پاکستان اور انڈیا کے درمیان محدود پیمانے پر جاری جنگ کب ختم ہو گی، یا آگے چل کر کیا شکل اختیار کرے گی، اس بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن یہ واضح ہے کہ دونوں اطراف معاشی نقصان ہو رہا ہے۔
جنگ جیسی غیر یقینی صورت حال میں سرمائے کو محفوظ رکھنا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ ایسے میں سرمائے کو سونے اور کرنسی کی شکل میں محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ جنگ میں سونے اور ڈالر کی قیمت بڑھ سکتی ہے؟
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان میں ڈالر کی قیمت تقریباً دو سال سے مستحکم ہے۔ اس میں زیادہ اضافہ یا کمی نہیں ہوئی ہے۔
’آخری بڑی ہلچل نگران حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہوئی تھی۔ حکومت کی تبدیلی ایک بڑی وجہ تھی اور ڈالر مافیا نے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا۔
’اب انڈیا پاکستان کشیدگی کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ شاید ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو گا جو نہیں ہوا اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام کو پاک فوج کی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کی کڑی نظر کے باعث ڈالر کی قدر نہیں بڑھ رہی۔ سٹیٹ بینک نے بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں سے کہا کہ وہ ڈالر پر خصوصی نظر رکھیں اور سخت کنٹرولز کے بعد ڈالرز مہیا کریں۔
ان کے مطابق ’عرب ممالک سے پاکستان میں آنے والی ترسیلات میں تقریباً 90 فیصد انڈین ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے آتی ہیں۔ تمام بڑی ایکسچینج کمپنیوں کے مالک یا تو انڈین ہیں یا ایکسچیبج کمپنیوں کے بڑے عہدوں پر انڈین بیٹھے ہیں۔
’بدقستمی سے گلف ممالک میں ایک بھی بڑی ایکسچینج کمپنی پاکستانی نہیں ہے۔ اس کی وجہ پاکستان کے سخت قوانین اور این او سی کے مسائل ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کمپنیاں پاکستان کی ترسیلات زر پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔
ظفر پراچہ نے کہا کہ پاکستان انڈیا جنگ سے ترسیلات میں فرق پڑنے کے امکانات کم ہیں۔ جنگ پاکستان اور انڈیا میں ہے جبکہ کمپنیاں عرب ممالک میں ان کے قوانین کے مطابق چلنے کی پابند ہیں۔
’اگر انڈین کمپنیاں فارن کرنسی پاکستان بھیجنے میں رکاوٹ پیدا کریں گی تو سٹیٹ بینک نے اس کا بھی بہترین انتظام کر رکھا ہے۔ بیرون ملک پاکستانی روشن ڈیجیٹل اکاونٹ کے ذریعے بآسانی پیسہ پاکستان بھیج سکتے ہیں۔
’یورپین کمپنیوں سے پیسہ بآسانی پاکستان بھیجا جا سکتا ہے۔ زیادہ نقصان انڈیا کا ہو گا، پاکستان کا نہیں۔ سٹیٹ بینک انھیں ایک ڈالر کے عوض 15 سے 20 روپے فائدہ دیتا ہے۔
’یہ فائدہ ختم ہو جائے گا اور ٹریڈنگ کو بھی نقصان پہنچے گا۔ اگر یہ نفع حکومت مقامی ایکسچینج کمپنیز کو دے تو وہ تین گنا سے زیادہ ڈالر پاکستان لا سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’کرنسی ڈیلرز مناسب ریٹ پر ڈالر خریدوفروخت کر رہے ہیں۔ زیادہ منافع نہیں رکھا ہوا تاکہ عوام اچھے ریٹ پر ڈالر بیچے اور ہم سرکار کی ضرورت پوری کر سکیں۔
’ایکسچینج کمپنیوں کے پاس وافر ڈالر موجود ہیں۔ اس وقت ایکسچینج کمپنیاں ماہانہ 50 کروڑ ڈالرز حکومت کو دے رہی ہیں۔
’اگر ضرورت پڑی تو جنگی حالات میں بھی ملک کو ایک ارب ڈالر ماہانہ دے سکتے ہیں۔ ہم حکومت کو ڈالر کی کمی نہیں آنے دیں گے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ڈالر خریدنے کے لیے عوام میں ہیجان کی کیفیت نہیں ہے۔ نہ ہی لمبی لائنیں ہیں اور نہ ہی ڈیمانڈ بڑھی ہے۔ عوامی سطح پر عمومی رائے یہ ہے کہ انڈیا کے ساتھ جنگ عارضی ہے اور یہ جلد ختم ہو جائے گی۔
’ماضی میں بھی جنگیں ہوتی رہی ہیں اور چند دن بعد حالات نارمل ہو جاتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ اس لیے سرمایہ محفوظ کرنے کے خیال سےعوام بڑے فیصلے نہیں لینا چاہتی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق ’حکومت نے 60 دن کے لیے سونے کی درآمد اور برآمد پر پابندی عائد کر دی ہے اور زیرو ریٹ بھی ختم کر دیا ہے۔
پاکستان سوئٹزرلینڈ سے سونا درآمد کرتا ہے لیکن پاکستانی سونا دبئی کے راستے انڈیا بھیجا جاتا ہے۔
انڈیا گولڈ کی خریداری بڑھا کر پاکستانی ڈالر ذخائر پر حملہ آور ہو سکتا تھا، اس لیے عارضی پابندی لگانا درست ہو سکتا ہے تا کہ سونے اور ڈالر کی قیمت نہ بڑھے۔‘
پاکستان جیمز جیولری ٹریڈرز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے پیٹرن ان چیف محمد اختر خان ٹیسوری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان انڈیا جنگ کی وجہ سے پاکستان میں سونے کی قیمت بڑھنے کے امکانات کم ہیں۔
’پاکستان سونے کی قیمت کا تعین مقامی مارکیٹ کی بجائے زیادہ تر انٹرنیشنل مارکیٹ کرتی ہے۔ امریکہ اور چین کی جنگ سونے کی قیمت پر بڑا اثر ڈال سکتی ہے نہ کہ پاکستان اور انڈیا کی جنگ۔
’سونے کے بڑے خریدار جرمنی، چین اور انڈیا ہیں۔ پاکستان میں قوت خرید کم ہونے کی وجہ سے عوامی سطح پر سونے کی طلب بہت کم ہو چکی ہے۔
’تقریباً 70 فیصد کاریگر یہ کام چھوڑ چکے ہیں۔ سنار بھی دیگر کاروباروں سے گھر کا خرچ چلا رہے ہیں، اس لیے سونے کی نسبت ڈالر میں سرمایہ کاری بڑھنے کے امکانات زیادہ ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’سونا ذخیرہ کرنے کا رجحان کم ہے کیونکہ یہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے، لیکن سٹاک ایکسچینج گولڈ سیکٹر میں اچھی ٹریڈنگ ہو رہی ہے۔
’پچھلے ماہ پیپر گولڈ میں تقریبا 90 ارب روپے کی ٹریڈنگ ہوئی ہے۔ اس میں بہتری ہو رہی ہے۔
’جنگ کی وجہ سے ابھی تک گولڈ پر منفی یا مثبت اثرات نہیں آئے ہیں، لیکن زیادہ عرصے تک پابندی لگانے سے سونے کی تجارت کو نقصان پہنچے گا اور بلیک مارکیٹ میں ریٹ بڑھنے کا خدشہ ہے۔‘