’قسم اس وقت کی!‘ پاکستان انڈیا جنگ کے موضوع پر لالی وڈ کی فلمیں

پاکستان انڈیا کے موضوع پر ایک فلم جب سینیماؤں میں چلی تو اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان جنگ جاری تھی۔

پاکستان میں جنگ کے موضوع پر درجنوں فلمیں بنی ہیں جنہیں عوام میں پذیرائی بھی حاصل ہوئی ہے (پبلک ڈومین)

جب بھی اوڑی، بالاکوٹ، یا پہلگام حملے جیسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ساتھ ساتھ بالی وڈ کو ایک بنا بنایا سکرپٹ بھی مل جاتا ہے تاکہ وہ اگلے چھ سات سال تک انہی واقعات پر درجن بھر فلمیں بنا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کر سکیں۔

افسوس کہ پاکستانی فلم انڈسٹری وینٹی لیٹر پر ہے، اس لیے وہ اس کا موثر جواب دینے سے قاصر ہے۔ لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ تقسیم ہند کے بعد سے پاکستانی ہدایت کاروں اور کہانی نویسوں نے ہجرت کے واقعات پر کئی فلمیں پیش کیں۔ ان فلموں میں ہجرت کا کرب اور درد نمایاں رہا۔ ساتھ ساتھ ان بےرحمانہ اور سفاک واقعات کو موضوع بنایا گیا جو تقسیم ہند کے وقت پاکستان کا رخ کرنے والی آبادی کے ساتھ پیش آئے۔

کشمیر پر انڈین قبضے کے موضوع پر قیام پاکستان کے تین سال بعد ہی ایک فلم ’جہاد‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ یاسمین، ظہور راجا، نذر اور اجمل جیسے ستاروں کی اس فلم کی ہدایات ظہور راجہ نے ہی دی تھیں۔

کشمیر پر ہی ہدایت کار ریاض شاہد کی فلم ’یہ امن‘ کو بھلا کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے، جس میں نشو، جمیل، سنگیتا، اقبال حسین، ادیب اور تابش کی اداکاری کا معیار غیر معمولی رہا۔ یہ فلم 1971 میں نمائش پذیر ہوئی۔ ہدایت کاری کے شعبے میں وارد ہونے والی نو آموز شخصیات کے لیے یہ فلم ایک آئیڈل قرار دی جاتی ہے جس کے ذریعے ہدایت کاری کے اسرارو رموز سے آگاہی حاصل کی جا سکتی ہے۔

یہ بھی اپنی جگہ حقیت ہے کہ 1965 کی پاکستان انڈیا جنگ سے پہلے پاکستان میں انڈین فلموں کی نمائش ہوتی رہی لیکن جنگ کے بعد ان پر مکمل پابندی لگ گئی۔ جس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستانی فلمی صنعت کو ہوا۔ اسی سال فلم ’مجاہد‘ نے دھوم مچا دی۔

بیگم سید شریف کی فلم سازی اور جمیل اختر کی ہدایت کاری میں بننے والی اس تخلیق نے پوری قوم میں ایک نیا ولولہ اور جوش بھر دیا، کیونکہ اس کا مشہور گیت ’ساتھیو، مجاہدو، جاگ اٹھا سارا وطن‘ دراصل قومی نغمہ بن گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حمایت علی شاعر کے لکھے ہوئے اس گیت کو مسعود رانا، شوکت علی، نور جہاں، روشن اور دیگر نے گنگنایا۔ یہ وہی نغمہ تھا جس نے شوکت علی کو بھی پاکستانی فلمی نگری میں قدم جمانے کا بھرپور موقع دیا۔ یہ نغمہ اس لیے بھی مشہور ہوا کیونکہ جب اس فلم کو سینیما گھروں میں لگایا گیا تو پاکستان اور انڈیا کی جنگ جاری تھی۔

سال 1965 کے بعد پاکستانی ہدایت کاروں نے پاکستان انڈیا جنگ پر کئی فلمیں بنا کر سینیما گھروں کی زینت بنائیں۔ جنگ کے فوراً بعد اگلے ہی سال یعنی 1966 میں ہدایت کار اقبال رضوی کی فلم ’آزادی یا موت‘ کو پیش کیا گیا۔

غیر معروف ستاروں کی اس فلم نے اپنی کہانی اور ہدایت کاری کی بنا پر تہلکہ مچایا اور اس فلم نے زبردست پذیرائی کے ساتھ ساتھ بہترین کاروبار بھی کیا۔ فلم میں افواج پاکستان کے کارناموں اور بہادری کو موضوع بنایا گیا جن کی وجہ سے 1965 کی جنگ میں پاکستان سرخرو ہوا۔

اسی جنگ کے موضوع پر ہدایت کار ایم اے رشید نے فلم ’معجزہ‘ بنائی۔ جس میں صبیحہ سلطانہ، اسد بخاری، زینت اور اسلم پرویز جیسی سٹار کاسٹ تھی۔ فلم میں نو کے قریب گانے تھے جن میں سے بیشتر میں وطن اور افواج پاکستان کی محبت سے سرشار نغمہ نگاری کی گئی۔

1966 میں ہی شباب کیرانوی کی تخلیق ’وطن کا سپاہی‘ سینیما گھروں تک پہنچی، جس کا موضوع بھی گذشتہ سال ہونے والی پاکستان انڈیا جنگ ہی تھا۔ فلم کے نمایاں ستاروں میں محمد علی، فردوس، سلمیٰ ممتاز اور ننھا شامل تھے۔ یہ فلم رفیع خاور یعنی ننھا کی بطور اداکار پہلی تخلیق تھی۔

پاک انڈیا جنگ پر بننے والی پاکستانی فلموں کا یہ سلسلہ تھما نہیں بلکہ اسی سال ایک اور سپر ہٹ فلم ’ہمراہی‘ بھی پیش کی گئی۔ فلم میں اس وقت کے صدر ایوب خان کی مشہور زمانہ اس تقریر کو حصہ بنایا جو انہوں نے چھ ستمبر 1965 کو انڈین جنگی جنون پر کی تھی۔ ہدایت کار راجہ حفیظ کی اس تخلیق میں خالد، حیدر، حنا، سنتوش اورمحمد علی شامل تھے جبکہ فنکاروں کی ایک بڑی تعداد نے مہمان اداکار کے طور پر اپنی جھلک دکھائی۔

اسی برس ہدایت کار سیف الدین سیف کی فلم ’مادر وطن‘ نے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ دیبا، محمد علی، زینت، طالش اور رنگیلا کی اسی تخلیق میں مقبول ترین گیت ’اے راہ حق کے شہیدو، وطن کی تصویرو‘ مالا بیگم نے گنگنایا جو آج تک اپنی شاعری، گلوکاری اور موسیقی کی بنا پر مقبول ہے۔

’مادر وطن‘ کی خاص بات یہ رہی کہ اسے سیف الدین سیف نے پروڈیوس بھی کیا جبکہ کہانی بھی انہی کی لکھی ہوئی تھی۔

پاک فضائیہ کی زبردست کامیابی اور کامرانی پر 1969میں ہدایت کار اے جے کاردار نے فلم ’قسم اس وقت کی‘ تخلیق کی جس میں شبنم، طارق عزیز، سورن لتا اور صاعقہ کے ساتھ روزینہ نے اہم کردار ادا کیا۔

1971 میں جب پاکستان اور انڈیا کی ایک بار پھر جنگ چھڑی تو 1973 میں پنجابی زبان کی فلم ’آن‘ میں اسی پاک انڈیا جنگ کا پس منظر رکھا گیا۔ فلم کے ستاروں میں حبیب، عالیہ، سنگیتا، طالش، سلطان راہی، منور ظریف اور اقبال حسین شامل تھے۔

اس فلم نے اوسط درجے کا کاروبار کیا۔ پھر ہدایت کار نذیر حسین نے ’چمن خان‘ پیش کی۔ سلطان راہی مرکزی ہیرو تھے۔ پنجابی زبان کی اس فلم میں 1971 کی جنگ کی صورت حال کو موضوع بنایا گیا۔ سلطان راہی کے علاوہ فلم میں نیلو، اقبال حسین، نغمہ، ادیب، مصطفیٰ قریشی اور عشرت چوہدری شامل رہے۔ یہ فلم سینیما گھروں میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی۔

آنے والے برسوں میں پاکستانی فلم پھر گنڈاسا کلچر میں الجھ کر رہ گئی۔ وہ شور دھیما ہوا تو ’بنکاک کے شعلے‘ یا پھر ’مس فلاں‘ یا ’منڈا‘ کے جال میں پھنس گئی۔ کمرشل فلموں کو اہمیت دی جانے لگی اور فلم سازوں نے دولت اکٹھا کرنے کے لیے پاکستانی فلموں کو موضوعات سے دورسے دور کردیا۔ گھسی پٹی یکسانیت زدہ کہانیوں کی بھرمار اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے لالی وڈ کے نگار خانوں میں ویرانی کے ڈیرے جمالیے تو ہر طرح کی فلمیں ناپید ہو گئیں۔

ہدایت کار بلال لاشاری نے 2013 میں اس جمود کو توڑتے ہوئے ’وار‘ پیش کی۔ شان شاہد نے سابق پاکستانی آرمی افسر کا کردار نبھایا جو انڈیا کی جانب سے بڑھتی ہوئی جارحیت اور دہشت گردی کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے پھر سے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔

فلم میں ایکشن ہالی وڈ کے معیار کا رہا۔ شمعون عباسی اور میشا شفیع نے انڈین جاسوس کا کردار نبھایا جبکہ شا ن شاہد کے ساتھ علی عظمت اور حمزہ علی عباسی کی اداکاری نے فلم بینوں کو خاصا متاثر کیا۔ فلم کی عکس بندی صرف پاکستان ہی نہیں اٹلی اور استنبول میں بھی ہوئی۔ فلم کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ اگر کوئی پرامن پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی چالیں چلے گا تواسے ہر حال میں ناکامی کا سامنا ہی کرنا پڑے گا۔

پاک فضائیہ کی 2019 میں شاندار کامیابی کے گرد گھومتی ’شیر دل‘ بھی اپنی کہانی اور ہدایت کاری کی بنا پر موضوع بحث رہی۔ اس تخلیق کا پس منظر 27 فروری 2019 کا واقعہ تھا جب پاکستانی شاہینوں نے انڈین طیارے کو مار گرایا اور پھرپائلٹ ابھینندن گرفت میں آ گیا۔

ہدایت کار اظفر جعفری کی اس فلم کے نمایاں اداکاروں میں میکال ذوالفقار، حسن نیازی، آرمینہ خان اور سبیکا انعام شامل رہے۔

اب تک کی پاکستانی تخلیقات کا جائزہ لیں تو ان میں پاکستانی ہیروز کو خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا وہیں یہ قومی یکجہتی اور قربانی کے جذبے کو نمایاں کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ان فلموں میں مبالغہ آرائی نہیں بلکہ حقیقت کا پہلومقدم رکھا گیا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ