اسلام و علیکم
بابا جناح !
آپ کی اکہترویں برسی تھی، فاتحہ کا ایصال ثواب بھیج رہی تھی سوچا فرشتے کو لگے ہاتھ ایک خط بھی تھما دوں، وہیں تو جا رہا ہے میرا نامہ بھی لیتا جائے۔ عرصے بعد آپ کی یاد آئی، جب چھوٹی تھی تو ہر چند ماہ بعد سکول والے کسی نہ کسی بہانے سے آپ کے گھر وزیر مینشن لے جاتے تھے۔ ویسے بھی کراچی کے کھارادر میں ہمارے گھر سے پچھلی گلی میں آپ کا مکان ہے۔ کوئی ایڈریس بھی پوچھے تو میں جھٹ سے بتا دیتی تھی کہ میں تو قائد اعظم کی پڑوسی ہوں۔
خیر اب تو کراچی کے اس اولڈ سٹی ایریا کی حالت ایسی ہے کہ آپ اور میں ہم دونوں اپنا پتہ بھول جائیں تو بہتر ہے۔
بابا جی، وہ وزیر مینشن والے گھر نے آپ کو اب کے برس ساون میں بہت یاد کیا۔ میں نے سوشل میڈیا پہ دیکھا، مکان کا گراونڈ فلور، وہی جگہ جہاں آپ کے امی ابو نے اپنا مہمان خانہ بنایا تھا وہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ سات سال پہلے گئی تھی تو وہاں کراچی سٹاک ایکسچینج کے کچھ بروکرز سامنے اخبار رکھ کر مسلسل فون پہ مصروف تھے۔ وہ اپنی گجراتی زبان میں کاروبار کی تیزی مندی پر کچھ بول رہے تھے۔ میں اسے لائبریری سمجھ کر کتابیں پڑھنے گئی تھی مگر لاحول پڑھتی ہوئی واپس آ گئی۔
بابا جناح، اک بات کہوں؟
اس وعدے پر بتا رہی ہوں کہ آپ ناراض نہیں ہوں گے۔ اب جو پراپرٹی کنگ ہے وہی ہمارا لیڈر اور رول ماڈل ہے۔ اسی لیے کچھ نئی قسم کے تجزیہ کار آپ کو رہنما کے ساتھ ساتھ پراپرٹی ٹائیکون بھی سمجھنے لگے ہیں۔ کیا کہوں بیچاروں کے منہ کو پلاٹوں کا خون سا لگ گیا ہے۔ صلاحیتیں اب کنال، مرلے،گز اور سکوائر فٹ سے ناپی جاتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ممبئی، کراچی، لاہور، زیارت میں بالکل ’فنٹاسٹک‘ لوکیشن پر آپ کی جائیدادیں ہیں۔ ایک چینل پر ایک نوزائیدہ تجزیہ کار بیٹھے فرما رہے تھے کہ ’من حیث القوم ہمیں پلاٹوں کا شوق بابائے قوم کی وجہ سے ہے۔‘ اس عقل کے اندھے کو شاید علم نہیں کہ آپ جدی پشتی امیر اور بزنس مین کے بیٹے تھے۔ آپ اور آپ کی چھوٹی بہن فاطمہ نے اپنی تمام توانائیاں، اپنا مال یہاں تک کہ اپنی فیملی لائف بھی اس ملک کے مشن پر قربان کر دی۔
پلاٹوں کا ذکر چل نکلا تو بتا دوں کہ وہ جو لاہور میں آپ نے اپنی زمین فلاحی مقاصد کے لیے ریاست پاکستان کو دے دی تھی وہاں قابضین بیٹھ گئے ہیں۔ خیر سے ملک میں قابضین اور مافیا کا راج ہے۔ ہر کام، ہر سانس، ہر قدم پہ ایک مافیا موجود ہے جیسا کہ پانی مافیا، پراپرٹی مافیا، پٹواری مافیا وغیرہ۔ اس بارے میں اگلے خط میں آگاہ کر دوں گی۔
آج کے عقل مندوں کو اگر ذرا سا بھی علم ہو کہ آپ کس پائے کے رہنما تھے تو یہ کبھی آپ کی شخصیت پر یہاں وہاں کی تکے بازی نہ کریں۔ یاد آیا، ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی ایک اسرائیلی نیوز ویب سائٹ نے ایک لمبا چوڑا مضمون شائع کیا جس میں کہا گیا کہ برطانیہ نے تو 1917 میں ہی ’بیلفور ڈکلیریشن‘ کے ذریعے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک یہودی قومی مملکت بنانے کے لیے پورے تعاون کی یقین دہانی کر دی تھی مگر دوسری جنگ عظیم کے حالات اور آل انڈیا مسلم لیگ کے محمد علی جناح نے اپنی ڈپلومیٹک پالیسی سے ایسی بازی کھیلی کہ برطانیہ کو اس معاہدے سے پیچھے ہٹتے ہی بنی۔ نہ آپ اس وقت کسی ریاست کے سربراہ تھے، نہ کسی او آئی سی کا حصہ تھے، نہ آپ کے پاس جوہری ہتھیار تھے، نہ ہی آپ کے پاس ’بی فٹنگ ریسپانس‘ دینے والی اپنی فوج تھی۔ صرف اپنی سیاسی سوجھ بوجھ سے کسی عالمی معاہدے پر یہ ڈپلومیٹک کامیابی صرف مسٹر جناح آپ ہی کے دم سے ملی۔
مسئلہ یہ ہے کہ اب ٹرول بازی کے دور میں یہ ریسرچ کون کرے۔ بس بیٹھے بیٹھے زبان ہی تو ہلانی پڑتی ہے کہ قائد اعظم نے بھلا ہمارے لیے کیا کیا۔ اکثریت کو بس ایک قائد اعظم کا پتا ہے جو کرنسی کے کرارے نوٹ کی شکل میں یہ اپنی جیبوں میں بھرے پھرتے ہیں۔ بابا جناح آپ کو یہ سن کر ہنسی آئے گی کہ کچھ نادانوں کو تو اس کڑک نوٹ یعنی قائد اعظم کی گڈیوں سے ایسا عشق ہوا کہ انہوں نے اپنے گھر کے سرداب خانوں میں اسے بھر لیا۔ کچھ راشیوں نے بھی آپ کے لقب کو اپنا کوڈ ورڈ بنا رکھا ہے۔ کوئی کام نکالنا ہو تو کہتے ہیں ’بس کچھ قائد اعظم دے دیں کام ہوجائے گا۔‘ مجھے تو ان نادانوں پر اب ترس آنے لگا ہے۔
اک بات بتائیں بابا جی، آپ نے اپنا خیال کیوں نہیں رکھا؟ کیوں اپنی صحت پر اتنا کمپرومائز کیا؟
آپ کچھ اور دن جی لیتے تو شاید آج کشمیر کے لوگ سکون سے اپنی وادی میں رہ رہے ہوتے۔ آپ کو اوپر جانے کی جلدی تھی یہاں پاکستان کا مکمل پلان یعنی کشمیر اب تک ادھورا ہی پڑا ہے۔ پلان تو کیا ہی پورا ہوتا یہاں لینے کے دینے پڑے ہوئے ہیں۔ بلکہ کچھ خبر والے سرگوشیوں میں کہہ رہے ہیں کہ اسے بھی بیچ ڈالا، وللہ اعلم۔ ان 71 برسوں میں ہمیں کوئی ایک بھی جناح ثانی نہ مل سکا جو سیاسی کوششوں سے اس مسئلے کو حل کر لیتا۔ جو آپ کے ساتھی تھے وہ نسل ہی اور تھی وہ لوگ ہی وکھرے تھے۔ اب سیاست میں دھپل سے کام چل رہا ہے۔ بلکہ بابا یوں لگتا ہے یہ سیاست نہیں چھچھورپن ہو رہا ہے آپ کے پاکستان کے ساتھ۔
بعض بہت ہی سیانے بحث کے مرغے اس مدعے پر لڑاتے ہیں کہ ’جناح نے پاکستان بنا کر اچھا نہیں کیا۔‘ بابا آپ ان چھوٹے دماغ والوں کی بڑ بولیوں سے دل گرفتہ نہیں ہونا۔ یہ ایسے دور اندیش ہیں جنہیں ماضی ٹھیک سے سمجھ نہیں آیا وہ مستقبل کو کیا خاک دیکھیں گے۔ یہ دانش فروش ذرا بھارتی ریاست جھاڑ کھنڈ میں بیف نہاری کھا کر دکھائیں مزہ نہ آئے تو کہنا یا چلیں نہاری پسند نہیں تو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا رخ کر لیں، طبعیت کیسے صاف ہوئی۔ اگر صحیح سالم واپس آ گئے تو ہم بھی پوچھ لیں گے۔
بابا جناح ! اب آپ سے کیا چھپانا، ہیں تو ہمارے بھائی بند بھی کچھ کچھ ایسے ہی۔ آپ نے کہا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو تحفظ ملے گا۔ بس اتنا کہنا ہے کہ یہاں ایک مسلمان سے دوسرے مسلمان کو محفوظ رکھنے کے لیے ابھی نو، دس محرم کو سکیورٹی الرٹ تھی، پھر اقلیتوں کی حفاظت کا تو کیا ہی کہنا۔
پیارے بابا جناح ! اب اس دھرتی پہ لیڈرز نے پیدا ہونا بند کر دیا ہے۔ اب کوئی بابائے الم غلم ہے، کوئی بابائے گالم گلوچ، کسی کو بابائے جیل کہتے ہیں اور کسی کو بابائے ڈیل۔ اور کوئی تو بابائے ہٹ دھرمی بنا بیٹھا ہے۔ کچھ دن پہلے کسی بابا رحمتے نے بھی انٹری دی تھی۔ بابا جناح یہاں پوری قوم مر جاتی ہے مگر سیاستدان زندہ ہی رہتا ہے۔ یہاں اب رہنما نہیں راہزنوں کا راج ہے۔ اب سیاست میں دانش ور نہیں آتے جو بھی آتے ہیں جہاز میں بیٹھ کر آتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ آپ عالم بالا میں بیٹھے اپنے پاکستان کا حشر نشر ہوتا دیکھ کر دکھی ہوتے ہوں گے۔ میں نے بھی دکھیا دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر آپ کو خط لکھا بلکہ یوں سمجھیں بہت ڈرتے ڈرتے لکھا۔ کہیں راستے میں ہی کسی کے ہاتھ لگ گیا تو موا سینسر شپ کے نام پر ہی پھاڑ نہ پھینکے۔
وسلام
عفت
پی ایس: (بابا جناح ! میرے اس خط کو ذرا بلند آواز سے پڑھ لیجیئے گا تاکہ فاطمہ جناح بھی سن لیں کہ انہیں اور ان کے بھائی کو کھو کر ہم کتنا پچھتا رہے ہیں۔ آپ لوگ تو اگلے جہان سدھار گئے یہاں ہم آج بھی اپنا قائد ڈھونڈ رہے ہیں۔)