انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی نیم خود مختار حیثیت ختم کیے جانے کے بعد وہاں پہلے مقامی انتخابات کا انعقاد آج (بروز بدھ) سے ہو رہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 87 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز پر مشتمل اس متنازع مسلم اکثریتی علاقے میں بہت سے لوگ 2019 میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی طرف سے نئی دہلی کا کنٹرول نافذ کیے جانے پر ناراض ہیں۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو وفاقی طور پر مقرر کردہ ایک گورنر کنٹرول کرتا ہے اور ایک دہائی میں پہلی بار ہونے والے ان انتخابات کو بہت سے لوگوں نے عملی پالیسیوں سے زیادہ اپنے جمہوری حقوق کے استعمال کے طور پر دیکھا ہے۔
تین مرحلوں میں ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلےکے دوران مرکزی شہر سری نگر میں پولنگ شروع ہوتے ہی رائے دہندگان قطاروں میں کھڑے نظر آئے۔ پہاڑی علاقے میں حفاظتی انتظامات اور لاجسٹک مسائل کی وجہ سے جغرافیائی طور پر ووٹنگ کا عمل مرحلہ وار تقسیم کیا گیا ہے۔
سری نگر کے قریب واقع ضلع پلوامہ میں قطار میں کھڑے 31 سالہ نوید پارا نے کہا: ’10 سال بعد ہمیں سنا جا رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میری آواز کی نمائندگی ہو۔‘
اس خطے میں تقریبا پانچ لاکھ انڈین فوجی تعینات ہیں اور 35 سال سے یہاں جاری شورش کے باعث ہزاروں افراد جان سے جا چکے ہیں۔
سری نگر میں ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر 65 سالہ مختار احمد تانترے نے کہا: ’ہمارے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ (اقتدار کی) باگ ڈور۔۔۔ بیوروکریسی کے حوالے کر دی گئی تھی۔‘
توقع کی جارہی ہے کہ ووٹ ڈالنے کی شرح ماضی کے انتخابات کے برعکس زیادہ ہوگی۔ اس سے قبل ہونے والے انتخابات کا انڈین حکمرانی کے مخالف علیحدگی پسندوں نے کشمیر کی آزادی یا اس کے پاکستان میں انضمام کا مطالبہ کرتے ہوئے بائیکاٹ کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جموں کے ضلع ڈوڈہ سے تعلق رکھنے والے 73 سالہ تاجر نوین کوتوال نے کہا: ’ساری سیاست تنازعے کے گرد گھومتی ہے۔ مجھے صرف اس بات کی پروا ہے کہ ہم ایسے تعلیم یافتہ نمائندوں کے زیرِ حکومت ہوں جو ہمارے مسائل حل کر سکیں۔‘
الیکشن سے قبل بھرپور انتخابی مہم میں غیر معمولی طور پر کھلے مباحثے ہوتے رہے ہیں، لیکن اہم فیصلے نئی دہلی کے ہاتھ میں رہیں گے، جن میں سکیورٹی اور کشمیر کے گورنر کی تقرری بھی شامل ہے۔
نئی دہلی کے پاس 90 رکنی اسمبلی کے ذریعے منظور کردہ قانون کو منسوخ کرنے کا اختیار بھی ہوگا۔
مختار احمد تانترے نے کہا کہ ’لوگ جا کر اپنے مقامی نمائندے سے التجا کر سکتے ہیں۔ اگر وہ کچھ نہیں بھی کر سکتے، پھر بھی وہ کم از کم مسائل تو بتا سکتے ہیں۔‘
ووٹنگ کا آخری مرحلہ دو اکتوبر کو ہوگا اور اس کے نتائج چھ دن بعد متوقع ہیں۔
سرکاری طور پر جموں و کشمیر کے نام سے موسوم یہ علاقہ متنازع اور دو حصوں میں تقسیم ہے۔
اس کا ایک حصہ مسلم اکثریتی وادی کشمیر ہے۔ دوسرا ہندو اکثریتی جموں ضلع ہے، جو جغرافیائی طور پر جنوب میں پہاڑوں کی وجہ سے تقسیم ہے۔
تیسرا حصہ، چین کی سرحد سے متصل بلند تبتی لداخ ہے، جس کو انڈین حکومت نے 2019 میں ایک علیحدہ وفاقی علاقہ بنا دیا تھا۔
اس سال کے بدترین تشدد کے واقعات میں سے کچھ جموں میں ہوئے ہیں، جہاں نریندر مودی نے ہفتے کو انتخابی مہم چلائی تھی، جس کے دوران انہوں نے انڈین حکمرانی کے خلاف لڑنے والے عسکریت پسندوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ’دہشت گردی عنقریب ختم ہونے والی ہے۔‘
مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا دعویٰ ہے کہ علاقے کی حکمرانی میں تبدیلیوں نے کشمیر میں امن اور تیز رفتار اقتصادی ترقی کا ایک نیا دور شروع کیا ہے۔
2019 میں ان تبدیلیوں کے نفاذ کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں اور کئی ماہ تک انٹرنیٹ اور مواصلات بھی بند رہے۔
اگرچہ 2014 کے بعد سے مقامی اسمبلی کے لیے یہ پہلے انتخابات ہیں، لیکن رائے دہندگان نے جون میں قومی انتخابات میں حصہ لیا تھا، جب مودی نے اقتدار میں تیسری بار کامیابی حاصل کی۔
ضلع جموں سے تعلق رکھنے والے 38 سالہ کسان سید علی چوہدری نے کہا کہ ایک مقامی منتخب حکومت ’اتنے سالوں کے بعد سکون کا باعث ہوگی۔‘ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس اسمبلی کے اختیارات پہلے کے مقابلے میں ’بہت کم‘ ہوں گے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ جب ہماری مقامی حکومت ہوگی تو روزانہ ہزاروں لوگ سیکریٹریٹ جائیں گے۔ اس وقت آپ کو شاید ہی وہاں کوئی نظر آئے کیونکہ لوگ پریشان ہیں۔‘
بہت سے کشمیری 2019 کے بعد شہری آزادیوں پر عائد پابندیوں سے بد دل ہیں اور بی جے پی صرف اقلیتی نشستوں پر امیدوار میدان میں اتار رہی ہے، جو ہندو اکثریتی علاقوں میں ہیں۔
ناقدین کا الزام ہے کہ بی جے پی مسلم اکثریتی علاقوں میں آزاد امیدواروں کی تعداد میں اضافے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے تاکہ ووٹ تقسیم کیے جا سکیں۔
اس علاقے میں ملازمتوں کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے۔ جولائی میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں بے روزگاری کی شرح 18.3 فیصد ہے، جو قومی اوسط کے مقابلے میں دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔
علاقے کی تبدیل شدہ حیثیت کے ساتھ ٹیکس رکاوٹیں ختم ہونے کے بعد چھوٹے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کو نقصان اٹھانا پڑا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت نے علاقے سے باہر کی کمپنیوں کو تعمیرات اور معدنیات نکالنے جیسے بڑے ٹھیکے دیے ہیں۔
ایک بے روزگار گریجویٹ 27 سالہ مدیحہ نے کہا: ’میری سب سے بڑی تشویش بے روزگاری ہے۔ زندگی گزارنے کے اخراجات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔‘