فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے قانونی اثرات سے متعلق عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں منگل کو اوورل پروسیڈنگ (زبانی کارروائی) کے دوسرے دن بھی سماعت جاری رہی۔
سماعت کے دوسرے روز جنوبی افریقہ، الجزائر، سعودی عرب، نیدرلینڈز، بنگلہ دیش اور بیلجیئم کے نمائندوں نے ابتدائی دلائل پیش کیے ہیں جبکہ پاکستان اپنے دلائل 23 فروری کو ہونے والی سماعت میں پیش کرے گا۔
یہ عالمی عدالت انصاف کی تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ ہے جس میں 50 سے زیادہ ممالک دلائل دے رہے ہیں اور کم از کم تین بین الاقوامی تنظیمیں بھی 26 فروری تک ججز کے سامنے اپنے دلائل رکھیں گی۔
اسرائیل اس سماعت میں شریک نہیں ہے لیکن اس نے پانچ صفحات پر مشتمل تحریری بیان بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت کی مشاورتی رائے تنازع کو حل کرنے کی کوششوں کے لیے ’نقصان دہ‘ ہوگی۔
اس کا اصرار ہے کہ جنرل اسمبلی کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات ’تعصب پر مبنی‘ ہیں۔
ججز کی جانب سے غور و خوص کے بعد مقدمے کا فیصلہ اگلے چند مہینوں میں متوقع ہے۔ تاہم عدالت کے پاس اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کی طاقت نہیں ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب نے فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قانونی طور پر ان کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔
عرب نیوز کے مطابق نیدرلینڈز میں سعودی عرب کے سفیر زیاد العطیہ نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ قانونی طور پر ان کا دفاع نہیں کر سکتا۔
زیاد العطیہ نے بین الاقوامی قانون کو نظرانداز کرنے اور خاص طور پر غزہ میں عام شہریوں کے ساتھ اس کے سلوک اور اس کے مسلسل استثنیٰ کے حوالے سے اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانے کی ضرورت پر زور دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سعودی عرب نے عام شہریوں کی اموات پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور اسرائیل کے اپنے دفاع کے استدلال کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو زندہ رہنے کے بنیادی ذرائع سے محروم کرنا بلا جواز ہے۔
زیاد العطیہ نے اسرائیل پر فلسطینیوں کو غیر انسانی سلوک اور ان کے خلاف نسل کشی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے عالمی برادری سے کارروائی کا مطالبہ کیا۔
عدالت کے دائرہ اختیار کے بارے میں زیاد العطیہ نے زور دے کر کہا کہ اس کے دائرہ اختیار کے خلاف دلائل کمزور ہیں اور انہوں نے عالمی عدالت پر زور دیا کہ وہ اس معاملے پر رائے جاری کرے۔
سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے مطالبوں اور عارضی اقدامات کو نظر انداز کرنے کے ساتھ ساتھ غیر قانونی یہودی بستیوں میں توسیع اور فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کی بھی مذمت کی گئی۔
سعودی عرب نے اسرائیل کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا ہے جس میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کرنا اور فلسطینیوں کو اپنے دفاع کے حق کے استعمال سے روکنا شامل ہے۔
ریاض نے اسرائیل کے غیر قانونی بستیوں کو برقرار رکھنے اور توسیع دینے کے ارادے، جیسا کہ اس کے 2018 کے بنیادی قانون میں پورے مقبوضہ بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دینے سے ظاہر ہوتا ہے، فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو کمزور کرنے کے لیے بھی تل ابیب کو تنقید کا نشانہ بنایا۔