لمبے خطبے، بڑے رتبے اور انصاف کی اصل کہانی

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کئی زاویوں سے ایک بھیانک تصویر کشی کی ہے۔ یہ حقائق ایک ایسے ریکارڈ کا حصہ ہیں جس کو نہ تو رد کیا جا سکتا ہے، نہ تلف کیا جا سکتا ہے اور نہ اس پر پٹواری، لفافے اور سیاسی تعصب کی تہمت تھوپ کر متنازعہ اور مدعوم ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کئی زاویوں سے ایک بھیانک تصویر کشی کی ہے (سپریم کورٹ ویب سائٹ)

آج کل شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو کہ جب ہمیں قانون اور انصاف سے متعلق کوئی بڑا خطبہ سننے کو نہ ملے۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی طرف سے پرمغز اور سوچ افروز تقریر کی گونج ابھی باقی تھی کہ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے ایک دھواں دار بیان جاری کر کے قوم کے گرتے ہوئے مورال کو اس امید کے ساتھ سہارا دیا کہ منزل کا تعین ہو گیا ہے اور اب بس چار قدم بڑھا کر خوشحال اور کرپشن فری پاکستان کو پانے کا عمل باقی ہے۔

عدالتی کارروائیوں کے دوران اگر آپ اونچی مسند پر بیٹھے منصفین کی طرف سے کوئی بھاشن سن لیں تو یہی محسوس ہو گا کہ اس ملک میں آئین کا بول مکمل طور پر بالا ہے اور یہ مسکن ہے ایسے قانونی مجاہدین کا کہ جن کے ہوتے ہوئے لاقانونیت کا ہر حملہ آور ٹڈی دل لشکر منہ کی کھا کر جہنم واصل ہو گا۔ یہ ایسے سپاہی ہیں جن کی تلواریں آب کوثر سے دھلی ہوئی ہیں اور استقامت و ولولہ چٹانوں کو ریزہ ریزہ کرنے کی خاصیت سے مالا مال ہے۔

مگر پھر یہ روح پرور تصور خاک میں مل جاتا ہے جب دستاویزی حقائق کچھ ایسے سامنے آئیں جیسے جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنی ایک حالیہ درخواست میں بیان کیے ہیں۔ جج صاحب نام اور کام کے قاضی ہونے کے باوجود آج کل قاضی القضاۃ سمیت دوسرے ہم منصبوں سے انصاف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ مگر بتدریج ان کی اپنی تحریریں گواہی دے رہی ہیں کہ ان کی یہ کوشش ایسے نظام میں پھنس گئی ہے جس میں سے مدعی کا ملیدہ تو نکل سکتا ہے مگر اس کو عدل نہیں مل سکتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کئی زاویوں سے ایک بھیانک تصویر کشی کی ہے۔ ان کی درخواست میں وہ تمام اندر کی باتیں نفیس قانونی پیرواہوں میں بیان کی گئی ہیں جو اگر گلی محلے میں بحث کا باعث بنیں تو ان کو سننے والا طوطا مینا کی کہانی کہہ کر رد کر دے گا۔ مگر اب یہ حقائق ایک ایسے ریکارڈ کا حصہ ہیں جس کو نہ تو رد کیا جا سکتا ہے، نہ تلف کیا جا سکتا ہے اور نہ اس پر پٹواری، لفافے اور سیاسی تعصب کی تہمت تھوپ کر متنازعہ اور مدعوم ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس عیسی کی شہرت، ان کا رتبہ، ان کی قانونی دانش، ان کا خاندانی مقام اور اپنی ذاتی تاریخ ایسے تمام اوچھے ہتھکنڈوں کا ازخود موثر جواب ہیں جو عام حالات میں دوسرے سچ بولنے والوں کے خلاف استعمال کر کے ان کو اپنے دفاع اور وضاحتوں کے چکر میں ڈال دیتا ہے۔

جسٹس فائز عیسی نے یوں تو بیسیوں نکتے اٹھائے ہیں مگر ان کا بڑا مقدمہ اس طریقہ واردات کے خلاف ہے جو زخیم اور دبیض قانونی حوالوں میں چھپا کر عموما انصاف کے تقاضوں کے خلاف کی جاتی ہے۔ یہ کیا ستم ظریفی ہے کہ ان جیسے جج کو متعدد درخواستوں کے ذریعے اپنے خلاف دائر شدہ صدارتی شکایت اور دوسرے ریفرنسز کی کاپیاں طلب کرنی پڑتی ہیں۔ اور بار بار کوشش کے باوجود ایک طویل عرصے تک ان کو باضابطہ طور پر یہ دستاویزات مہیا نہیں ہوتی۔

ان کی اس طلب کو جو ان کا بنیادی قانونی حق ہے ایک خواہ مخواہ کی ہیجانی پالیسی سے تشبیح دے کر یہ تاثر بنایا جاتا ہے کہ جیسے وہ ذرائع ابلاغ میں خبریں چھپوانے کے شوقین ہیں۔ اور یہ سب کچھ اسی وجہ سے کر رہے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر بٹھائے اور سکھائے ہوئے نام نہاد صحافی ان کو کٹہرے میں کھڑا کر کے برابر ایک مذاق قرار دے رہے ہیں۔ ان کے کردار کے بارے میں بے بنیاد اور نفرت انگیز زہر اگل رہے ہیں۔ مگر ان کے بھائی (بعض، سب نہیں) اپنے مشاہدات میں ان کی عزت و تکریم کے تحفظ کے بجائے اس غلاظت کو قانونی مہر کے ساتھ صحیح ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اس فیصلے کا جس کے تحت ان کے خلاف درج ایک شکایت کو بظاہر خارج کر دیا گیا ہے تفصیلی جواب لکھتے ہوئے ایک امر کا خاص خیال رکھا ہے۔ اور وہ یہ کہ اس فیصلے میں موجود الزامات کی بھرمار کہیں ریکارڈ کا وہ حصہ نہ بن جائے جو آنے والے دنوں میں مثال ان کے خلاف استعمال کر کے ان کو عہدے سے فارغ کرنے کا باعث بنے۔ اور اس طرح ان کے بے داغ قانونی کیریئر کو تہس نہس کر دے۔

وہ اپنے جواب میں لکھتے ہیں کہ کیسے صدارتی ریفرنس جو وزیر اعظم عمران خان کی ایما پر لکھا گیا اور ان کے بچوں اور بیوی سمیت ان کو میڈیا کی بدترین مہم جوئی کی بھینٹ چڑھانے کی بنیاد بنا۔ مگر حیرت انگیز طور پر محترم چیف جسٹس اپنے فیصلے میں جسٹس قاضی کی طرف سے وزیر اعظم سے متعلق اٹھائے ہوئے سوالات پر ہی نالاں نظر آتے ہیں۔ جسٹس قاضی کی نفسیاتی کیفیت کو زیر بحث لا کر جسٹس کھوسہ کا فیصلہ جو فورا سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کی زینت بن گیا، یہ تصور قائم کرتا ہے کہ جیسے جسٹس قاضی خوامخواہ کی بے بسی، بے چارگی کی داستانیں گھڑتے ہوئے اپنے منصب کی حدوں کو پار کر رہے ہیں۔ یا پھر یہ کہ وہ ایک بے بنیاد خوف کا شکار ہیں کہ جیسے ان کے خلاف کوئی بڑی گھناؤنی سازش ہو رہی ہے۔

جواباً جسٹس قاضی مختصراً یہ لکھتے ہیں کہ اس قسم کا تجزیہ تو کوئی ماہر نفسیات ہی کر سکتا ہے جو ظاہر ہے کوئی جج یا وکیل تو ہی نہیں سکتا۔ جسٹس قاضی کو سپریم جوڈیشل کونسل کی اس ملاقات میں بھی طلب نہیں کیا جاتا جہاں پر ان کے خلاف دائر شدہ ریفرنس کو رد کر کے ان کا تکنیکی تقاضا تو پورا کیا جاتا ہے مگر شکایت کے درج کرنے والے مشتبہ کردار کو مکمل آزادی دے کر ایسی چھوٹ دی جاتی ہے جس سے مستقبل میں ہر جج کی کردار کشی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھل سکتا ہے۔

 مسٹر بٹ نامی یہ کردار سپریم جوڈیشل کونسل کے باوقار ایوان میں تو بلوایا جاتا ہے، سنا بھی جاتا ہے مگر جسٹس اس موقعے سے محروم رہتے ہیں۔ بٹ صاحب اپنے نام نہاد ریفرنس کے مسترد ہو جانے کے باوجود سر اٹھائے کونسل سے نکلتے ہیں اور جسٹس قاضی دور بیٹھے اپنے بیمار سُسر اور بیٹی کی دیکھ بھال کرتے ہوئے اس منظر کو پریشانی سے دیکھنے اور پھر بعد از واقع جواب تحریر کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔

 جسٹس قاضی ان ملاقاتوں کا بھی بڑی تفصیل سے ذکر کرتے ہیں جو جسٹس کھوسہ کے ساتھ صدارتی ریفرنس کے حوالے سے ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کی تفصیل پڑھنے کے بعد یہ تصویر واضح ہو جاتی ہے کہ کیوں کر جسٹس قاضی کے بعض ساتھی ججز کے ساتھ دوستی میں تناؤ پیدا ہوا۔ یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ان پر لگائے گئے اس الزام میں کتنی حقیقت ہے کہ وہ صدارتی ریفرنس کے بارے میں معلومات رکھنے کے باوجود مبینہ طور پر جان بوجھ کر واویلہ کر رہے تھے کہ ان کے پاس دستاویز سے متعلق کوئی معلومات نہیں۔

یہ درخواست پڑھنے کے بعد یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے لگائے گئے اس الزام کہ جسٹس قاضی نے اپنی اہلیہ اور بالغ بچوں کی جائیدادوں کو اپنے ٹیکس کے کاغذات میں ظاہر نہیں کیا، میں کتنا وزن ہے۔ جسٹس قاضی کا یہ مطالبہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ وہ وزیر اعظم کی ایما پر دائر شدہ ریفرنس کی اس شکایت پر عمران خان کی جانب سے اپنی متعدد بیویوں اور بچوں کی جائیدادوں کے بارے میں معلومات کیوں طلب کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے جس معیار کے لیے عمران خان جسٹس قاضی کو ان کے عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں، وہ اس معیار کی پاسداری نہ کرتے ہوئے خود اپنے عہدے پر کیسےقائم رہ سکتے ہیں، مگر چیف جسٹس کھوسہ کی سربراہی میں کام کرنے والی سپریم جوڈیشل کونسل نے وزیر اعظم سے اس قسم کے سوالات کرنے پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ جسٹس کھوسہ اپنے فیصلے میں اس مطالبے کو اچھے معاشرتی معیار سے گری ہوئی کاوش سمجھتے ہیں۔

جسٹس قاضی ایک مثال ایسی بھی دیتے ہیں جہاں پر جسٹس کھوسہ کا فیصلہ ان کی طرف سے صدر مملکت کو لکھے گئے خط کے الفاظ کو تبدیل کرتا ہوا نظر آتا ہے اور اس تبدیلی کی بنیاد پر ایسے نتائج اخذ کرتا ہے جو نہ تو اس خط کا مقصد تھے اور ہی اس کے متن کا حصہ۔

مگر ان تمام نکات سے بڑھ کر کہیں زیادہ اہمیت جسٹس قاضی کے جواب کے اس حصے کی ہے جس میں وہ اپنی جدوجہد برائے حصولِ انصاف کا سیاق و سباق بیان کرتے ہیں۔

’درخواست گزاران تمام معاملات کو محض بنیادی انسانی حقوق کے اطلاق کے لیے نہیں اٹھا رہے بلکہ اس وجہ سے سامنے لا رہے ہیں کہ بدشگونی ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ آئین میں درج شدہ عدلیہ کی آزادی ایسی نتظامیہ کے ہاتھوں برباد کی جا رہی ہے اپنی تمام آئینی حدود کو پھلانگ چکی ہے۔‘

انصاف دینے والے نظام کی اصل حقیقت کیا ہے اب یہ جاننے کے لیے کسی خاص تحقیق کی ضرورت نہیں۔ خطبے سننے کی بھی ضرورت نہیں۔ سپریم کورٹ کے اپنے جج کے قلم سے لکھے ہوئے الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ شاہراہ دستور پر بنی ہوئی بلند و بالا عمارات کی اصل قدر اور منزلت کیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ