ توسیع جمعے سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے کہ ایران نے نے ایٹمی معاہدے کے حوالے سے اپنے اوپر عائد پابندیوں سے پہلوتہی کی ہے۔

جے سی پی او اے معاہدے کے تحت ایرانی ایٹمی پروگرام محدود کردیا گیا تھا اور اس کے بدلے میں اسے مغربی ممالک کے ساتھ معمول کے تجارتی تعلقات کی اجازت دی گئی تھی۔ امریکہ نے اس ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی اور گذشتہ برس اعلان کیا کہ ایٹمی پروگرام کے معاملے میں ایران کے ساتھ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اختیار کی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے بین الاقوامی تجارت اور سرمائے پر اپنے غلبے کو استعمال کیا جس کے تحت امریکہ کسی بھی ایسے ملک کا بائیکاٹ کر سکتا ہے جو ایران سے تیل خریدے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی مخالفت کے تناظر میں یورپی ممالک بھی ایران کے ساتھ ہونے والا ایٹمی معاہدہ بچانے کی جدوجہد کوشش کر رہے ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون ایران کو 15 ارب ڈالر کے قرضے کی پیشکش کر کے معاہدے کو فوری طور ختم ہونے سے بچانے کی کوشش کر چکے ہیں، لیکن وہ ابھی تک ٹرمپ انتظامیہ کو قائل کرنے میں ناکام ہیں کہ وہ معاہدے کو نقصان پہنچانے سے باز رہیں۔

امریکی حکام کی جانب سے اخبار فنانشل ٹائمز کی اس رپورٹ کی تصدیق ہو چکی ہے کہ امریکی وزارت خارجہ میں ایران کے معاملے پر کام کرنے والے سفارت کار برائن ہک نے تیل بردار ایرانی بحری جہاز کے کپتان کو ای میل کی تھی جس میں انہیں پیشکش کی گئی تھی کہ وہ 30 لاکھ ڈالر لے کر جہاز کو شمالی یا جنوبی امریکہ کے کسی ملک کی طرف لے جائیں۔

ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے میں شامل دیگر ملک برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس ایران کی تباہ حال معیشت کی بہتری کے لیے کوئی پروگرام سامنے لانے میں ناکام رہے تو دو ماہ میں ایٹمی پروگرام میں مزید توسیع شروع کر دی جائے گی۔

ایرانی صدر نے کہا: ’اگر ہم کسی معاہدے پر پہنچ گئے تو ہم ایٹمی معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے۔‘

ٹرمپ انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے ایران کے اعلان کو بلیک میل کرنے کی کوشش قرار دے کر مسترد کر دیا ہے اور ایک بار پھر کہا ہے کہ ایران یورنیم افزودہ نہ کرے۔

عموما ایسے ممالک جن کے پاس پرامن مقاصد میں استعمال ہونے والے ایمٹی پروگرام ہیں، انہیں ایٹمی ری ایکٹر کے لیے ایندھن کی اندرون ملک تیاری کے مقابلے میں غیرملکی ایندھن خریدنا سستا پڑتا ہے۔

امریکی سفارت کار برائن ہک نے بدھ کو رپورٹروں کو بتایا: ’اگر آپ تاریخ پر نظر ڈالیں تو اسلامی جمہوریہ ایران کی 40 سالہ تاریخ میں وہ چوہے بلی جیسے سفارتی کھیل میں ماہر ہے۔ وہ ایٹمی  پروگرام کی دھمکی دے کر رقم نکلوانے میں مہارت رکھتا ہے۔ پرامن ایٹمی پروگرام کے لیے ایران کو طاقتور ایٹمی مواد تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

ایرانی ایٹمی توانائی کے ادارے کے ترجمان بہروز کمال وند نے نے رپورٹروں کو بتایا: ’دو قسم کی صورت حال سامنے ہے۔ ایک کے تحت ہم بوشہر کے ایٹمی پاور پلانٹ میں یورنیم کی افزودگی 3.67 فیصد سے بڑھا کر پانچ فیصد کر دیں گے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تہران کے تحقیقی مقاصد کے لیے بنائے گئے ری ایکٹر میں یورنیم کو 20 فیصد تک افزودہ کیا جائے۔ دونوں صورتوں میں اس کا مطلب 3.67 کی حد سے آگے جانا ہو گا۔ دوسری ضروریات سامنے آنے کی صورت میں اس میں مزید اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔‘

جمعرات کو ایران کے پرانے مخالف اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ برطانوی حکام سے ملاقاتوں کے لیے ایران پر دباؤ بڑھائیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ شمالی کوریا والے انداز میں بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن ان کی انتظامیہ ایران پر مسلسل دباؤ بڑھا رہی ہے۔ آج امریکہ نے تیل کی ترسیل کے ایرانی نیٹ ورک پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ تیل کی ترسیل کا نیٹ ورک ایران کے پاسداران انقلاب سے منسلک ہے۔ امریکہ نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ایسی معلومات دینے والے کو ڈیڑھ کروڑ ڈالرتک انعام دیا جائے گا جن کی بنیاد پر پاسداران انقلاب کی کارروائیاں روکی جا سکیں۔

ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے برائن ہک نے وزارت خارجہ میں بریفنگ کے دوران رپورٹروں کو بتایا کہ ایران پر ایسی مزید پابندیاں لگائی جائیں گی۔

’ہم اسے اس سے زیادہ واضح نہیں کر سکتے کہ ہم زیادہ سے زیادہ دباؤ کی مہم جاری رکھیں گے۔‘

اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق برائن ہک نے ایرانی تیل بردار جہاز کے کپتان کو براہ راست ای میل کا ٹیکسٹ پیغام بھی بھیجا تھا جس میں انہیں جہاز پر لدا تیل منزل پر پہنچانے کے معاملے پر ڈرانا تھا۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا