انڈین ’ٹرمپ‘ کو دھچکہ ضرور پہنچا، لیکن وہ واپس آ سکتے ہیں

وزیر اعظم مودی کی شاندار فتح حاصل کرنے میں ناکامی عالمی سطح پر انڈیا کے اثر و رسوخ کو متاثر کرے گی۔ لیکن اگر ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی ہوئی تو ان کی قسمت توقع سے کہیں زیادہ روشن ہو سکتی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ اور انڈین وزیر اعظم مودی 24 فروری، 2020 کو احمد آباد کے نواح میں واقع سردار پٹیل سٹیڈیم میں حاضرین کے نعروں کا جواب دے رہے ہیں (اے ایف پی)

انڈین وزیر اعظم نریندرمودی دنیا کے پہلے رہنما تھے جنہوں نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا۔

یہ بڑے اعزاز کی بات تھی اور اس سے مضبوط سیاسی روابط کا اظہار ہوا۔ بعد ازاں ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا جس میں خاتون اول میلانیا ٹرمپ، نائب صدر مائیک پنس اور ٹرمپ انتظامیہ کے تمام بڑے عہدے دار موجود تھے۔

تین سال بعد 2020 میں ٹرمپ نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ انڈیا کا دورہ کیا اور مودی کی آبائی ریاست گجرات کے موتیرا سٹیڈیم (اب نریندر مودی سٹیڈیم) میں ’نمستے ٹرمپ‘ نامی ریلی میں ایک لاکھ 25 ہزار لوگوں نے شرکت کی۔

جھومتے ہوئے مجمعے کو ایلٹن جان کا گانا ’میڈ مین اکراس دا واٹر‘ امریکی ڈسکو گروپ ’ویلیج پیپل‘ کا گیت ’ماچومین‘ سنوائے گئے۔ یہ دونوں گانے ٹرمپ کی ریلیوں میں بہت مقبول ہیں۔

بعد ازاں ٹرمپ نے جذباتی تقریر میں کہا ’امریکہ کو انڈیا سے محبت ہے، وہ اس کا احترام کرتا ہے۔ انڈیا پوری انسانیت کے لیے امید ہے۔‘

انہوں نے مودی کو ایسی شخصیت قرار دیا کہ ’وہ ایسے شخص ہیں جنہیں اپنا حقیقی دوست کہنے پر مجھے فخر ہے۔‘

پھر صورت حال تبدیل ہو گئی۔ حالیہ دنوں میں دونوں پاپولسٹ اور طاقت ور رہنماؤں کو سنگین ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مودی کو عام انتخابات میں وسیع پیمانے پر متوقع اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔

ٹرمپ وہ پہلے سابق صدر بن گئے جنہیں سزا سنائی گئی اور انہیں خاموشی اختیار کروانے کے مقدمے میں تمام الزامات میں قصوروار پایا گیا۔

لیکن مودی اب بھی دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کی تیسری مدت کے لیے قیادت کریں گے، خواہ وہ اتحادی انتظامیہ کی سربراہی ہی کیوں نہ ہو، جو اس وقت دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے اور رواں دہائی کے آخر تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔

 ٹرمپ کو ملنے والی سزاؤں کے ووٹروں پر اثرات کے بارے میں رائے عامہ کے جائزوں میں مختلف آرا کا اظہار کیا گیا ہے۔

لیکن وہ چھ میں سے پانچ ریاستوں میں جو بائیڈن پر سبقت جاری رکھے ہوئے ہیں اور دنیا کی واحد باقی سپر پاور کے سربراہ کی حیثیت سے واپس آسکتے ہیں۔

اگرچہ آزاد خیال یورپ کا زیادہ تر حصہ ٹرمپ کی واپسی کے امکان سے پریشان ہے لیکن مودی کے حلقے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایسا ہونا مختلف وجوہات کی بنا پر انڈیا کے لیے اچھا ہو گا۔

بائیڈن انتظامیہ واشنگٹن میں اپنے حالیہ پیشروؤں کی طرح انڈیا کے ساتھ سفارتی، اقتصادی اور فوجی تعلقات استوار کر رہی ہے جس کا مقصد اسے چین کے خلاف اتحاد میں سٹرٹیجک شراکت دار بنانا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی بائیڈن کی ٹیم نے تشویش کا اظہار کیا ہے جو زیادہ حساس انڈین حکام کے نزدیک مودی کی ہندو قوم پرست پالیسیوں کے بارے میں ’لیکچرز‘ ہیں۔

ان پالیسیوں کے بارے میں امتیازی ہونے کا تسلسل کے ساتھ دعویٰ کیا جاتا ہے اور انہیں مسلمانوں کے معاملے میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے۔

یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو ان مسائل سے زیادہ پریشانی نہیں ہو گی۔ ٹرمپ پر گذشتہ انتخابات میں وائٹ ہاؤس کے ماسکو نواز امیدوار ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔

مغربی ملکوں میں اس بارے میں خوف پایا جاتا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آ گئے تو روسی صدر ولادی میر پوتن کے ساتھ کسی قسم کے معاہدے کر سکتے ہیں۔ جو کچھ یوکرین جنگ میں ہو رہا ہے وہ تشویش کی سب سے واضح وجہ ہے۔

اس بات کا بھی امکان ہے کہ غزہ کے معاملے پر بن یامین نتن یاہو کو لگام دینے کی بائیڈن کی کوششیں اگرچہ محدود ہیں، لیکن ٹرمپ کے دور میں بند کر دی جائیں۔

ضروری نہیں کہ ان میں سے کوئی بھی عوامل مودی حکومت کو پریشان کریں۔ انڈیا سستا روسی تیل خریدنا بند کرنے کے معاملے میں امریکہ اور مغرب کے دباؤ کی مزاحمت کر رہا ہے۔

یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ اگر ٹرمپ، ماسکو کے ساتھ تعلقات کو بہتر بناتے ہیں تو اس طرح کا دباؤ کم ہو جائے گا۔

اگرچہ انڈین حکومت نے غزہ میں عام شہریوں کے قتل کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اس کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات خاص طور پر دفاع کے حوالے سے، نمایاں طور پر مضبوط ہوئے ہیں اور مجموعی طور پر انڈیا نے اسرائیل پر تنقید نہیں کی گئی۔

مودی حکومت ٹرمپ انتظامیہ میں شامل شخصیات کو ممکنہ طور پر انڈیا کے لیے مددگار کے طور پر دیکھ رہی ہے۔

سٹیو بینن، جو اندرونی حلقوں میں اپنا مقام کھونے سے پہلے ٹرمپ کے قریبی مشیروں میں سے ایک تھے، رپبلکن دائیں بازو میں انتہائی بااثر ہیں۔

رپبلکن ہندو اتحاد کے اعزازی چیئرمین بینن، مودی کے پرجوش مداح ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’مودی، ٹرمپ سے پہلے، ٹرمپ تھے۔‘

ٹرمپ انتظامیہ میں انڈین ورثے کے مالک افراد کے بڑے عہدوں پر فائز ہونے کا سوال بھی موجود ہے۔ 

ٹرمپ پینٹاگون کے سابق چیف آف سٹاف کاش پٹیل کو سی آئی اے کا قائم مقام ڈائریکٹر بنانا چاہتے تھے۔ امکان ہے کہ اگر ٹرمپ جیت جاتے ہیں تو انہیں بڑا سکیورٹی عہدہ مل جائے گا۔

امید کی جا رہی ہے کہ رپبلیکن پارٹی کی جانب سے نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والی امیر کاروباری شخصیت وویک رام سوامی کو نائب صدر کے امیدوار کے طور پر چنا جائے گا۔

اس بات کا امکان نہیں کہ رام سوامی اس عہدے کے لیے ٹرمپ کی پسند ہوں گے۔

مزید برآں، برطانوی حکومت میں نمایاں کردار کے لیے انڈین پس منظر کے مالک شخص کے تقرر سے بریگزٹ کے بعد وہ تجارتی معاہدے کرنے میں کوئی مدد نہیں ملی جس کے بڑی کوششیں کی گئیں۔

ڈھائی سال کے عرصے پر محیط  14 ادور پر مشتمل بات چیت کے باوجود، اس تجارتی معاہدے پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کے دور میں دستخط نہیں ہو سکے۔ 

برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے بعد ٹریزامے نے یورپ سے باہر جو دورہ کیا وہ انڈیا کا تھا۔ کووڈ کی وبا بورس جانسن کے دورے میں رکاوٹ بن گیا۔

اگرچہ وہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے کئی بار انڈیا کا دورہ کر چکے تھے۔ اسی طرح لِز ٹرس بھی وزیر خارجہ کی حیثیت سے انڈیا جا چکی تھیں۔

دوسرے برطانوی وزیر خارجہ سمیت تجارت اور دفاع کے وزرا بھی انڈیا جا چکے ہیں۔ برطانوی وزرا کی مسلسل تبدیلی سے انڈین حکومت اکتا گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس بات کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ جن وزرا کے ساتھ وہ بات چیت کر رہے ہیں وہ تین ماہ میں اپنے عہدوں پر برقرار رہیں گے یا نہیں۔

جیریمی کوربن کے دور میں لیبر پارٹی کے انڈین حکومت کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے کیوں کہ انہوں نے کئی بار کشمیر کے بارے میں بات کی جس کے انڈیا اور پاکستان دونوں دعوے دار ہیں اور یہ تنازع تلخی کا سبب ہے۔

مودی کی پارٹی بی جے پی کی اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی کی برطانوی شاخ نے 2019 کے عام انتخابات میں ان 48 نشستوں پر لیبر پارٹی کے خلاف ٹوری امیدواروں کے حق میں مہم چلائی جہاں مقابلہ سخت ہوتا ہے۔

تب سے کئی شیڈو وزرا انڈیا کا دورہ کر چکے ہیں۔ کیئر سٹارمر کا کہنا ہے کہ وہ روابط کو ’نئے سرے سے تشکیل دینے‘ اور مودی کے ساتھ ’احترام پر مبنی کھلی دوستی‘ کے لیے پرعزم ہیں جس کی ’بنیاد ماضی کی بجائے مستقبل پر ہو۔‘

حقیقت یہ ہے کہ مودی مجموعی طور پر اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے زیادہ تر ممکنہ اتحادی ان کے سخت گیر ہندو قوم پرست خیالات سے متفق نہیں، اور انہیں برادریوں کو بنیاد بنا کر کی جانے والی سیاست میں نرمی لانی پڑے گی۔

انڈیا یورپی یونین کا تیسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ حالاں کہ تجارتی معاہدہ ابھی تک طے نہیں ہوا۔

تجارت، ٹیکنالوجی اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون کی متعدد تجاویز زیر غور ہیں اور اگلے سال ہونے والے دو طرفہ سربراہ اجلاس میں پانچ سالہ روڈ میپ پیش کیا جا سکتا ہے۔

امریکہ نے انڈیا سے ’نیٹو پلس‘ میں شامل ہونے کی درخواست کی ہے، جس کا مقصد غیر رسمی شراکت داری کو مغربی اتحاد کا حصہ بنانا ہے نیٹو اور یورپی یونین کی انڈٰیا کے قریب آنے میں دلچسپی چین کی وجہ سے ہے۔

انڈیا، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ چار فریقی گروپ کا رکن ہے اور انہی ممالک کے ساتھ مالابار بحری مشقوں کا بھی حصہ ہے جن کا مقصد چینی توسیع پسندی کا مقابلہ کرنا ہے۔

چین معدنیات کی دولت سے مالا مال سمندروں اور جزیروں پر اپنے دعوے کے ساتھ جنوبی اور مشرقی بحیرہ کی دیگر ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف ہے۔ انڈیا اور چین کی فوجوں کے درمیان ان کی ہمالیائی سرحدوں پر جھڑپیں ہو چکی ہیں۔

امریکی انتظامیہ، چاہے وہ بائیڈن کی قیادت میں ہو یا ٹرمپ کی قیادت میں، چین کی طرف سے درپیش چیلنجوں پر توجہ مرکوز کرتی رہے گی۔ وہ توقع کرے گی کہ انڈیا جو سپر پاور کا درجہ حاصل کرنا چاہتا ہے، آگے بڑھے عالمی سطح پر وسیع تر کردار ادا کرے۔

مودی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ جواب میں انڈیا عالمی معاملات پر زیادہ توجہ دے کر اور اندرون ملک تقسیم کی پالیسی پر توجہ کم کر کے فائدہ اٹھائے گا۔ عام انتخابات سے واضح ہو چکا ہے کہ لوگوں کو اس پالیسی سے پریشانی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ