120 سال قبل لاپتہ ہونے والے برطانوی بحری جہاز کا سراغ مل گیا

حکام کے مطابق نیو ساؤتھ ویلز کے ساحل کے قریب دو سو سے زیادہ بحری جہازوں کے ملبے موجود ہیں جن میں سے نصف سے بھی کم کو دریافت کیا جا سکا ہے۔

نیو ساؤتھ ویلز کی وزارت ماحولیات اور ثقافت نے گذشتہ ہفتے تصدیق کی کہ جہاز سڈنی کے ساحل کے پاس تقریباً 525 فٹ پانی کے اندر پایا گیا(تصویر: سی ایس آئی آر او)

32 مسافروں کے ساتھ 120 سال قبل لاپتہ ہونے والے سٹیم سے چلنے والے برطانوی ساختہ بحری جہاز کا کھوج بالآخر آسٹریلیا کے ساحل کے قریب سے مل گیا۔

برطانوی جہاز ایس ایس نیمیسس 1904 میں آسٹریلیا کے شہر میلبرن کے لیے کوئلہ لے جا رہا تھا جب یہ طوفان کی زد میں آگیا اور پھر کبھی اسے دوبارہ دیکھا نہیں گیا۔

آنے والے ہفتوں کے دوران اس جہاز کے عملے کی لاشیں جہاز کے ملبے کے ساتھ بہہ کر ساحل پرپہنچ گئی تھیں تاہم ڈوبنے والے جہاز کے مقام کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں۔

نیو ساؤتھ ویلز کی وزارت ماحولیات اور ثقافت نے گذشتہ ہفتے تصدیق کی کہ جہاز سڈنی کے ساحل کے پاس تقریباً 525 فٹ پانی کے اندر پایا گیا۔

سرکاری حکام نے ایک پریس ریلیز میں بتایا کہ ’ایس ایس نیمیسس اور عملے کے 32 ارکان کا سمندر میں گم ہونے کا 120 سال پرانا معمہ حل ہو گیا ہے۔‘

نیو ساؤتھ ویلز کے حکام کا کہنا ہے کہ اب وہ آسٹریلوی، برطانوی اور کینیڈین عملے کے خاندان کے افراد کو تلاش کریں گے جو 1,393 ٹن وزنی جہاز کے ساتھ ڈوب گئے تھے۔

برطانوی ساختہ جہاز پر سوار عملے کا تقریباً نصف حصہ برطانوی شہریوں پر مشتمل تھا جس میں کپتان ایلکس لوشر، چیف میٹ ٹی اے ریناٹ اور سیکنڈ میٹ ڈبلیو ڈی سٹین بھی شامل تھے۔

حکام نے بتایا کہ سب سی پروفیشنل میرین نامی ایک ریموٹ سینسنگ کمپنی نے پہلی بار 2022 میں اس علاقے میں ایک جہاز کا ملبہ دریافت کیا تھا جب وہ ساحل سے لاپتہ ہونے والے کارگو باکسز کی تلاش کر رہے تھے۔

لیکن اس جہاز کی شناخت ایس ایس نیمیسس کے طور پر ستمبر 2023 تک نہیں کی گئی تھی جب آسٹریلیا کا قومی سائنسی ادارہ سی ایس آئی آر او پانی کے اندر کی تصویر کشی کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا جو یقینی طور پر ملبے کی مخصوص خصوصیات کو ظاہر کرتی تھی۔

ایجنسی کے تحقیقی جہاز آر وی انویسٹی گیٹر نے ڈوبے ہوئے جہاز کی ہائی ریزولوشن تصاویر حاصل کرنے کے لیے زیر آب کیمروں اور ملبے کا نقشہ بنانے کے لیے جدید ملٹی بیم ایکو ساؤنڈرز کا استعمال کیا۔

انہوں نے تباہ شدہ جہاز کو سمندر کے پیندے پر سیدھا پڑا دکھایا۔

ان تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے خیال پیش کیا کہ بھاپ سے چلنے والا بحری جہاز جولائی 1904 میں سڈنی سے 50 میل جنوب میں وولونگونگ کے ساحل کے قریب ایک بڑی لہر سے ٹکرا جانے کے بعد ڈوب گیا تھا۔ اس ٹکر سے جہاز کا انجن بند ہو گیا اور ’جہاز لائف بوٹس کو اتارنے سے پہلے ہی غرق ہو گیا۔‘

سی ایس آئی آر او کے ہائیڈروگرافک سرویئر فل وینڈن بوشے نے کہا: ’ڈراپ کیمرے کا استعمال کرتے ہوئے ملبے کے ہمارے ویژول معائنے سے معلوم ہوا کہ ڈوبنے والے اس جہاز کے کچھ اہم ڈھانچے ابھی تک قائم و دائم اور قابل شناخت ہیں جن میں سمندر کے پیندے پر پڑے ہوئے جہاز کے دو لنگر بھی شامل ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ مزید تحقیق کے لیے ملبے کا تھری ڈی ماڈل بنانے کے لیے مزید ویڈیو امیجری کو ایک ساتھ جوڑا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیو ساؤتھ ویلز کی وزیر برائے ماحولیات و ثقافت پینی شارپ نے کہا کہ ’تقریباً 40 بچوں نے اس حادثے میں اپنے والدین کو کھو دیا تھا اور مجھے امید ہے کہ یہ دریافت جہاز سے جڑے خاندانوں اور دوستوں کو اس اختتام تک لے آئی گی جو اب تک اس جہاز کے بارے میں لاعلم تھے۔‘

ان کے بقول: ’نیمیسس کو پیش آنے والے واقعے کو سڈنی کے سب سے زیادہ طویل سمندری رازوں میں سے ایک کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور یہاں تک کہ محققین نے اسے ’ہولی گریل‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’جدید ٹیکنالوجی اور تاریخی ریکارڈز کا استعمال کرتے ہوئے سی ایس آئی آر او اور سب سی کے باہمی تعاون کی بدولت ہم ایس ایس نیمیسس کی کہانی کا آخری باب لکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘

حکام کے مطابق نیو ساؤتھ ویلز کے ساحل کے قریب دو سو سے زیادہ بحری جہازوں کے ملبے موجود ہیں جن میں سے نصف سے بھی کم کو دریافت کیا جا سکا ہے۔

ایک اور مال بردار جہاز MV Blythe Star جو نصف صدی قبل آسٹریلیا کے ساحل کے قریب ڈوب گیا تھا، کا ملبہ پچھلے سال ہی دریافت ہوا تھا۔

ایک ہسپانوی بادبان جہاز جس کے ملبے کو ’ہولی گریل‘ کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے، اس وقت سمندر کی تہہ سے نکالے جانے کے عمل میں ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ