سائفر کیس: کیا بے چینی تھی کہ رات نو بجے بھی ٹرائل ہو رہا تھا؟ چیف جسٹس عامر فاروق

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’حق جرح ختم ہو جائے تو آپ کی حق تلفی ہوتی ہے، یہ ہارڈ کور کرمینل کیس نہیں، وائٹ کالر کرائم بھی نہیں، اپنی نوعیت کا الگ کیس ہے۔‘

جسٹس عمر فاروق جنوری 2015 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج تعینات ہوئے تھے (تصویر: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ)

سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر منگل کو ہونے والی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’شام کو کیے گئے ٹرائل کی کیا حیثیت ہو گی؟ اس حوالے سے بھی پوچھیں گے، ایسی کیا بے چینی تھی کہ رات کے نو بجے بھی ٹرائل ہو رہا تھا؟ یہ ہائبرڈ قسم کا کیس ہے اور اس میں نئی عدالتی نظیر تیار ہو گی۔‘

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ریاست کے خلاف جرم کا کیس ہے، یہ آخری بات ہو گی کہ میں کہوں کہ ٹرائل کورٹ کے جج کو ایک اور موقع دیں۔ میں میرٹ پر دلائل دوں گا۔ جتنے بھی کیسز بانی پی ٹی آئی کے خلاف آئے ہیں وہ آؤٹ آف دا باکس ہی رہے ہیں۔ توشہ خانہ، سائفر، عدت میں نکاح مقدمات کا فیصلہ بھی اسی طرح ہی آیا ہے۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’حق جرح ختم ہو جائے تو آپ کی حق تلفی ہوتی ہے، یہ ہارڈ کور کرمینل کیس نہیں، وائٹ کالر کرائم بھی نہیں، اپنی نوعیت کا الگ کیس ہے۔‘

بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ ’24 جنوری کو چار گواہوں پر شام تک جرح ہوئی، 25 جنوری کو بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے بیماری کی وجہ سے التوا کی درخواست دی، بانی پی ٹی آئی کے وکیل ایک دن دانت میں تکلیف کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکے، اگلے ہی روز ٹرائل جج نے سرکاری وکلا مقرر کر دیے۔‘

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ’ایسی بھی کیا جلدی تھی؟‘ اس پر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ ’مجھے نہیں معلوم لیکن شاید جج صاحب نے کوئی ڈیدلائن پوری کرنا تھی۔ کھانے کے بغیر سخت سردی میں ہم جیل ٹرائل کے دوران موجود تھے۔ جج صاحب اپنے فیصلے کے پیراگراف 2 میں لکھتے ہیں ہائی کورٹ ڈائریکشن کی وجہ سے جلدی فیصلہ کیا، اعلیٰ عدالت کی کسی ڈائریکشن کے بغیر جلدبازی میں ٹرائل چلایا گیا، سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کی ایک ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ڈائریکشن کالعدم کر دی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’آرٹیکل 10 اے کے مطابق فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہیں، کوئی قدغن نہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ روزانہ کی بنیاد پر بھی ٹرائل منطقی طور پر ہونا چاہیے۔‘

جسٹس میاں حسن گل اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ اگر جج نے جلدبازی میں ٹرائل چلایا تو وہ ہم پراسیکیوشن سے پوچھیں گے۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو نوٹس جاری کر دیے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے لیے سرکاری وکیل تجویز کیے تھے۔

عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ 

سائفر کیس میں رواں برس 30 جنوری کو بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دس، دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بننے والی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے ملزمان کی موجودگی میں مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے سزا سنائی تھی۔ جس کے بعد فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان