’خالی‘ سٹیڈیم میں سابق صدر کا جنازہ

زمبابوے کے سابق صدر رابرٹ موگابے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے افریقی رہنما تو شریک ہوئے لیکن زمبابوے کی عوام نے زیادہ دلچسپی نہیں لی۔

ہرارے میں 60 ہزار کی گنجائش والے سٹیڈیم کا محض 30 فیصد ہی غم زدہ لوگوں سے بھرا تھا (اے ایف پی)

بہت کم افراد کی شرکت والے جنازے میں افریقی رہنماؤں نے زمبابوے کے سابق صدر رابرٹ موگابے کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

 گذشتہ ہفتے 95 سال کی عمر میں سنگاپور میں انتقال کرنے والے موگابے کے جنازے میں دس افریقی رہنماؤں اور سابق صدور نے حصہ لیا، لیکن ہرارے میں 60 ہزار کی گنجائش والے سٹیڈیم کا محض 30 فیصد ہی غم زدہ لوگوں سے بھرا تھا۔

جنوبی افریقہ کے صدر سیرل راماپھوسا پر مجمعے کی جانب سے آوازیں بھی کسی گئیں، جس کی وجہ جوہانسبرگ میں غیر ملکیوں ،خاص طور پر زمبابوے سے تعلق رکھنے والے افراد پر نسلی پرستانہ حملوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔

کینیا کے صدر یہورو کینیاتا نے موگابے کو ’افریقہ کی آزادی کی علامت‘ قرار دیا لیکن زمبابوے کی عوام نے اس جنازے میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔

گو جنازے میں عام افراد کو شرکت کی اجازت تھی لیکن لوگوں کی جانب سے سفری اخراجات کے حوالے سے شکایت سامنے آئی ہیں۔

ہرارے کے ایک رہائشی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا’ ہم خوش ہیں کہ وہ نہیں رہے، میں ان کے جنازے میں کیوں جاؤں؟ ہم ان کے بارے میں مزید کچھ نہیں سننا چاہتے، وہ ہمارے مسائل کی وجہ ہیں۔‘

ایک اور شہری اموس سیدونا کا کہنا تھا’ میں انہیں پسند نہیں کرتا لیکن میں صرف یہ دیکھنے آیا ہوں کہ وہ نہیں رہے۔ چھوٹی ٹیکسی والے (جسے زمبابوے میں کومبیز کہا جاتا ہے) بھی سٹیڈیم تک جانے کا ساڑھے تین ڈالرز مانگ رہے ہیں، یہ میرے لیے بہت زیادہ ہیں کہ میں ایک میت کو الوداع کہنے کے لیے اتنے پیسے خرچ کروں۔ وہ بھی موگابے کے میت کو، بالکل نہیں‘۔

سٹیڈیم کے قریب موبائل چارجر فروخت کرنے والے امیلیا توکانڈے نے کہا’ مجھے وہاں جا کر کیا ملے گا؟ موگابے میرے لیے اب کیا کر سکتے ہیں جو انہوں نے زندہ ہوتے نہیں کیا؟ یہ وقت ضائع کرنے والی بات ہے، مجھے اپنے خاندان کے لیے کام کرنا ہے‘۔

جنازے میں سابق صدر کے کچھ حامیوں نے ضرورشرکت کی۔

موگابے نے سفید فام اقلیت کی حکمرانی کے خلاف ایک سخت گوریلا جنگ لڑی تھی۔ اس وقت ان کا ملک روڈیشیا کہلاتا تھا۔ زمبابوے کی حکمران جماعت زانو پی ایف کے حامیوں نے بھی جنازے میں شرکت کی۔

موگابے کے جنازے کو زمبابوے ائیرفورس کے جہازوں اور21 توپوں کی سلامی پیش کی گئی۔ جنازے میں شریک رہنماؤں نے آدھ کھلے تابوت سے ان کا چہرہ بھی دیکھا۔ ان کی 95 سالہ زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے 95 فاختائیں بھی آزاد کی گئیں۔

موگابے کی میت کو اتوار تک ان کے آبائی علاقے زیومبا میں رکھا جائے گا ،جہاں ان کی باقیات کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک یادگار تعمیر کی جا رہی ہے۔

یہ یادگار ہیروز سٹیڈیم کے قریب تعمیر کی جائے گی۔ اس مقام پر زمبابوے کے زانو پی ایف جماعت سے تعلق رکھنے والے قومی ہیروز کو دفنایا جاتا ہے جنہوں نے ملک سے سفید فام حکومت کے خاتمے میں کردار ادا کیا۔

موگابے کو 2017 میں ایک فوجی بغاوت کے بعد اقتدار سے ہٹایا گیا تھا اور ان کی جگہ ان کے قابل بھروسہ ساتھی ایمرسن منانگگوا کو حکومت سونپی گئی تھی۔

منانگگوا 2018 میں ملکی معیشت بہتر بنانے اور نوکریوں کے مواقعے پیدا کرنے کے وعدے پر انتخابات میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔

لیکن اس کے بعد بھی زمبابوے کی معیشت ایک کے بعد ایک بحران کا سامنا کر رہی ہے اور ان دو سالوں میں مہنگائی میں مسلسل اضافے سے افراط زر میں 175 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔

سٹیڈیم میں شرکا نے موگابے کے اعزاز میں ایک نظم بھی پڑھی ، جس کے الفاظ یہ تھے’ جب آپ گئے تھے تو روٹی ایک ڈالر کی تھی۔‘

مجمعے میں موجود مونشے گڈیانگا نے کہا ’ جب ہم نے ان کے خلاف احتجاج کیا تھا تو روٹی ایک ڈالر سے کم قیمت کی تھی، اب یہ 9 ڈالرز کی ہو چکی ہے۔ صدر موگابے ہم معافی چاہتے ہیں، ہمیں نہیں معلوم تھا کہ معاملات اور خراب ہو جائیں گے‘۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ایجنسیز کی معاونت شامل ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی افریقہ