احتساب بیورو یا انتقام بیورو؟

موجودہ چیئرمین مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں اور نہ ہی وہ غیرجانبدار رہے ہیں۔ ان کی موجودگی سے احتساب کا عمل مزید بدنام ہوگا اور جو لوگ واقعی کرپشن میں ملوث رہے ہیں اور سزا بھی پا چکے ہیں انہیں بھی یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ وہ بھی سیاسی انتقام کا شکار ہوئے

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کے 11 ستمبر کے دھماکہ خیز خیالات کے بعد پاکستان میں جاری احتسابی عمل پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے۔

انصاف پر مبنی احتساب کسی بھی جمہوری ملک اور ملکی اداروں کی طاقت کا باعث بنتا ہے۔ ایسا احتساب عوام کے انصاف مہیا کرنے والے اداروں پر اعتماد میں بھی اضافے کا باعث بنتا ہے۔ انصاف پر مبنی احتسابی نظام نہ صرف اہل اور اچھی شہرت کے حامل افراد کو سیاست کے میدان میں سامنے لاتا ہے بلکہ لوگوں میں پبلک سروس کے شعبے میں آنے کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔

ہمارے یہاں بدقسمتی سے آزادی کے فورا بعد احتساب کو مضموم مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ انصاف مہیا کرنے والے ادارے انتظامیہ کے اشاروں پر ناچتے ہوئے قابل اور دیانتدار سیاستدانوں کو نااہل قرار دیتے رہے۔ حد تو یہ ہے کہ حسین شہید سہروردی جیسے اہل اور صاف و شفاف شہرت رکھنے والے سیاستدان کو بھی ایبڈو قانون کے تحت نااہل قرار دیا گیا۔ اندیشہ ہے کہ اگر قائد اعظم زیادہ عرصہ حیات رہتے تو انصاف کے اداروں اور انتظامیہ کا یہ گٹھ جوڑ خدانخواستہ شاید انہیں بھی نااہل قرار دیتا۔

بہرحال ان کی بہن ان گندے انڈوں کے وار سے محفوظ نہ رہ سکیں ۔۔۔ محترمہ فاطمہ جناح کو غدار کہنے میں ان لوگوں کو کوئی عار محسوس نہیں ہوئی۔ یہ قانون اور اخلاق سے عاری احتسابی نظام، سیاستدانوں پر عوام کا اعتماد ختم کرنے کے لیے وجود میں لایا گیا۔ اس کی مدد سے سیاستدانوں کی ایک نئی پود کا آغاز کیا گیا جو کہ انتظامیہ کی پیداوار تھی اور خوشی سے انہیں کے اشاروں پر ناچتی رہی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس نام نہاد اور شرمناک احتساب کا سفر 90 کی دہائی میں بھی زور و شور سے جاری رہا۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے اسے ایک دوسرے کے خلاف خوب استعمال کیا اور جسٹس قیوم جیسے جج انتقام کی بنیادوں پر فیصلے دیتے پائے گئے۔ مشرف دور میں احتساب پستی کی ایک نئی سطح پر پہنچا۔ انصاف کے اصولوں کا خاتمہ کرتے ہوئے، من پسند حکومتیں بنانے کے لیے احتساب کے عمل کو بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرنا شروع کیا گیا۔

انصاف کے عالمی اصولوں کے برعکس اس نظام نے قانونی تاریخ میں پہلی دفعہ ملزمان کو اپنے تئیں بےقصور ثابت کرنا لازم ٹھرایا۔ موجودہ دور میں مشرف دور کی قائم کردہ نیب نے کھلم کھلا انتقام کی شکل اختیار کر لی ہے۔ جو کوئی بھی موجودہ چیرہ دستیوں یا زیادتیوں پر زبان کھولنے کی ہمت کرے تو نیب کے مقدمے اور گرفتاری ان کا مقدر بن جاتے ہیں اور آپ مہینوں بغیر کسی ثبوت کے جیل کی سیر کر سکتے ہیں۔

احتساب کے ادارے کو چلانے والے خود اخلاق سے گری ہوئی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں یا جعلی ڈگریاں حاصل کرتے رہے ہیں۔ احتساب عدالت کے جج بلیک میلنگ کی بنیاد پر فیصلہ دیتے ہوئے پائے گئے۔ انہوں نے خود ھی افشاں بھی کیا کہ انہیں ان کی مخرب الاخلاق ویڈیوز دکھا کر پسند کے فیصلے حاصل کیے گئے۔ ستم در ستم کے ایسے ججوں کے فیصلوں کو فورا کالعدم قرار دینے کی بجائے پورا انتظامی اور انصافی نظام ان کے دفاع پر نکل آیا ہے۔

موجودہ نظامِ احتساب مکمل طور پر یکطرفہ ہو چکا ہے جس کا فوکس صرف حزب اختلاف کے پنجاب اور سندھ کے رہنما ہیں۔ اسی احتساب کو بی آر ٹی میں بدعنوانیاں جو کے آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں تفصیل سے بیان کی گئی ہیں نظر نہیں آتیں۔ مالم جبہ کیس کے ملزمان کو اپوزیشن رہنماؤں کی طرح الزام کی بنیاد پر حراست میں نہیں لیا جاتا۔ ایک ارب درخت سکینڈل احتساب بیورو کی کمزور نظروں سے اوجھل ہے۔ زلفی بخاری نامزد ملزم ہونے کے باوجود حزب اختلاف کے رہنماؤں کے برعکس آزاد زندگی گزار رہے ہیں بلکہ وزارت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ یہی حال وزیر دفاع پرویز خٹک کا ہے۔ علی رضا زیدی کے دوستوں کو نوازنے کے بارے میں اور انہیں حکومتی ٹھیکے دلوانے کی خبریں زبان زد عام ہیں لیکن اس معاملے میں احتساب بیورو کی آنکھ ہے نہ کان نہ زبان۔ 

یہ اب تقریبا طے ہے کہ احتساب بیورو کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا اور کیا جا رہا ہے۔ اس کی کوئی آزاد حیثیت نہیں ہے۔ اس بیورو نے احتساب کے عمل کو بے وقعت کر دیا ہے۔ موجودہ بیورو کے طرز عمل نے پاکستان میں احتساب کے عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اس پر شاید ہمیشہ کے لیے اعتماد بھی اٹھ گیا ہے۔

 چیف جسٹس کے بیان کے بعد اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ موجودہ نظام کو اس کے چیئرمین سمیت تبدیل کر دیا جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی رائے شامل ہو اور انڈونیشیا کی طرز کا ایک نیا احتسابی کمیشن تشکیل دیا جائے جو کہ تمام لوگوں کا احتساب کر سکے اور اس عمل سے کسی کو بھی استثنیٰ نہ ہو۔

انڈونیشیا کا کرپشن خاتمہ کمیشن تقریبا 18 سال سے بلا تفریق ہر طبقے کے لوگوں کا احتساب کر رہا ہے۔ انڈونیشیا کے عوام اس کے محافظ ہیں۔ گذشتہ مختلف حکومتوں میں کسی میں بھی یہ جرات نہیں ہوئی کہ اس کمیشن کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کر سکے۔ ایک طویل عوامی عمل کے بعد اس کے سربراہ اور ممبران کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس کمیشن نے تقریبا ہر شعبہ زندگی سے بدعنوانی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ کمیشن نے کئی وزیروں، ججوں، سیاستدانوں، سرکاری ملازموں، تاجروں اور  فوجی جرنیلوں کو سزا دی ہے۔

انڈونیشیا کی سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے سپیکر تک کو گرفتار کیا گیا اور انہیں ایک غیرجانبدارانہ اور منصفانہ مقدمے کے بعد سزا دی گئی۔ اس پر کسی قسم کا بھی احتجاج نہیں کیا گیا۔ اس منصفانہ طریقے سے احتساب کے عمل کو بڑھانے سے نہ صرف انڈونیشیا میں کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ بیرونی سرمایہ کاروں کا ملک کی عدلیہ پر اعتماد بھی بڑھا ہے۔ گو کہ انڈونیشیا کرپشن کے معاملے میں ایک بدنام ملک رہا ہے اور اس عمل میں مزید بہتری کی ضرورت ہے مگر اس احتسابی نظام نے ایک اچھی شروعات کی ہیں۔

اس کے مقابلے میں ہمارا موجودہ احتسابی نظام اس قدر سیاسی اور بدنام ہو چکا ہے کہ اب اس میں کسی قسم کی بہتری نہیں لائی جاسکتی۔ جس ادارے کے سربراہ کی خواتین کے ساتھ قابل اعتراض ویڈیو سامنے آ چکی ہوں اس کو اس عہدے کا احترام کرتے ہوئے فورا اس عہدے سے الگ ہو جانا چاہیے تھا لیکن وہ ڈھٹائی سے اس غیراخلاقی حرکت کے باوجود اس عہدے سے چمٹے ہوئے ہیں۔ ان صاحب سے کسی قسم کی غیرجانبداری یا اخلاقی برتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

یہ صاحب سیاسی بیانات دینے سے بھی باز نہیں رہتے۔ ان کا کچھ عرصہ پہلے ایک انٹرویو چھپا جس کی انہوں نے ابھی تک تردید نہیں کی اور جس نے موجودہ جانبدار احتساب کی قلعی کھول دی۔ اس میں انہوں نے فرمایا کہ اگر وہ موجودہ حکومت کے خلاف الزامات کو دیکھیں اور اگر ان پر ایکشن لیں تو کہیں یہ حکومت ٹوٹ نہ جائے۔ انہوں نے موجودہ حکومت کی مبینہ کرپشن کے خلاف اقدامات لینے سے بھی انکار کیا ہے کہ وہ صرف 35 سال پرانی کرپشن پر توجہ دیں گے حالانکہ یہ طے شدہ بات ہے کہ وقت کی حکمران جماعت ہی مختلف منافع بخش ٹھیکے دیتی ہے اور اسی میں کرپشن کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اور اگر اسی سطح پر کرپشن کا فوری نوٹس لیا جائے تو ملک کو معاشی نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔

لیکن چونکہ چیئرمین ایک سیاستدان بن چکے ہیں اس لیے وہ اس سیاسی کھیل کا حصہ بنتے ہوئے اپنے مفادات کی حفاظت کرتے آ رہے ہیں۔ اپنے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے انہوں نے مبینہ طور پر پی ٹی آئی حکومت کی خواہش پر اس سال کے اوائل میں خیبرپختونخوا میں دو ڈی جی نیب تبدیل کر دیئے۔ اس ساری بدانتظامی، اقراباپروری، جانبدارانہ اور ناانصافی پر مبنی احتساب ہوتے ہوئے دیکھ کر آخرکار چیف جسٹس بھی بول اٹھے ہیں کہ یہ ’خیال لوگوں میں جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ موجودہ احتسابی عمل ناہموار ہے اور اس کے سیاسی مقاصد ہیں۔‘ انہوں نے بجا طور پر محسوس کیا کہ عوام میں جڑ پکڑتا ہوا یہ خیال ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے کہا کہ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی ضروری ہے لیکن اس عمل میں انصاف کے پہلوؤں کو نظر انداز کرنا اور مروجہ قوانین سے انحراف ملک اور آئین کے لیے اور بھی خطرناک ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس کے ان خیالات نے موجودہ احتسابی عمل پر ایک فرد جرم عائد کر دی ہے اور یہ اب ضروری ہے کہ اس عمل کی آزادانہ طور پر مکمل جانچ پڑتال کی جائے اور قومی اتفاق رائے سے ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں قابل اور ایماندار اہلکار کے علاوہ ایک غیرمتنازعہ اور اعلی اخلاق کا حامل چیئرمین لایا جائے جو کہ اپنے اختیارات میں مطلق العنان نہ ہو اور مختلف مقدمے چلانے کے فیصلے بیورو کے دیگر ہم رتبہ ممبران کے ساتھ مل کر اتفاق رائے سے کریں۔

موجودہ چیئرمین مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں اور نہ ہی وہ غیرجانبدار رہے ہیں۔ ان کی موجودگی سے احتساب کا عمل مزید بدنام ہوگا اور جو لوگ واقعی کرپشن میں ملوث رہے ہیں اور سزا بھی پا چکے ہیں انہیں بھی یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ وہ بھی سیاسی انتقام کا شکار ہوئے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ