ڈپریشن دور کرنے والی عام دوا کا اثر بھی نہ ہونے کے برابر ہے

یونیورسٹی کالج لندن میں سائیکاٹری ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر گلین لیوس نے ڈپریشن کے بہتر علاج کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا: ’ڈپریشن دور کرنے والی دوائیں کام کرتی ہیں، لیکن جس طرح ہم سوچتے ہیں، اس سے کچھ مختلف انداز میں۔

اس تحقیق میں ڈپریشن کی علامات کا سامنا کرنے والے 653 افراد نے حصہ لیا، جن کی عمریں 18 سے 74 برس کے درمیان تھیں اور جنہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ (اے ایف پی)

محققین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے خلاف استعمال کی جانے والی سب سے عام دوا بھی اس مرض کو دور کرنے میں بہت کم مددگار ثابت ہوتی ہے۔

وسیع پیمانے پر کی گئی اس تحقیق کے نتائج کے مطابق سرٹرالین (sertraline) نامی دوا کے پہلے چھ سے 12 ہفتوں کے استعمال کے بعد زیادہ تر لوگوں کو یا تو بہت معمولی یا پھر کوئی اثر نہیں پڑا۔

ماہرین کے مطابق وہ ڈپریشن سے متعلق نتائج دیکھ کر حیران رہ گئے، تاہم یہ واضح تھا کہ یہ دوائیں اضطراب کو دور کرتی ہیں اور انہیں معالج کی ہدایت کے مطابق استعمال کرتے رہنا چاہیے۔

یونیورسٹی کالج لندن کے محققین کی جانب سے کی گئی یہ تحقیق ’دی لانسٹ سائیکاٹری‘ نامی سائنسی جریدے میں شائع ہوئی۔

اس تحقیق میں ڈپریشن کی علامات کا سامنا کرنے والے 653 افراد نے حصہ لیا، جن کی عمریں 18 سے 74 برس کے درمیان تھیں اور جنہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

پہلے گروپ کو 12 ہفتوں تک ڈمی دوا (پلاسیبو) دی گئی جبکہ دوسرے گروپ کو سرٹرالین استعمال کروائی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ سرٹرالین استعمال کرنے والے گروپ میں چھ ہفتوں کے بعد ڈپریشن کی علامات پانچ فیصد کم تھیں، جو کہ دوا کے اثرات کے حوالے سے کوئی بہت ہی قائل کرنے والے ثبوت نہیں تھے۔

12 ہفتوں کے بعد ڈپریشن کی علامات میں 13 فیصد کمی پائی گئی، جسے محققین نے کمزور قرار دیا۔

تاہم اس دوا سے ان افراد کے اضطراب میں واضح کمی دیکھی گئی، یعنی پہلے چھ ہفتوں میں 21 فیصد اور 12 ہفتوں کے بعد اضطراب میں 23 فیصد کمی آئی۔

سرٹرالین استعمال کرنے والے لوگوں کے خیال میں وہ بہتر محسوس کر رہے تھے اور ان کی مجموعی ذہنی صحت میں بہتری آئی تھی۔

یونیورسٹی کالج لندن میں سائیکاٹری ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر گلین لیوس، جن کی نگرانی میں یہ تحقیق ہوئی، نے ڈپریشن کے بہتر علاج کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا: ’ڈپریشن دور کرنے والی دوائیں کام کرتی ہیں، لیکن جس طرح ہم سوچتے ہیں، اس سے کچھ مختلف انداز میں۔‘

پروفیسر گلین کے  مطابق: ’یہ دوائیں پہلے اضطرابی علامات کو دور کرنے کے لیے کام کرتی ہیں اور اس کے بعد ڈپریشن کے ممکنہ اثرات پر۔‘

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’ہمیں یقینی طور پر ڈپریشن کے بہتر علاج کی ضرورت ہے، ہمیں اس میدان میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‘

پروفیسر گلین کے مطابق: ’یہ ایک خلافِ توقع نتیجہ ہے۔ ہمارا ابتدائی مفروضہ یہ تھا کہ یہ پہلے چھ ہفتوں میں ڈپریشن کی علامات دور کرنے کے حوالے سے کام کرے گی لیکن ہمیں یہ نتائج نہیں ملے۔ لہذا یہ خلاف توقع نتائج ہیں۔‘

نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ ریسرچ (این آئی ایچ آر) کی جانب سے فنڈ کی گئی یہ تحقیق ڈپریشن دور کرنے والی دواؤں کی آزمائش کے حوالے سے سب سے بڑی تحقیق ہے۔

اس تحقیق میں ڈپریشن کی کم سے لے کر معتدل علامات کے حامل افراد نے حصہ لیا، جن کے حوالے سے یہ طبی غیریقینی پائی جاتی تھی کہ انہیں واقعتاً علاج کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔

محققین کے مطابق نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ڈپریشن دور کرنے والی دوائیں لوگوں کے وسیع گروہ کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں، انہیں بھی جو ڈپریشن کے معیار پر پورا نہیں اترتے اور وہ جنہیں عمومی اضطرابی کیفیت کا سامنا ہوتا ہے۔

برطانیہ میں 2017 سے 2018 کے دوران 7.3 ارب لوگوں کو ڈپریشن دور کرنے کی دوا تجویز کی گئی، یہ تعداد آبادی کا 17 فیصد بنتی ہے۔

سرٹرالین، ڈپریشن دور کرنے والی دواؤں میں سب سے عام ہے۔

رائل کال آف جی پی کی چیئر ویمن پروفیسر ہیلن سٹوکس لیمپارڈ کے مطابق: ’اس تحقیق سے یہ دلچسپ نتائج ملے کہ کس طرح ایک دوا، جو ڈپریشن دور کرنے کے لیے دی گئی تھی، مریض کی صحت پر دوسرے انداز میں بہتری لارہی ہے اور اضطراب کو کم کر رہی ہے، جسے اکثر ڈپریشن سے جوڑا جاتا ہے۔‘

این ایچ ایس میں ایک سینیئر ریسرچ فیلو اور کنسلٹنٹ سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر سمیر جوہر کا کہنا تھا: ’یہ حیران کن نہیں ہے کہ ڈپریشن کی علامات پر بہت زیادہ فرق نہیں پڑا، جبکہ صرف نصف لوگوں میں ہی ڈپریشن کی تشخیص ہو پاتی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی صحت