کشمیر میں 13 ہزار گرفتاریاں، تازہ رپورٹ

بھارت کے زیرانتظام کشمیر کا دورہ کرنے والی چند بھارتی خواتین نے حقائق پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں وہاں تعینات بھارتی فوج پر سخت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

 رپورٹ کے مطابق کرفیو کی خلاف ورزی کی صورت میں مختلف خاندانوں کے افراد کو پوچھ گچھ کے لیے لے جا یا جاتا ہے (اے ایف پی)

بھارت کے زیرانتظام کشمیر کا دورہ کرنے والی چند بھارتی خواتین نے حقائق پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں وہاں تعینات بھارتی فوج پر سخت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ان الزامات میں فوجیوں کی جانب سے 13 ہزار کشمیری لڑکوں کو گھروں سے اٹھانے اور کرفیو کی خلاف ورزی کی صورت میں مختلف خاندانوں کے افراد کو پوچھ گچھ کے لیے لے جانا شامل ہے۔

بھارتی جریدے نیوزلانڈری کے مطابق یہ رپورٹ گذشتہ روز کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رہنما اینی راجہ، کول جیت کور اور نیشنل فیڈریشن آف انڈین وویمن کی پنکھڑی ظہیر، پرگھتی شیل مہیلہ سنگھا تھن کی وکیل پونم کوشک اور مسلم وویمن فورم کی سیدہ حمید نے نئی دہلی کے پریس کلب میں جاری کی ہے۔

پانچوں خواتین نے 17 سے 21 ستمبر تک کشمیر کا دورہ کیا۔

بھارتی خواتین پر مشتمل ٹیم سری نگر سمیت ضلع شوپیاں، پلوامہ اور باندی پورہ کے متعدد دیہات کا دورہ کیا۔ ان کی رپورٹ میں کشمیر کو خود مختاری دینے والے ملکی آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد علاقے میں پابندیاں لگنے کے بعد عینی شاہدین کی کہانیاں بھی شامل ہیں۔

عینی شاہدین کی شناخت خفیہ رکھنے کے لیے ان کے نام تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔

فیکٹ فائینڈنگ رپورٹ کے مطابق بعض مقامات پر رات آٹھ بجے تک گھروں کی روشنیاں بند کرنا لازمی ہے۔ ’باندی پورہ میں ہم نے دیکھا کہ اس امکان کے پیش نظر کہ سکول جلد کھل جائیں گے ایک نوجوان لڑکی  نے امتحان کے لیے پڑھنے کی خاطر غلطی سے لیمپ جلتا رہنے دیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ کے مطابق: ’کرفیو کی اس خلاف ورزی نے بھارتی فوجیوں کو مشتعل کر دیا اور وہ دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہو گئے اور گھر میں موجود صرف دو مرد حضرات والدہ اور بیٹے کو پوچھ گچھ کے لیے ساتھ لے گئے۔‘

رپورٹ میں باندی پورہ کی ایک خاتون کا بیان بھی درج ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ ’سورج غروب ہونے کے بعد جب میرا چار سالہ بیٹا کتوں کے بھونکنے کی آواز سنتا ہے تو بے اختیار اپنی انگلی ہونٹوں پر رکھ لیتا ہے۔ میں موبائل فون آن نہیں کر سکتی کہ اس کی روشنی میں اپنی چھوٹی سی بیٹی کو ٹوائلٹ لے جا سکوں۔ روشنی دور سے دکھائی دے جاتی ہے اور اس کی قیمت ہمارے مردوں کو جان دے کر چکانی پڑتی ہے۔‘

پریس کانفرنس میں اینی راجہ نے کہا ہے کہ آرٹیکل 370 نے ’کشمیر کے لوگوں کو متحد کر رکھا تھا۔ اب وہ یک زبان ہو کر بولتے ہیں اور ان کے جذبات ایک جیسے ہیں۔ جنس اور عمر کے امتیاز کے بغیر لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ان کے احترام اور عزت نفس پر آخری حملہ ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ بھول سکتے ہیں اور نہ معاف کر سکتے ہیں۔ تمام اضلاع میں جذبات کی یہی کیفیت ہے۔ وہ بہت غصے میں تھے لیکن لڑنے کے لیے پرعزم تھے۔‘

اینی راجہ نے کہا: ’کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے میں نے محسوس کیا کہ یہ بھارت کی جانب سے نسل کشی کی ایک شکل ہے۔ انسانی سانحہ جنم لے چکا ہے جس کی کئی وجوہات ہیں جن میں مواصلاتی نظام کی مکمل بندش، ٹرانسپورٹ کا غائب ہونا اور بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے ہونے والی اموات شامل ہیں۔‘

رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران  بھارتی فوجی 13 ہزار نوجوان لڑکوں کو اٹھا کر لے جا چکی ہے۔ اینی راجہ نے صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری چند ماؤں سے ملاقات ہوئی ہے جن کا کہنا تھا کہ ان کے بچوں کو فوج نے رات کے وقت اٹھایا اور ہمیں ان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔‘

اینی راجہ کا کہنا تھا کہ فوج ’قابض طاقت‘ کے طور پر کشمیر میں نہیں رہ سکتی۔ ’فوج جس تک ظلم و تشدد سے کام لے رہی ہے اور لوگوں کو دہشت زدہ کرنے میں مصروف ہے، خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیوں کو رات کے وقت ڈرایا جاتا ہے تو یہ خطرناک عمل ہے جس سے ہم سب سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ حکومت کی کمشیر میں پالیسی کیا ہے؟‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے سوا کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے جو کشمیر میں اجلاس کر سکے۔ انہوں نے کہا: ’یہ جمہوریت اور لوگوں کے جمہوری حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘

پونم کوشک ایڈووکیٹ نے بتایا کہ جب ان کی ٹیم کشمیر بار ایسوسی ایشن کے دفتر پہنچی تو وہ بند تھا۔ ’جن وکلا سے میری بات ہوئی انہوں نے کہا کشمیر میں عدالتی نظام مفلوج ہو چکا ہے اور یہاں آئینی حقوق کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘

’آرٹیکل 370 کی بدولت بھارت اور کشمیر کے درمیان جو پل قائم تھا وہ ٹوٹ چکا ہے۔‘

خواتین کی ٹیم نے پانچ دنوں میں جو کچھ کشمیر میں دیکھا اسے بیان کرتے ہوئے سیدہ حمید نے کہا: ’ایسا لگتا ہے کہ علاقے پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ وہاں رہنے والے لوگوں کو بالکل علم نہیں ہے کہ باہر کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ میڈیا رپورٹس ہیں نہ مظاہرے۔ یہ آہنی پردے کے پیچھے زندگی گزارنے کے مترادف ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’کسی کشمیری لڑکے کو دیکھ کر بھارتی فوجی غصے میں آ جاتے ہیں اور تھپڑ مارنا معمول بن گیا ہے۔‘

رپورٹ کے اختتام پر بتایا گیا ہے کہ ’ہم جہاں بھی گئے وہاں دو طرح کے بھرپور جذبات ملے۔ پہلی خواہش آزادی تھی۔ وہ بھارت یا پاکستان سے کچھ نہیں چاہتے۔ بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں 70 سال سے ذلت اور تشدد کا نشانہ بنے والے لوگ اب اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی سے بھارت کے ساتھ ان کا آخری تعلق بھی ٹوٹ چکا ہے۔ وہ لوگ جو ہمیشہ بھارت کے ساتھ کھڑے رہے ہیں انہیں بھی حکومت نے مسترد کر دیا ہے کیونکہ ان کے تمام رہنماؤں کو پی ایس اے(پبلک سیفٹی ایکٹ) کے تحت گھروں پر نظر بند کر دیا گیا ہے۔ عام لوگ اپنا لیڈر خود بن گئے ہیں۔ ان کی تکلیف اور صبر بیان نہیں کیا گیا۔‘

’دوسرا جذبہ ماؤں کا تکلیف سے رونا ہے۔ ان کے بچوں کی زندگیاں بندوق یا فوجی بوٹوں کی نظر نہیں ہونی چاہییں۔‘ بھارتی خواتین کی ٹیم نے کشمیر کے حالات میں بہتری کے لیے یہ مطالبات کیے ہیں۔

  • کشمیر میں تمام ذرائع مواصلات بشمول انٹرنیٹ اور موبائل فون نیٹ ورکس فوری طور پر بحال کر دیے جائیں۔
  •  آرٹیکل 370 اور 35 اے لازمی طور پر بحال کر دیے جائیں۔
  •  آئندہ جموں و کشمیر کے سیاسی مستقبل کے بارے میں تمام فیصلے ریاستی لوگوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے کیے جائیں۔
  •  جموں و کشمیر کے شہری علاقوں سے فوج کو ہٹا لیا جائے۔
  •  بھارتی فوج کی زیادتیوں کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی بنائی جائے جو مقررہ مدت میں رپورٹ دے۔

جریدے نیوز لانڈری نے اس رپورٹ میں لگائے الزامات پر تبصرے کے لیے بھارتی فوج کے ترجمان سے رابطہ کیا ہے تاہم تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا