الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر 5121 امیدواروں کی عبوری فہرست جاری کر دی ہے۔
پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار 11 ہزار 785 آزاد امیدوار میدان میں اترے ہیں اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں پر 882 خواتین اور چار خواجہ سرا لڑ رہے ہیں۔
یوں ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں پر مجموعی طور پر 17 ہزار 816 امیدوار کھڑے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 224 نشستوں اور صوبائی اسمبلیوں کی 593 نشستوں پر آزاد امیدوار کھڑے کیے ہیں۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی الیکشن ایکٹ کی دفعہ 203 کے مطابق الیکشن کمیشن میں باقاعدہ رجسٹرڈ سیاسی جماعت کی حیثیت سے ریکارڈ پر موجود ہے، البتہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 209 کی خلاف ورزی کی وجہ سے انتخابی نشان سے محروم ہے۔
انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کے آزاد امیدوار آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کے مطابق پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ انہوں نے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی سے وابستگی کا ذکر کیا ہوا ہے۔
تحریک انصاف کے امیدوار سلمان اکرم راجہ نے برملا اعتراف کیا کہ انہوں نے کاغذاتِ نامزدگی کے فارم پر خود کو تحریک انصاف کا امیدوار لکھا ہے۔
انہوں نے تحریک انصاف کی جانب سے جاری ٹکٹ بھی ریٹرننگ آفیسر کو جمع کرایا ہے تو ان کو آزاد امیدوار کیسے کہا جا سکتا ہے؟
یہی کیفیت پی ٹی آئی کے تمام آزاد امیدواروں کی ہے اور انہوں نے کاغذاتِ نامزدگی کے فارم پر پارٹی وابستگی ظاہر کر رکھی ہے۔
آٹھ فروری کو انتخابات کے فوری بعد اور الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کے بعد تمام آزاد اراکان کو آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کے تحت ہدایات دی جائیں گی کہ وہ تین دنوں کے اندر کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں تاکہ ان کی شمولیت کے بعد مخصوص نشستوں کا کوٹہ مقرر کیا جا سکے۔
چونکہ تحریک انصاف کے آزاد ارکان اسمبلی نے کاغذاتِ نامزدگی کے فارم پر تحریک انصاف کی وابستگی ظاہر کر رکھی ہے، لہٰذا وہ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے قانونی سہارا تلاش کریں گے۔
اس لیے الیکشن کمیشن کو اس ابہام کو دور کرنے کے لیے انتخابات سے پیشتر سرکاری موقف بیان کر دینا چاہیے۔
انتخابات کے فوراً بعد 14 دنوں کے اندر اندر الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 223 کے مطابق گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کر کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز کو مطلع کرنا لازمی ہوتا ہے۔
اسی دوران مخصوص نشستوں کا بھی آئین کے آرٹیکل 2242 کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
تحریک انصاف نے اگر قانونی جنگ کا فیصلہ کر لیا کہ چونکہ ان کی پارٹی الیکشن کمیشن میں قانونی طور پر رجسٹرڈ ہے، لہٰذا آزاد ارکان کو تحریک انصاف میں شمولیت کی قانونی طور پر اجازت دی جائے تو سپریم کورٹ اس موڑ پر اہم ترین فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔
تب تک آئینی بحران برقرار رہے گا اور قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس نہ ہو سکیں گے۔
اگر سپریم کورٹ نے آزاد ارکان کو تحریک انصاف میں شمولیت کی اجازت دے دی کیونکہ آزاد ارکان کے کاغذاتِ نامزدگی بطور ریکارڈ سپریم کورٹ کے روبرو پیش کر دیے جائیں گے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کو انتخابات سے پہلے اس پیچیدہ قانونی مسئلے کے حل کے لیے سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت عوامی مفاد کے پیش نظر آئینی پٹیشن داخل کر دینی چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ آئینی پٹیشن الیکشن کے بعد اور گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہونے سے پیشتر بھی دائر کی جا سکتی ہے۔
اگر تحریک انصاف کے آزاد ارکان کو اپنی جماعت میں شمولیت کی اجازت حاصل ہو گئی تو حکومت سازی میں ان کا اہم کردار ہو گا۔
وہ کسی بھی ہم خیال سیاسی جماعت سے اتحاد کر کے حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں کیونکہ پارٹی کی قیادت وکلا کے ہاتھوں میں ہے اور وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے مفاہمت کر کے حکومت سازی کا حصہ بن سکتے ہیں۔
قائد ایوان، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات کے لیے آزاد ارکان اسمبلی کا اہم کردار سامنے آئے گا۔
موجودہ سیاسی ماحول میں اگر الیکشن نتائج میں تحریک انصاف کو اکثریتی ووٹ مل بھی جاتے ہیں تو قائد ایوان کے انتخاب کے لیے 166 ارکان کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے۔
بظاہر تحریک انصاف کی اپنی ماضی کی پالیسی کی وجہ سے ان کو اتحادی نہیں مل سکیں گے اور امکان ہے کہ حکومت بنانے کے لیے ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی، استحکام پاکستان پارٹی اور تین درجن سے زائد دیگر آزاد ارکان پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کر کے قائدِ ایوان منتخب کرانے میں کامیاب ہو جائے۔
لیکن ایسی حکومت کمزور بنیادوں پر کھڑی ہو گی اور آئے دن تحریک عدم اعتماد کا خدشہ رہے گا۔ آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد کو ہر بار آزمایا جا سکتا ہے۔
1973 کے آئین کے مطابق اگر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو جائے تو پھر تین سال تک ایسی کوئی تحریک پیش نہیں کی جا سکتی تھی، لیکن اٹھارویں ترمیم میں یہ شق حذف کر دی گئی۔
اس لیے آئندہ آنے والی حکومت غیر مستحکم ہی نظر آئے گی۔ اگر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آنے والی حکومت گرا دی گئی تو پھر ملک میں معاشی، سیاسی، خارجی اور داخلی اثرات سے معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
ممکن ہے کہ سیاسی نظام کو ہنگامی حالات کی صورت میں لپیٹ ہی دیا جائے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔