صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی دوسری مدت صدارت میں اپنے پہلے سرکاری غیر ملکی دورے پر آج (منگل کو) سعودی عرب پہنچ رہے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان گرم جوش تعلقات کا مظہر ہے۔
امریکہ کے صدر مشرق وسطیٰ کے اس دورے میں سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کریں گے جبکہ وہ اس بار اپنی پہلی صدارت کے دورہ مشرق وسطیٰ کے برعکس اسرائیل نہیں جا رہے۔
عرب نیوز کے مطابق گذشتہ 80 برسوں کے دوران سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات ایک ہمہ جہت شراکت داری میں ڈھل چکے ہیں، جو دفاع، تجارت، تعلیم، سیاحت اور دیگر کئی شعبوں پر محیط ہے.
یہ تعلقات سرکاری عہدیداروں سے لے کر عام شہریوں تک رابطوں کے ذریعے ہر سطح پر برقرار ہیں۔
1974 سے اب تک چھ امریکی صدور سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں جو خطے میں سعودی عرب کے مستحکم کردار کی اہمیت کا ثبوت ہے۔
30 سال سے زائد عرصے پر محیط سفارتی کیریئر اور مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر مائیکل اے ریٹنی کا ماننا ہے کہ ’آج امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان ہر سطح پر رابطوں سے یہ تعلقات مستحکم ہوئے ہیں، چاہے وہ حکومتی سطح پر ہوں یا عوامی سطح پر۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’تعلقات میں یہ مضبوطی ہمارے ہمہ گیر تعاون میں نمایاں ہے، چاہے وہ سکیورٹی معاملات ہوں یا تجارت، ثقافت یا سوڈان، یمن اور دیگر مقامات پر علاقائی تنازعات کو حل کرنے کی مشترکہ کوششیں ہوں۔‘
واشنگٹن اور ریاض کے درمیان دفاع اور توانائی کے میدان میں ابتدائی تعاون سے لے کر تعلیم، ٹیکنالوجی، سیاحت اور فنون لطیفہ جیسے جدید شعبوں میں اشتراک تک، دو طرفہ تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ گہرے ہوتے گئے ہیں جوعلاقائی حالات، عالمی تبدیلیوں اور باہمی مفادات میں مزید مضبوط ہوتے گئے۔
تعلیم ان تعلقات کی ایک بنیادی ستون رہی ہے خصوصاً کنگ عبداللہ سکالرشپ پروگرام کے ذریعے جس کے تحت ہزاروں سعودی طلبہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے گئے۔ اسی طرح امریکی طلبہ بھی اسلامک یونیورسٹی مدینہ اور تبادلہ پروگراموں جیسے فلبرائٹ پروگرام اور ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی اور سعودی وزارت تعلیم کے درمیان شراکت جیسے منصوبوں کے تحت سعودی عرب آئے ہیں۔
حالیہ برسوں میں ’ویژن 2030‘ نے سعودی امریکی تعاون میں نئی جان ڈال دی ہے جس کے تحت تعلیم کے تبادلے کے مواقع پیدا کیے ہیں اور اربوں ڈالر کی مشترکہ سرمایہ کاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
امریکہ کی طرح سعودی عرب بھی اختراع، کاروبار اور تکنیکی ترقی کو اہمیت دیتا ہے۔ بعض ماہرین ان تعلقات میں نئی شروعات ٹرمپ کے 2017 کے سعودی عرب کے دورے یا ’ویژن 2030‘ سے جوڑتے ہیں لیکن ان کی بنیادیں کئی دہائیوں قبل رکھ دی گئی تھیں۔
یہ تعلقات 1940 کی دہائی میں اسی وقت قائم ہوئے جب شاہ عبدالعزیز آل سعود نے نجد اور حجاز کے قبائل کو متحد کر کے 1932 میں مملکت سعودی عرب کی بنیاد رکھی۔
14 فروری 1945 کو دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے قریب صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے یالٹا کانفرنس کے بعد سویز کینال میں موجود یو ایس ایس کوئنسی بحری جہاز پر شاہ عبدالعزیز سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات ایک تاریخی موڑ ثابت ہوئی۔ روزویلٹ نے یورپ سے یہودی پناہ گزینوں کے مسئلے پر شاہ سے مشورہ کیا اور جنگ کے بعد کے عالمی نظام میں سعودی عرب کو ایک کلیدی شراکت دار کے طور پر دیکھا۔
روزویلٹ جانتے تھے کہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے ساتھ ہی ایک نیا عالمی نظام ابھر رہا ہے اور امریکہ کو سعودی عرب جیسے ملک سے دوستی کرنی ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان باہمی احترام قائم ہوا۔ روزویلٹ نے سعودی شاہ کو ڈی سی-تھری مسافر طیارہ تحفے میں دیا جن کہ بعد میں مزید دو طیارے بھی دیے گئے جس سے سعودی ایئرلائن (سعودیہ) کی بنیاد رکھی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روزویلٹ دو ماہ بعد وفات پا گئے لیکن ’کوئنسی ملاقات‘ نے دونوں ممالک کے درمیان دیرپا تعلقات کی بنیاد رکھ دی تھی۔ 1953 میں دونوں ممالک نے ’متحدہ دفاعی معاونت معاہدے‘ کے تحت عسکری روابط کو باضابطہ شکل دی۔
1957 میں شاہ سعود نے امریکہ کا پہلا سرکاری دورہ کیا اور واشنگٹن نیشنل ایئرپورٹ پر صدر آئزن ہاور سے ملاقات کی۔ اس دورے میں خطے کے دیرپا مسائل کے حل پر زور دیا اور سعودی مسلح افواج کو مضبوط کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
ابتدائی تعاون میں انفراسٹرکچر کی تعمیر بھی شامل تھی جیسا کہ 1958 میں امریکی آرکیٹیکچر مینورو یاماساکی نے ظہران سول ایوی ایشن ٹرمینل ڈیزائن کیا۔ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں سفارتی دورے جاری رہے جس سے دو طرفہ تعلقات کو دوام ملا۔
1966 میں شاہ فیصل نے صدر لنڈن جانسن سے ملاقات کی اور 1971 میں وہ ایک بار پھر امریکہ گئے جہاں انہوں نے صدر رچرڈ نکسن سے ملاقات کی۔
1974 میں دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ اقتصادی کمیشن کی تشکیل سے معاشی تعلقات مزید گہرے ہوئے۔ اس کمیشن کا مقصد صنعتی ترقی، تعلیم، ٹیکنالوجی اور زراعت میں تعاون بڑھانا تھا۔ اسی سال صدر نکسن نے سعودی عرب کا تاریخی دورہ کیا جس سے دوطرفہ شراکت داری کو مزید تقویت ملی۔
1982 میں نائب صدر جارج ڈبلیو بش نے شاہ خالد کے انتقال پر تعزیت کے لیے ریاض کا دورہ کیا جس سے ان کے سعودی شاہی خاندان سے ذاتی تعلقات کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔
1990 کی دہائی میں خلیجی جنگ کے دوران دونوں ممالک کے درمیان عسکری تعاون اس وقت مزید بڑھا جب سعودی افواج نے امریکی اور اتحادی افواج کے ساتھ مل کر کویت کی آزادی میں کردار ادا کیا۔ امریکی فوج کی سعودی عرب میں تعیناتی نے خطے کے دفاع میں سعودی کردار کو اجاگر کیا۔
2002 میں شاہ عبداللہ کے دورہ امریکہ کے موقع پر صدر جارج ڈبلیو بش کے ٹیکسس میں واقع فارم ہاؤس میں ملاقات کے دوران سعودی امریکی سٹریٹجک ڈائیلاگ کا آغاز ہوا جس کا مقصد انسداد دہشتگردی، توانائی، تعلیم اور معیشت میں تعاون کو فروغ دینا تھا۔
یہ تعاون 2005 میں کنگ عبداللہ سکالرشپ پروگرام کے آغاز سے مزید مستحکم ہوا جس کے تحت ابتدائی طور پر نو ہزار سے زائد سعودی طلبہ امریکہ گئے، بعد میں یہ تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔
2007 میں امریکی خاتون اول لورا بش نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور 2009 میں صدر باراک اوباما نے بطور صدر اپنا پہلا سعودی دورہ کیا۔
2012 میں جی سی سی امریکہ سٹریٹجک فورم کا قیام عمل میں آیا جس کے افتتاحی اجلاس میں وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ریاض میں شرکت کی اور خلیجی تعاون کونسل کے امریکہ کے علاقائی وژن میں کردار کو نمایاں کیا۔
2017 میں صدر ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں دورہ ریاض سعودی امریکی تعلقات میں ایک نئی جہت ثابت ہوا۔ اس دورے میں تین اہم اجلاس منعقد ہوئے جن میں ’عرب اسلامی امریکی سربراہی اجلاس‘، سعودی امریکی دو طرفہ سربراہی اجلاس اور امریکہ جی سی سی تعاون اجلاس شامل تھا۔ ان اجلاسوں کا محور عسکری اور تجارتی تعاون کو وسعت دینا تھا۔
جب سعودی عرب اپنے ’ویژن 2030‘ کے تحت معیشت اور عالمی کردار کی تشکیل نو کر رہا ہے، امریکہ کے ساتھ شراکت داری، توانائی، ماحول دوست ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل ترقی جیسے شعبوں میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
صدر ٹرمپ کا یہ دورہ ان کوششوں کو مزید مضبوط کرے گا خاص طور پر سرمایہ کاری، جدت اور عوامی رابطوں کے نئے نئے راستے تلاش کیے جائیں گے۔
1945 میں صدر روزویلٹ اور شاہ عبدالعزیز کے درمیان ہونے والی تاریخی ملاقات سے لے کر آج کے سٹریٹجک تعاون تک، سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات نے جنگوں، معاشی تبدیلیوں اور سیاسی اتار چڑھاؤ کا سامنا کیا ہے۔ دونوں ممالک مستقبل کی جانب دیکھتے ہوئے اب بھی ایک دوسرے کے لیے استحکام اور مواقع کا اہم ذریعہ ہیں۔