9/11 کی کہانی امریکن ایئرلائن کی پہلی خاتون پائلٹ کی زبانی

گیارہ ستمبر 2001 کو بیورلی باس ان 38 جہازوں میں سے ایک کی کپتانی کر رہی تھیں جنہیں کینیڈا کے ایک جزیرے گینڈر میں ہنگامی طور پر اترنا پڑا۔ انہوں نے 18 برس بعد گینڈر کی مہمان نوازی کے حوالے سے گفتگو کی۔

بیورلی باس 1986 میں (بیورلی باس/امریکن ایئر لائنز)

’خواتین و حظرات کپتان بیو آپ سے مخاطب ہے۔ اس وقت امریکہ کو ایک شدید ہنگامی صورت حال کا سامنا ہے اور تمام امریکی فضائی حدود بند کی جا چکی ہیں۔ ہم اپنا جہاز کینیڈا کے صوبے نیو فاؤنڈ لینڈ کے جزیرے گینڈر میں اتارنے جا رہے ہیں۔‘

کپتان بیورلی باس نے یہ الفاظ 11 ستمبر 2001 کو شمالی اٹلانٹک پر دورانِ پرواز ایک بوئنگ 777 پر سوار اپنے مسافروں کے لیے ادا کیے۔

بیورلی باس امریکن ایئرلائنز کی تاریخ کی پہلی خاتون کپتان ہیں اور11 ستمبر کو کینیڈا کے ’آپریشن یلو ربن‘ کے تحت گینڈر میں ہنگامی طور پر اتارے جانے والا یہ اڑتیسواں طیارہ تھا۔

یہ سب اُس وقت ہو رہا تھا جب نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاور فضائی دہشت گردی کی لپیٹ میں آ چکے تھے۔

کپتان باس ان 38 طیاروں کے مسافروں اور عملے سمیت جزیرہ گینڈر کے ایئرپورٹ پر ہنگامی طور پر پناہ لینے والے 7000 افراد میں سے ایک تھیں، جس نے گینڈر کی کُل دس ہزار آبادی کو اُس دن تقریباً دو گنا کر دیا تھا۔

ان تمام جہازوں کے افراد اور عملہ آئندہ چھ دنوں تک اسی جزیرے پر پناہ لینے پر مجبور تھے لیکن گینڈر والوں نے اپنی مہمان نوازی اور فراخ دلی کو کینیڈا کے سب سے طویل عرصے تک چلنے والے میوزیکل ’کم فرام اوے‘ کی صورت میں لافانی کر دیا تھا۔

اسی میوزیکل میں سب سے مشہور گانا ’می اینڈ دا سکائے‘ ایک تخیلاتی بیورلی باس کی تمام زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کا آغاز کچھ ان الفاظ میں ہوتا ہے ’میرے والدین نے سوچا ہو گا ان کی بیٹی دیوانی ہے کیونکہ میں ان بچوں میں سے تھی جو ہمیشہ جانتے ہیں کہ انہیں کیا چاہیے۔۔۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1952 میں فورٹ مائیرز میں جنم لینے والی باس کا کہنا تھا بچپن ہی سے ان کے اندر ڈرامائی تجسس کے جراثیم نمایاں تھے۔ ’اگر زندگی کے اوائل دن یاد کروں تو چار برس کی عمر ہی سے مجھے اڑان بھرنا اچھا لگتا تھا۔‘

وہ انتہائی نرم ٹیکساس والے لہجے میں بولیں ’لیکن یہ اڑان بھرنا جہازوں کا نہ تھا۔‘ ان کے بقول وہ اپنے پڑوسیوں کے ’ایکرس‘ کے مجسمے کو دیکھا کرتیں جس نے اتنی اونچی اڑان بھری کہ اس کے مومی پر سورج کی تمازت سے پگھل گئے تھے اور وہ آسمان سے زمین پر آ دھرا تھا۔

تاہم انہوں نے اس منظر سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا تھا۔ ’میں واپس گھر آئی، کچن کے کاؤنٹر سے اڑان بھری اور زمین پر منہ کے بل گری اور ظاہر ہے نیل اور زخموں سے بھر گئی تھی۔‘

خوش قسمتی سے جب وہ آٹھ برس کی ہوئیں تو قومی ہوا باز کمپنی نے بوئنگ 727 متعارف کرا دیے تھے جو ہر رات ٹیمپا شہر سے فورٹ مائیرز کے ہوائی اڈے تک اڑائے جاتے تھے۔

ایسے میں باس کی خالہ انہیں اپنی واکس ویگن بیٹل پر بٹھا کر زنجیر کی طرز کے باڑ سے جہاز دکھانے لے جایا کرتیں تھیں۔ باس کہتی ہیں ’مجھے یاد ہے کہ میں سوچا کرتی تھی ہوا بازوں کی ملازمت دنیا کی سب سے زبردست ہے اور یہ وہی دن تھے جب میں نے بھی گھر میں اپنے ہوا باز بننے کا اعلان کیا۔‘

گینڈر کے ہوائی اڈے کا رن وے۔

گھوڑوں کے اصطبل کے مالکان کی بیٹی باس کے منہ سے نکلنے والی یہ ایک منفرد خواہش تھی اور وہ بھی ایک ایسی لڑکی جو رات کو اپنے والد کے ہمراہ کاندھے پر رائفل لٹکائے گھوڑے پر سوار شکار کے لیے جاتی ہو۔

وہ تینوں اس طرح ہر اختتام ہفتہ یہ اصطبل دس برس تک بغیر کسی تربیت کار کے چلاتے رہے۔ یہ بتاتے ہوئے باس کے لہجے کی سختی نمایاں تھی کہ ’اس طرح مجھے لڑکوں اور پارٹیوں سے دور رکھا گیا۔‘

ان کے والدین نے کبھی باس کی حوصلہ شکنی تو نہیں کی لیکن جب تک ان کے والدین نے اپنی رینچ فروخت نہ کی اور باس ٹیکساس کرسچن یونیورسٹی پڑھنے کے لیے نہیں چلی گئیں وہ بزات خود ہوا باز بننے کے لیے سنجیدہ نہیں ہوئی تھیں۔ پھر جیسے ہی یونیورسٹی میں ان کا پہلا سال مکمل ہوا انہوں نے فلائٹ سکول میں داخلہ لے لیا۔

باس روزانہ صبح پہلے یونیورسٹی جاتیں، جہاں وہ انٹیریئر ڈیزائن اور ہسپانوی زبان میں ڈبل میجرز کر رہی تھیں، پھر وہ فلائٹ سکول جاتیں جہاں انہیں رات کے نو بج جاتے اور چھ گھنٹے تربیت چلتی۔

باس نے ہنستے ہوئے بتایا ’اور اس طرح میری کالج کی زندگی تمام ہوئی، میں کسی ڈیٹ یا پارٹیوں میں نہیں جاسکی۔‘

ہوا بازی میں ان کی پہلی ملازمت بھی قطعی دلچسپ نہ تھی۔ ان کے سکول کا ایک جہاز ’مُردوں کی تدفین‘ کا بندوبست کرنے والے وائن سٹائلز کا بھی تھا۔

ایک دن انہیں ایک لاش آرکنساس پہنچانی تھی لیکن اتفاق سے اُس دن کوئی مرد پائلٹ موجود نہ تھا لہذا باس نے یہ ڈیوٹی رضاکارانہ طور پر قبول کی اور پہلی فضائی اڑان بھری۔

باس کے بقول ’یہ لاش ایک 19 سالہ لڑکی کی تھی جو نشہ آور دواؤں کی زیادتی سے ماری گئی تھی، تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ ملازمت مجھے حادثاتی طور پر ملی۔‘

باس پانچ ڈالر فی گھنٹہ کے عوض دو سال تک وہ چھوٹا سا جہاز اڑاتی رہیں، جو چار نشستوں پر مشتمل تھا اور جس میں ایک تابوت بھی بمشکل سما سکتا تھا۔

دو سیٹیں تو نکال دی گئیں تھیں اور اگلی داہنی سیٹ بھی فولڈ کر دی جاتی تھی۔ ’لاش سٹریچر سے بندھی ہوئی تھی جسے ایک چادر سے ڈھانپا گیا تھا۔ وہ بالکل میرے ساتھ رکھی تھی۔ سٹریچر کو جہاز میں لانے کے لیے ایک جانب موڑا جاتا تھا جس سے چادر ہمیشہ گر جاتی تھی۔ مجھے اس کے چہرے پر سے گزر کر اپنی نشست تک پہنچنا پڑتا تھا۔‘

وہ یاد کر کے کہتی ہیں بعض اوقات لاشیں اتنی بری حالت میں ہوتی تھیں کہ انہیں سٹریچر پر نہیں ڈالا جاسکتا تھا۔ ایک شخص کی موت فضائی حادثے میں ہوئی تھی اور وہ انہیں اس کے والدین کے پاس لے جا رہی تھی، اس کی باقیات ایک کوڑے کے بیگ میں تھیں اور اس کا یونیفارم دوسرے تھیلے میں۔

وہ ہر روز کالج جاتیں اور دوپہر میں مُردوں کو ملک کے دیگر حصوں تک پہنچاتیں یا پھر کہیں سے اٹھا کر یہاں لاتیں۔ ان کے مطابق واحد مسئلہ تیزابی دوا کی بو کا تھا جو ان کی آنکھوں کو تر اور بینائی محدود کر دیتی تھی۔

کسی لاش کے ساتھ بحیثیت شریک پائلٹ پانچ ڈالرز فی گھنٹہ سے وہ فلائٹ انسٹرکٹر، ایک چارٹر محکمے کی چیف پائلٹ، دو کارپوریشنوں کے لیے پائلٹ اور راک ویل کے لیے شبینہ پروازوں کے ذریعے انہوں نے اتنے مقررہ گھنٹوں کی فلائٹس مکمل کیں کہ وہ امریکن ایئرلائنز کے لیے انٹرویو دے سکیں۔  

باس کا کہنا تھا ’یہ وہ دور تھا جب ایئرلائنر اور دہشت گردی جیسے الفاظ سننے میں آنا شروع ہوئے تھے، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ زندگی بدل رہی تھی۔‘

باس کا ماننا تھا ان کے لیے ’ٹیررزم‘ کا لفظ دنیا کے کسی اور کونے میں ہونے والی دہشت گردی کا حوالہ تھا اور وہ اس سے زیادہ کچھ نہ سمجھ سکی تھیں۔

اکتوبر 1976 میں باس امریکن ایئرلائنز کی تیسری خاتون پائلٹ قرار پائیں۔ ان سے تین سال قبل بون تبورزی پہلی خاتون پائلٹ تھیں۔ امریکن ایئرلائنز کی سینیارٹی لسٹ میں یہ تینوں خواتین شامل تھیں اور جو جلد ہی آپس میں گھل مل بھی گئیں۔

باس کا کہنا تھا ’ہم تینوں چار ہزار مردوں کی فلیٹ میں ایک طرح سے دخل انداز ہوئی تھیں، جب بھی ہم امریکہ میں ٹرمنلز پر ہوتے، لوگ ہمارے بارے میں سرگوشیاں کرتے، ہمیں تاکتے، مسکراتے اور قریب ہو کر بات بھی کرتے۔ ہم تینوں جیسے ان کے درمیان عجوبہ تھیں، کیونکہ اُس زمانے میں عورت کا ہوا باز ہونا کسی انوکھی بات سے کم نہ تھا۔ لوگوں کے ذہنوں میں پائلٹ کا تصور صرف گھنے بالوں والے خوبرو مرد ہوا کرتے۔‘

اپنے استادوں اور کلاس فیلوز کے درمیان باس ایک خوشگوار اضافہ تھیں۔ ’وہ سب میرے ساتھ بہت اچھے تھے۔ میں اپنی کلاس میں سب سے کم عمر ہونے کے باعث سب کی ہر دل عزیز تھی۔ وہ سب 28 یا 29 سال کے تھے اور میں ان کی چھوٹی بہن کی طرح تھی، میرے استاد میرے واحد خاتون پائلٹ ہونے پر نازاں تھے۔‘

پھر گریجویشن کے بعد پہلے فلائٹ انجینیئر بنیں اور پھر شریک پائلٹ، تو کہانی بقول باس مختلف تھی۔ آپ کو یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ پائلٹ کا تصور صرف مرد کا رہا ہے، ایسے میں اس کے ہمراہ کاک پٹ میں خاتون ایویئٹر کا ہونا ایک نئی انہونی تھا۔

’ایک بار جب میں کاک پٹ میں داخل ہوئی اور ایک کپتان سے اپنا تعارف کرانے لگی تو وہ منہ پھیر کر چلے گئے اور پوری پرواز مجھ سے مخاطب نہ ہوئے، میری جانب دیکھا بھی نہیں۔ میں اس وقت امریکن ایئرلائنز کی نئی واحد خاتون معاون پائلٹ تھی۔ وہ دوران پرواز کچھ نہ بولے۔‘

’مجھے لگا کہ وہ مجھے جہاز چلانے کا موقع نہ دیں گے لیکن رن وے پر جہاز اتارنے کے بعد انہوں نے اپنا گلا صاف کیا اور بولے یہ تمہارا جہاز ہے اور واپسی کی پرواز میں لے کر آئی۔ اس دوران انہوں نے بات چیت کرنا شروع کی۔‘

’میرا خیال ہے وہ پہلے اس تصور کو ہی نہیں تسلیم کر پا رہے تھے کہ کاک پٹ میں ایک عورت بھی ہو سکتی ہے اور وہ جہاز اڑا سکتی ہے، لیکن جب ان کے دل و دماغ یہ مان گئے تو وہ نارمل ہوئے اور اس طرح میں ان کی دنیا میں تسلیم کی جا چکی تھی۔‘

باس آج کی نوجوان خواتین پائلٹوں سے کہتی ہیں وہ خود منوانے کی کوشش نہ کیا کریں۔ ’میں نے ہمشہ میک اپ بھی کیا اور زیور بھی پہنا، کیونکہ پہلے میں ایک عورت ہوں اور پھر پائلٹ۔‘

جہاں تک ’می اینڈ دا سکائے‘ نغمے کا تعلق ہے تو یہاں سے ہمیں باس کی کہانی ایک نیا رخ لیتے ملتی ہے، جس میں وہ میوزیکل میں گاتے ہوئے کہہ رہی ہیں ’ورلڈ وار ٹو کے پائلٹ شکایت کرتے ہیں کہ کاک پٹ میں لڑکیوں کا کیا کام اور انہیں کاک پٹ میں نہیں ہونا چاہیے۔ چلو چلو پیاری لڑکی مجھے شربت کا ایک گلاس تو لا دو۔‘

لیکن حقیقی زندگی میں باس کا کہنا ہے 50 سالہ ہوا بازی کے دوران ان کے ساتھ مرد پائلٹوں میں سے صرف ایک بار تلخ تجربے کا سامنا ہوا۔ ورلڈ وار ٹو کے ہوا بازوں کے لیے بڑا سحر انگیز ہوتا کہ ان کے ساتھ ایک خاتون پائلٹ بھی کاک پٹ میں موجود ہو۔

باس بناوٹی غصے سے بولیں ’میرے ساتھ تو کبھی کسی نے کاک پٹ میں فلرٹ بھی نہیں کیا اور امریکن ایئرلائنز میں، میں آٹھ سال تک سنگل رہی۔ کبھی کبھی میرے معاون پائلٹ کہا کرتے کہ وہ شرطیہ کہہ سکتے ہیں ہر مرد پائلٹ کے دل میں تمہیں دیکھ کر گھنٹیاں بجی ہوں گی اور میں ہنستی کہ مجھے تو کبھی کسی نے ایک ڈرنک کی دعوت بھی نہ دی، جس پر وہ کہتے سب تم سے یقیناً ڈرتے ہوں گے۔‘

’اور شاید وہ ٹھیک ہی کہتے تھے۔‘

باس کی اپنی بیٹی، جو پائلٹ ہیں، کے ساتھ ایک تصویر۔


باس کی بیٹی ’اینوائے‘ ایئرلائنز کی پائلٹ ہیں اور اب کپتانی کی تربیت شروع کرنے والی ہیں۔ میں نے باس سے کہا سبھی نئے ہوا بازوں نے آپ کے بارے میں سن رکھا ہوگا اور ان کا جواب تھا ’بدقسمتی سے ہاں۔‘

جب باس ’می اینڈ دا سکائے‘ نغمے کے اس حصے کی طرح جس میں گلوکارہ کہتی ہیں، ’1986 امریکی تاریخ کی پہلی خاتون ہوا باز‘، اپنی تقرری کے دس سال بعد بھی انہیں کسی غصے کی توقع نہ تھی۔  لیکن ان کا ادارہ ان پر کافی فخر کرتا تھا اور اس کی تشہیر سے بھی باز نہ رہتا۔ 

بقول باس ’تقریباً روز ہی لوگوں کا سیمولیٹر پر ہجوم ہوتا جو اکژ کھڑکی سے بھی مجھے دیکھا کرتے۔ اگر مجھ سے کوئی چوک ہوتی تو اس کی بھی ہر کسی کو خبر ہو جاتی۔ لوگوں میں بہت زیادہ مقبولیت تھی، مجھے اپنا آپ پیالے میں تیرتی مچھلی جیسا لگتا۔‘

اور پھر یہ سب کچھ ایک ماہ بعد اہمیت کھو دے گا۔ باس نے واشنگٹن ڈی سی میں کپتان کی پوزیشن سنبھال لی جہاں ایک خاتون فرسٹ آفیسر اور ایک خاتون انجینیئر پہلے ہی موجود تھیں۔

اب تو جہاز میں پائلٹ اور ساتھی پائلٹ ہوتے ہیں، پہلے آپ کو تینوں درکار ہوتے تھے اور اس طرح ہم تینوں عورتوں کی جوڑی خوب جمی۔ ہم ایک دوسرے کی سہولت اور ہم آہنگی سے ڈنڈی مارتے ہوئے اپنا شیڈول بنا لیتے تھے۔

باس کمرشل فلائنگ میں مکمل طور پر عورتوں کا عملہ تشکیل دینے میں کامیاب رہی تھیں، جو دنیا بھر کے اخبارت کی سرخی بنی۔ باس کے بقول ’یہ عمان کے اخبارات کی سب سے بڑی خبر تھی اور تب مجھے عمان کا پتہ بھی نہ تھا۔‘

باس کا اس پہلی فلائٹ کے بارے میں کہنا تھا، ’جیسے ہی جہاز ڈیلاس کے ہوائی اڈے پر اترا، کیمروں نے ہمیں اپنی زد میں لے لیا تھا۔ ہمارا ماننا تھا کہ ہم تینوں عورتیں تھیں اور اسی لیے ہم اکھٹے جہاز اڑانا چاہتی تھیں۔ اور بس۔‘

باس کا اندازہ تھا کہ ’آج بھی دنیا میں یہ بڑی خبر ہے کہ خواتین پائلٹ، کُل ہوا بازوں کا صرف پانچ فیصد ہیں۔‘

وہ افسردگی سے گویا ہوئیں ’مجھے نہیں معلوم ایسا کیوں ہے؟ میں نے تو نوجوان لڑکیوں کو ملازمتیں دینے کی بہت کوشش کی۔ ہم نے 1978 میں خواتین پائلٹوں کی تنظیم انٹرنیشنل سوسائٹی آف ویمن ایئرلائن پائلٹس تشکیل دی۔ جب ہمارا پہلا اجلاس ہوا تو ہم 21 تھیں، آج ہم 600 سے زیادہ ہیں‘۔

’ہم نے تقریباً 14 لاکھ ڈالرز کی سکالرشپس کا بھی بندبست کیا لیکن نہ جانے اب بھی یہ تعداد اتنی کم کیوں ہے اور جس وقت میں نے اس فیلڈ میں قدم رکھا تھا تو بالکل اسی طرح آج بھی لوگ سوچ نہیں سکتے کہ عورت پائلٹ وجود رکھتی ہیں۔‘

باس کا یہ بھی کہنا تھا شاید بعض خواتین سمجھتی ہوں گی کہ خاندان کے ساتھ یہ ملازمت نہیں چل سکتی لیکن ان کا اصرار ہے کہ ایسا نہیں ہے۔

وہ اپنے شوہر ٹام سٹاوکی سے ایک دوست کے ذریعے 1985 میں ملیں جو امریکن ایئرلائنز کے صدر دفتر کے شعبہِ فنانس میں ملازم تھے۔ چار سال بعد ان کی شادی ہوئی اور 1991 میں پہلے بیٹا اور اس سے اگلے سال بیٹی پیدا ہوئی۔

باس کے بقول ’میں نے اپنے بچوں کی زندگی کا کوئی اہم موقع مس نہیں کیا۔ میں بے شک ہر رات ڈیوٹی پر ہوتی لیکن ٹام بچوں کے پاس ہوتے۔ ہماری شادی کو چلانے میں ٹام کا تعاون سب سے اہم تھا‘۔

گیارہ ستمبر 2001 کو کیپٹن بیورلی باس پیرس میں تھیں جہاں کے چارلس ڈی گال سے انہیں ڈیلاس کے بین القوامی ہوائی اڈے کے لیے پرواز کرنی تھی۔ اس دوران انہیں ایئرلائن کے آپریشنز ڈپاٹمنٹ سے کال آئی کہ ان کا جہاز پیرس پہنچ تو گیا ہے لیکن 90 منٹ کی تاخیر سے ان کی روانگی عمل میں آ سکے گی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب سب کچھ بدلنے جا رہا تھا، اگر وہ وقت پر روانہ ہو جاتے تو امریکی فضائی حدود بند کیے جانے سے پہلے ڈیلاس میں ہوتے اور جزیرہ گینڈر پر اترنے کی نوبت نہ آتی۔

باس عملے کے دیگر اراکین کے ساتھ ۔ یہ تصویر 12 ستمبر کو لی گئی۔

باس بتاتی ہیں کہ فضائی ٹریفک کنٹرول کی زبان میں ایک جہاز کی دوسرے جہاز سے فریکوئنسی ملنے کو ’ایئر ٹوایئر‘ کہا جاتا ہے، جس میں ایک کپتان دوسرے سے بات کرسکتا ہے۔ باس کے بوئنگ کے آگے ایک طیارے کے کپتان نے انہیں مطلع کیا کہ ایک جہاز نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا گیا ہے۔

’اُس وقت میں اور میرا شریک پائلٹ لنچ کر رہے تھے۔ ہم نے سوچا کوئی ہلکا پھلکا جہاز ہو گا، ہم یہ نہیں سمجھ سکے تھے کہ دنیا میں یہ کیا ہو چکا تھا۔ ہمیں پتہ تھا موسم اچھا ہے، ہم نے تو اس بارے آپس میں زیادہ بات بھی نہ کی۔ ہم پریشان نہیں تھے اور نہ اس سے زیادہ کچھ سوچا۔ سوائے یہ کہ کوئی چھوٹا سا جہاز ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا گیا ہے۔‘

تقریباً 20 منٹ بعد اسی کپتان نے فریکوئنسی پر بتایا دوسرا ٹاور بھی حملے کی زد میں آیا ہے اور یہ کام کسی چھوٹے جہاز نے نہیں کیا۔ ’اسی خبر کے ساتھ ایئرلائنر اور ٹیررزم کے الفاظ جڑے تھے۔ تو فی الحال زندگی نیا موڑ لے رہی تھی۔‘

جہاز میں مسافروں کو ٹی وی اور ریڈیو کی مدد سے اس واقعے کا ذرا برابر اندازہ نہیں تھا۔ ’آپ میں سے جو ٹی وی یا ریڈیو دیکھ رہے تھے انہیں شاید اندازہ ہو، ہمیں بلکل معلوم نہیں تھا یونائیٹڈ کا ایک طیارہ ٹریڈ ٹاور سے جا ٹکرایا ہے اور یہ ٹی وی پر دیکھا جا سکتا تھا۔ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہ جہاز اغوا کیے جا چکے ہیں۔ ہم صرف ان ہدایات پر عمل کر رہے تھے جو ہمیں دی گئی تھیں۔‘

اس کے کچھ ہی دیر بعد اطلاع ملی کہ نیو یارک کی فضائی حدود بند کی جا رہی ہیں، پھر پتہ چلا کہ پورے ملک کی فضائی حدود بند کر دی گئی ہیں۔ ان اطلاعات کے ملتے ہی باس نے کینیڈا کے بڑے شہروں کے فضائی نظام سے رابطے شروع کیے لیکن جس وقت ان کا جہاز مغرب کی جانب 50 ڈگری کے زاوئیے پر تھا اور یہاں پائلٹ کا سب سے پہلے رابطہ شمالی امریکہ میں گینڈر کنٹرول سے ہو سکا لیکن ان سے ملنے والا پیغام غیر واضح تھا۔

’گینڈر کنٹرول نے ہم سے رابطہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ امریکن 49 فوری طور پر اپنا جہاز گینڈر، نیو فاؤنڈ لینڈ میں اتار دیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب مجھے مسافروں کو آگاہ کرنا تھا۔‘

’شمالی امریکہ کی بالکل دم پر نیو فاؤنڈ لینڈ واقع ہے۔ اس کا ہوائی اڈہ دنیا کے بڑے ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے اور اسی سے جڑا گینڈر کا قصبہ ہے۔‘

میوزیکل ’کم فرام اوے‘ کی ابتدا گینڈر کے میئر کلائیڈ کے ’دی راک‘ کے تعارف سے ہوتی ہے جو اپنے اکیلے پن کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ گینڈر ’دنیا کے کونے پر ہے جہاں دریا سمندر سے ملتے ہیں۔‘

باس کی گینڈر کے میئر کلائیڈ ایلیٹ کے ساتھ ایک یادگار تصویر۔

لیکن ان حالات میں یہ علاقہ انگلینڈ اور شمالی امریکہ کے درمیان ہنگامی لینڈنگ اور جہازوں میں ایندھن بھرنے کے لیے مناسب ترین تھا۔

نیو فاؤنڈ لینڈ ایئرپورٹ کو 1938 سے کاروباری سرگرمیوں کے لیے بھی کھول دیا گیا تھا۔ پھر 1949 میں جب ٹرانس اٹلانٹک پروازیں اس روٹ پر گزرنے لگیں تو اس کا نام بدل کر ’گینڈر انٹرینشنل ائیر پورٹ‘ رکھ دیا گیا۔ اس کے ردعمل میں علاقے کی زیادہ تر سڑکوں اور مقامات کے نام مشہور ہوا بازوں کے نام پر رکھے گئے ہیں۔

اس میوزیکل کے ’ویلکم ٹو دا راک‘ والے پارٹ میں گینڈر کے لوگ یہ بتاتے ہیں کہ وہ 11 ستمبر کی صبح کیا کر رہے تھے، جب تک کہ انہیں اس سانحے کی خبر ریڈیو سے ملی کہ امریکی فضائی حدود بند کر دی گئی ہیں اور ہنگامی طور پر تمام جہازوں کا رخ گینڈر کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔

باس نے اس صبح گینڈر ایئرپورٹ پر اپنا جہاز سوا دس بجے اتارا۔ اس روز گینڈر میں لینڈ کرنے والا یہ اڑتیسواں اور آخری جہاز تھا۔ اس ہنگامی صورت حال میں اُس دن وہاں تمام جہازوں کے عملے اور مسافروں سمیت سات ہزار اضافی لوگ موجود تھے۔

گینڈر کی آبادی تین گھنٹوں میں دگنی ہو چکی تھی۔ اس روز گینڈر کی تمام کمیونٹی عمارتیں ان افراد کے لیے پناہ گاہوں میں بدلی جا چکی تھیں اور مقامی لوگ مسافروں کے لیے خوراک، دواؤں، بستر اور کمبلوں کی فراہمی پر آمادہ تھے۔ باس کو بعد میں پتہ چلا تھا اس رات گینڈر والوں نے دو ہزار کے قریب ادویات بھی مہیا کیں۔

تمام جہاز گینڈر ایئرپورٹ پر اتار لیے گئے تھے۔ یہاں یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ اس سے قبل باس سمیت فلائٹ کے تمام مسافر 28 گھنٹے جہاز ہی میں ہی بند تھے۔ میوزیکل کا نغمہ ’28 آورز وئیر ایور وی آر‘ انہی پنجرے میں بند مسافروں کی داستان سناتا ہے۔

باس یاد کرتی ہیں کہ ’ماحول بہت اچھا تھا۔ چند ایک موبائل فونز جو مسافروں کے پاس موجود تھے انہیں معلومات کی فراہمی کے لیے استعمال کیا گیا۔ دراصل ان کی معلومات مجھ سے زیادہ تھیں۔ ہمیں صرف بی بی سی ہی کی ریڈیو نشریات موصول ہو رہی تھیں لہذا ہمارے سامنے امریکہ کی صورت حال کا صرف وہی منظر تھا جو آپ صحافی پیش کر رہے تھے‘۔

لیکن بہت سے مسافر انگریزی نہیں جانتے تھے اور خبروں سے حالات کو نہیں سمجھ پا رہے تھے۔ باقی دنیا جو کچھ اپنے ٹی وی سیٹ پر دیکھ پا رہی تھی اس تک رسائی ہمیں ایک دن بعد ہونی تھی۔ تبھی باس کو امریکن ایئرلائنز 77 کے پائلٹ چارلس برلنگیم کے بارے میں معلوم ہوا جن کا طیارہ پینٹاگون سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا تھا۔ باس ان کو حالیہ دنوں میں لندن کے ایک پب میں دیکھ چکی تھیں۔

بارہ ستمبر کی صبح ساڑھے سات بجے باس کو اپنے عملے اور مسافروں سمیت طیارے سے نکل کر ریڈ کراس میں اپنا اندراج کرانے کی اجازت ملی۔ اس رات گینڈر کا ہر چولہا جلتا رہا تھا اور گینڈر کے باسیوں نے اتنا کھانا پکا لیا تھا جو ان تمام 7000 پناہ گزینوں کے لیے کافی تھا۔

باس کے بقول یہ وہ لمحہ تھا جب انہیں یہ اندازہ ہوا کہ ان کا جہاز ایک انتہائی منفرد مقام پر اترا ہے اور جب تک وہ وہاں رہے یہ احساس بھی قائم رہا۔

دی راک کے نغمے ’کم فرام اوے‘ میں یہی بیان کیا گیا ہے کہ گینڈر کے لوگوں نے کس فراخ دلی سے ان ’جہاز کے لوگوں‘ کو اپنایا۔ ان کے اسی برتاؤ سے مسافروں کو ہنگامی حالات سے نمٹنے میں ہمت ملی۔

جہاں لوگ ان ہنگامی حالات کا شکار تھے، وہیں ایک جوڑے نے رومانس کی گنجائش بھی نکال لی تھی۔ نک انگلینڈ سے تھے اور ڈائین کا تعلق ٹیکساس سے تھا۔ گینڈر میں اس قیام کی آخری رات تمام مسافر ایک بار میں جمع تھے جہاں ہر اس مسافر کو نیو فاؤنڈ لینڈر کے لقب سے نوازا جاتا جو تازہ کاڈ مچھلی کا بوسا لینے میں کامیاب رہتا۔

لیکن ان تمام واقعات کا علم باس کو برسوں بعد ہوا تھا۔ تاریخ کا یہی نرالہ پن ہے کہ اکثر کارروائیوں کے مرکزی کردار بہت سی باتوں سے لاعلم رہتے ہیں۔ باس کا کہنا ہے کہ ’مجھے یہ تعین کرنے میں مہینے لگے کہ کون سا جہاز کس ٹاور سے پہلے ٹکرایا تھا کیونکہ ٹی وی پر ایک ہی جیسی نشریات بار بار دہرائی جا رہی تھیں۔ جن سے میں اور بھی الجھتی چلی گئی کہ یہ جہاز امریکن کے تھے یا یونائٹڈ کے۔ اور یہ کہ کون سا جہاز کس سمت سے ٹکرایا،  مجھے اس سانحے کی ترتیب کو سمجھنے میں بہت دقت پیش آئی۔

باس اور ان کے عملے کو گینڈر کے کمفرٹ ان سرائے میں رہ کر ہی اگلے سفر تک اپنی ایئرلائن کی کال کا انتظار کرنا تھا۔ باس نے ہر کھانا اسی سرائے سے متصل ریسٹورانٹ میں کھایا۔

یہ بھی باس کو بعد میں پتہ چلا کہ گینڈر والوں نے ان پانچ دنوں میں کل دو لاکھ 85 ہزار افراد کے کھانوں کا انتظام کیا تھا۔ اس تمام عرصے میں باس جس مقامی باشندے سے ملتی رہیں وہ وہاں کے ایئر ٹریفک کنٹرولر پٹ ووڈ فورڈ تھے جو عملے اور مسافروں کے درمیان رابطہ قائم کرنے کا کام کر رہے تھے۔

جب باس کو ووڈ فورڈ نے اپنے نئے ٹرک کی چابیاں دیں تو باس سے رہا نہیں گیا اور وہ بول پڑیں میں آپ کے لیے بالکل اجنبی ہوں اور آپ یہ چابیاں مجھے کیسے دے سکتے ہیں۔

جس پر ووڈ فورڈ نے کہا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ باس کے بقول ’میرے لیے یہ رویہ انتہائی حیران کن تھا، لیکن اس شو دیکھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ سبھی گینڈر والے ایسے ہی تھے‘۔

باس اور عملے کے دیگر اراکین کی جانب سے ’کمفرٹ ان‘ کو بعد میں دی جانے والی اعزازی شیلڈ۔

مسافر گینڈر چھوڑنے پر اُداس تھے کیونکہ بقول باس کے ان لوگوں نے وہاں جتنا بھی وقت گزارا وہ گینڈر کے لوگوں نے اپنے سلوک سے یادگار بنا دیا تھا۔ ساتھ ہی یہ تمام مسافر اس کرب سے بھی دوچار تھے کہ ان کا ملک اپنی تاریخ کے بدترین سانحے سے گزر رہا تھا۔

لیکن ہر کسی کے ساتھ یہ سلوک روا نہیں رکھا گیا تھا۔ دو مصری مسافروں کو 15 ستمبر کی صبح اس وقت اپنی جامہ تلاشی دینا پڑی جب یہ دوبارہ جہاز میں سوار ہوئے۔

اس دوران ایک فلائٹ افسر نے باس سے دو مصری شہریت والے مسافروں کو جہاز سے اتارنے کا مطالبہ کیا، جو گینڈر میں قیام کے دوران دیگر لوگوں سے الگ تھلگ اپنے موبائل فونز پر مصروف نظر آتے تھے اور اسی لیے مشکوک قرار پائے۔

باس نے اس مطالبے پر عمل تو کیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ خود بھی اس کمرے میں موجود رہیں گی جہاں مصری مسافروں کی انڈر ویئرز میں تلاشی لی جائے گی، اور ان کے بقول وہ ایسا اس لیے کرنا چاہتی تھیں تاکہ وہ فلائٹ افسر کو مطمئن کر سکیں۔

جب جہاز واپس ڈیلاس پہنچا تو باس خصوصی طور پر ان دو مسافروں تک گئیں اور ان سے جامہ تلاشی لیے جانے کی باقاعدہ معذرت کی۔ جواباً ان دونوں مسافروں نے باس کی خفت کو سمجھتے ہوئے کہا وہ حالات کی نزاکت کے باعث اس مطالبے پر ناراض نہیں۔

واپس پہنچنے کے بعد باس کے ذہن پر دو ہی باتیں سوار تھیں ’میں دنیا کو گینڈر کے بارے میں بتا سکوں اور دوسرا اپنے گھر والوں تک پہنچ جاؤں کیونکہ میں جانتی تھی گینڈر کا یہ قیام ہمیشہ کے لیے ہماری تاریخ کا حصہ بنے گا۔‘

’دا راک‘ نامی اس میوزیکل کے لیے ٹورانٹو کے وکیل اور جز وقتی تھیٹر پروڈیوسر مائیکل روبنوف کا ’کم فرام اوے‘ جیسا گانا لکھنا بھی بالکل ایسا ہی تھا جیسے میل برووک نے اپنی فلم کے لیے ’سپرنگ ٹائم فار ہٹلر‘ لکھا اور کمپوز کیا۔

لیکن روبنوف کو یقین تھا گینڈر اور 38 جہازوں کی یہ کہانی رنج و غم کے عالم میں ابھرتی امید کی ایک بےمثال داستان ہے۔ گینڈر کی چھ دنوں کی اس داستان پر روبنوف کو اپنے کینیڈین ہونے پر فخر تھا۔

اس سانحے کی دسویں برسی پر ’دی راک‘ نامی میوزیکل کے لکھاری میاں بیوی ڈیوڈ ہائن اور ایئرین سینکوف باقاعدہ گینڈر گئے اور وہاں کے لوگوں کے انٹرویو کرکے لائے تھے۔

ہائن بزات خود نیو فاؤنڈ لینڈ میں پلے بڑھے تھے۔ ان کے مطابق گینڈر والوں کی انکساری اور مزاج کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’وہ یخ بستہ سردیوں میں بھی باورچی خانوں میں اکھٹے بیٹھ کر ایک دوسرے کو قصے کہانیاں سناتے ہیں۔‘ اسی لیے گینڈر والوں کو اپنے رویے پر کوئی حیرت نہ تھی لیکن وہ اس سوچ میں ضرور پڑ گئے تھے کہ اس پر بھلا میوزیکل شو بھی بن سکتا ہے۔

اسی دوران باس سے بھی ایک آسٹریلوی فلم ساز نے رابطہ کیا کہ کیا وہ 10 برس پورے ہونے پر گینڈر جا رہی ہیں۔ وہ اس جوڑے پر فلم بنانا چاہتے تھے جن کے درمیان گینڈر میں رومانس ہو گیا تھا اور جو اب شادی شدہ تھے۔

گیارہ ستمبر کی دسویں برسی کو گینڈر والوں کے ہمراہ منانے کے لیے باس اپنے شوہر اور ان تمام مسافروں کے ساتھ گینڈر کے لیے روانہ ہوئیں جو 10 سال قبل ان کے ساتھ گینڈر ایئرپورٹ پر ہنگامی صورت حال کے باعث اترے تھے۔

باس کو اندازہ نہ تھا کہ وہاں کے لوگوں نے کئی تقاریب کا اہتمام کر رکھا ہے، جن میں انہوں نے اعزازی نیو فاؤنڈ لینڈرز سے اپنے اس تاحیات تعلق کو بھرپور طریقے سے منایا۔

دوسری جانب ان مسافروں نے بھی گینڈر کے نوجوانوں کے لیے لاکھوں ڈالرز کی سکالرشپس کے لیے چندے اکھٹے کیے تھے۔ دو سال قبل باس اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ گینڈر گئی تھیں اور ذاتی طور پر ان تمام برادریوں کے میئر حضرات سے ملی تھیں جن کا اس شو میں تذکرہ تھا۔

ان کے دورے کا اہتمام پٹ ووڈ فورڈ نے کیا تھا۔ یہ وہ شخص تھے جنہوں نے 11 ستمبر کو گینڈر میں آرام کرنے کے لیے اپنے نئے  ٹرک کی چابیاں بےدھڑک تھما دی تھیں۔

باس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ’ہم 11 ستمبر کا سوگ مناتے ہیں اور یہ لوگ اس تاریخ کو ایک اہم دن کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ ان کے لیے اس دن وہ یاد تازہ کرنی چاہیے جو اچھے وقت کی تھی‘۔

باس کہتی ہیں امریکہ میں پائلٹ 11 ستمبر کے بعد سے اسے ایک کھوئی ہوئی دہائی کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ ہر ایئرلائن دیوالیہ ہو گئی تھی، ہوا بازوں کی تنخواہوں میں نمایاں کٹوتیاں دیکھی گئی تھیں۔ فلائٹ سکولوں کا بزنس ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا، حتیٰ کے ایئر پورٹ پر ٹیکسی والے، چائے والے سبھی کا کاروبار جیسے بند پڑا تھا۔

’دیکھا جائے تو صحیح معنوں میں ایئرلائن کی صنعت کو دس سال لگے اپنی ساکھ اور کاروبار بحال کرنے میں۔ باس نے مزید کہا اس دوران ان کی ایئرلائن نے ایک بھی نیا پائلٹ بھرتی نہیں کیا تھا۔‘

لیکن بعد میں جو سب سے پہلے بھرتیاں ہوئیں ان میں ٹام مکگنس جونیئر بھی شامل تھے، جن کے والد ٹام سینیئر کا جہاز امریکن الیون 11 ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاور سے جا ٹکرایا تھا۔ جیسا کہ گینڈر کے میئر کلائیڈ شو کے فِنالے میں گاتے ہیں ’آج رات ہم ان سب کو تعظیم پیش کرتے ہیں جو ہم سے بچھڑ گئے اور مناتے ہیں وہ خوشی جو ہم نے پائی۔‘

دیکھا جائے تو یہ میوزیکل باس کی زندگی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوا بھی ملتا ہے۔ اب یہ میوزیکل شو باس کی زندگی کا محور بن چکا ہے۔ 66 سالہ باس اب تک اس میوزیکل کے تقریباً تمام شوز نہ صرف خود دیکھ چکی ہیں بلکہ ان کے دو ہزار دوست احباب بھی ان کی خواہش پر یہ شو دیکھنے جا چکے ہیں۔

باس ان تمام اداکاروں کی بھی مشکور ہیں اور ان کے ساتھ دوستی کر چکی ہیں جنہوں نے ان کا کردار نبھایا۔

باس ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خود کو ایک ہوا باز کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور ان کا ماننا ہے ’جو ایک بار پائلٹ بن جاتا ہے وہ ہمیشہ اڑان بھرنے کے لیے تیار رہتا ہے‘۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ