ٹانگ سے محرومی کے بعد مایوسی بھلانے کے لیے فٹ بال کا سہارا

اسرائیلی فوج کی فائرنگ کے نتیجے میں معذور ہو کر ایک ٹانگ کے ساتھ کھیلنے والے فلسطینی کھلاڑیوں نے اب 2022 میں ہونے والے ’ایمپیوٹیز فٹ بال ورلڈ کپ‘ میں فتح کا خواب آنکھوں میں سجا رکھا ہے۔

ایک ٹانگ سے محروم فٹبال کے یہ فلسطینی کھلاڑی اسرائیل اور فلسطین کی سرحد پر اسرائیلی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ (بیل ٹریو)

غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد ایک ٹانگ سے محروم ہوجانے والے فلسطینی نوجوانوں نے مایوسی کو شکست دینے کے لیے فٹ بال کے کھیل کا سہارا لے لیا ہے۔

ایک ٹانگ سے محروم فٹ بال کے یہ فلسطینی کھلاڑی اسرائیل اور فلسطین کی سرحد پر اسرائیلی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ شدید زخمی ہو جانے کے بعد ان کی جان تو بچ گئی لیکن آپریشن میں انہیں ایک ٹانگ سے محروم ہونا پڑا۔

ایک ٹانگ کے ساتھ کھیلنے والے ان کھلاڑیوں نے اب 2022 میں ہونے والے ’ایمپیوٹیز فٹ بال ورلڈ کپ‘ میں فتح کا خواب آنکھوں میں سجا رکھا ہے۔

غزہ کے 20 سالہ باہا بھی ان نوجوانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ 14 مئی 2018 کے دن غزہ اور اسرائیل کے درمیان لگی باڑ سے صرف 400 میٹر دور تھے۔ اُس روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کے متنازع شہر کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

14 مئی کی سہ پہر اسرائیلی فوج نے امریکی حکومت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے والے فلسطینیوں پر فائرنگ کی تھی جس میں 60 فلسطینی جان سے گئے جبکہ  2 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔

باہا کے گرد جمع ہونے والے لوگ ٹوٹنے والے شیشے کے ٹکڑوں کی طرح دور ہٹ گئے تھے۔ باہا کو پہلے تو علم ہی نہیں ہوسکا کہ ایسا کیوں ہوا تھا ؟ یا ان کے کچھ دوست ان کے قریب زمین پر بے حس و حرکت کیوں پڑے تھے؟ بعد میں باہا نے دیکھا کہ ان کی ایک ٹانگ ان کی خون آلود پتلون سے باہر نکلی جھول رہی تھی۔

 

اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے 13 سو افراد کے قریب افراد کو غزہ کے مرکزی الشفا ہسپتال لایا گیا۔ جن میں باہا بھی شامل تھے۔

ہسپتال میں ان کا علاج ہوا لیکن ڈاکٹر ان کی دائیں ٹانگ نہ بچا سکے اور اسے کاٹنا پڑا۔ آپریشن کے بعد ملبوسات فروخت کرکے گزر بسر کرنے والے باہا کو یوں محسوس ہوا کہ وہ ٹانگ سے نہیں بلکہ اپنے مستقبل سے محروم ہوگئے ہوں۔

کچھ عرصے بعد ٹانگ سے محروم ہونے والے فلسطینی نوجوانوں کی غزہ میں پہلی فٹ بال ٹیم نے باہا سے رابطہ کیا۔ غزہ کے مرکزی ضلع دیرالبلاہ میں فٹ بال کی تربیت سے وقفے کے دوران ’دی انڈپینڈنٹ ‘ سے بات چیت میں باہا کا کہنا تھا کہ وہ مایوسی کا شکار اور پریشان تھے کہ اب وہ کام نہیں کر سکیں گے۔

باہا کہتے ہیں کہ زخمی ہونے سے پہلے فٹ بال کا کھیل ان کے لیے بہت اہم تھا۔ لیکن ٹانگ سے محرومی کے بعد ان کا خیال تھا کہ اب وہ کبھی فٹ بال نہیں کھیل سکیں گے۔

جب انہیں پہلی بار فٹ بال ٹیم میں شامل ہونے کا کہا گیا تو وہ شک و شبہ کا شکار تھے، کیونکہ اب انہیں تمام کھیل نئے سرے سے سیکھنا ہوگا۔ وہ بغل میں بیساکھی کے ساتھ فٹ بال کھیلنا سیکھ رہے ہیں۔

 

گذشتہ برس اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 7 ہزار فلسطینی زخمی ہوئے جن میں سے 120 افراد کی ایک ٹانگ آپریشن کرکے کاٹ دی گئی۔ ان میں 20 بچے بھی شامل ہیں۔

غزہ میں ’ایمپیوٹی فٹ بال ایسوسی ایشن‘ باہا کے زخمی ہونے سے کچھ عرصہ قبل بنائی گئی تھی۔ ابتدا میں صرف 5 کھلاڑی ایسوسی ایشن کا حصہ بنے۔ کسی کو علم نہیں تھا کہ جلد ہی ٹانگ سے محروم ہونے والے باہا جیسے نوجوان بھی اس میں شامل ہوجائیں گے۔ اس وقت ایسوسی ایشن کے ارکان کی تعداد 80 اور ٹیموں کی تعداد 7 ہے۔

دوسری جانب ایسی خواتین کی ٹیم بنانے کے بارے میں بھی سوچا جارہا ہے جو اسرائیلی فوج کی فائرنگ میں ایک ٹانگ سے محروم ہوچکی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی فٹ بال